03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایسے گھر کی ملکیت کا حکم جس کی خریداری میں بیوی نے زیور دیا ہو
85416ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

میرا نام شہروز علی ہے،میرے والد مظفر علی صاحب کے گھر کی شرعی طور پر کیسے تقسیم ہوگی؟ورثا کی تعداد 07 ہے:والد،والدہ،تین بھائی اور دو بہنیں،جن کے نام درج ذیل ہیں:

والد مظفر علی،والدہ کشورسلطانہ،بہن ثناء  اور ثمرہ، بھائی عدنان علی،نعمان علی،شہروز علی ،والد صاحب کی موجودہ ملکیت ایک گھر اور ایک پلاٹ تھا،پلاٹ نعمان نے سیل کر کے اپنے کاروبار میں لگایا۔

ہمارے گھر کی نوعیت یہ تھی کے والد محترم مویشی تاجر تھے،ان کی تجارت مختصر تھی،جس میں والدہ بھی ان کے ساتھ کام کرتی تھی اور دو بڑے بھائی عدنان اور نعمان دونوں کپڑے کی شاپ پر ملازمت کرتے تھے،اسی میں ہمار اگزر بسر چل رہا تھا،پھر ہم نے اپنے تایا جان سے برابر والا مکان خریدا،جس میں میری والدہ کا سونا فروخت کرکے اور کچھ بھائیوں نے رقم  ملا کر اس کی قیمت ادا کی،پھر 2007 میں ہم نے اپنی بڑی بہن ثناء کا نکاح کیا،جس کے اخراجات نعمان،عدنان والد اور والدہ نے اٹھائے،پھر بڑے بھائی عدنان کی آرمی میں نوکری لگی اور نعمان بھائی نے کسی کے ساتھ پارٹنر شپ میں اپنے کاروبار کا آغاز کیا،تقریبا تین سال کے بعد میرے والد صاحب کا ایک پلاٹ تھا جسے سیل کر کے نعمان نے پارٹنر کے پیسے دے کر کاروبار اپنا کرلیا۔

2013 میں بڑے بھائی عدنان کی شادی کے اخراجات دونوں بھائیوں نے مل کر اٹھائے اور شادی میں ہم نے گھر کی مرمت کروائی،ماربل لگوایا،کلر کروایا،ایک واش روم بنوایا اور کچھ پلستر کا کام ہوا، جس پر ٹوٹل خرچ تقریبا چار لاکھ کے قریب آیا ۔

2014 میں پھر شہروز بھی کراچی روزگار کے سلسلے میں ملازمت کرنے کے لیے گیا،لیکن گھر کے اخراجات دونوں بڑے بھائی اور والد صاحب مل کر ہی چلاتے تھے،2019 میں والد صاحب کو فالج کا اٹیک ہوا جس میں والد صاحب ہاتھ، ٹانگ اور زبان سے معذور ہو گئے،پھر ہم نے 2020 میں چھوٹی بہن اور نعمان کی شادی کی،جس کے تمام اخراجات نعمان نے اٹھائے،تقریبا اخراجات پانچ ،چھ لاکھ روپے تھے اور والد صاحب کا جتنا بھی علاج ہوا وہ بھی نعمان علی نے کروایا ہے،میں بھی کراچی چھوڑ کر گیا تھا تو میں بھی نعمان بھائی کے ساتھ دکان پر بیٹھنے لگا۔

پھر 2021 میں کراچی سے جو میرے پاس پیسے جمع تھے،یعنی ایک لاکھ 80 ہزار روپے،ان سے میں نے ایک چھوٹی سی دکان کا آغاز کیا،اب ہم تینوں بھائیوں میں سے ایک آرمی میں ہے،نعمان کا کارو بار ویسے ہی تھا،شہروز نے اپنا کاروبار الگ کر لیا، پورے گھر کے اخراجات کے ہم تینوں بھائی مل کر تین حصے کر لیتے ہیں اور آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں۔

 2022 میں شہروز علی نے تینوں بھائیوں اور والدہ کو مشورہ کے لیے اکٹھا کیا،اس نے اپنی شادی کے لیے عرض کی کہ اگر تینوں بھائی پیسے ملا کر اوپر کا پورشن بنالیں تو رہنے میں آسانی ہو جائے گی،لیکن دونوں بھائیوں نے انکار کر دیا کہ ہمارے پاس گنجائش نہیں ہے،شہروز علی نے اوپر کا پورا پورشن بنوایا،جس میں واش روم،کچن،کمرہ اور برآمدہ تھا،جس کے اوپر خرچ تقریبا 13 لاکھ روپے آیا ،اس تفصیل کی روشنی میں درج ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:

پہلا سوال یہ ہے کہ اس گھر کی شرعی تقسیم کیسے ہوگی؟

تنقیح: سائل نے بتایا کہ شروع والا گھر تو والد کی ملکیت تھا،پھر تایا سے جو گھر لیا گیا اس گھر کی زمین میں والد کے دو بھائی حصہ دار تھے،دادا نے انہیں ترغیب دی کہ وہ اپنے حصوں سے ہمارے والد کے حق دستبردار ہوجائیں تو وہ مان گئے اور والد صاحب سے زمین کی قیمت نہیں لی،البتہ تایا نے صرف تعمیر کی رقم والد صاحب سے لی جو ایک لاکھ اسی ہزار روپے تھی۔

اس رقم کی ادائیگی کے لئے والدہ نے اپنا زیور والد صاحب کو دیا ہبہ کردیا کہ آپ اسے بیچ کر اس رقم کی ادائیگی کردیں اور ساٹھ ہزار روپے والد نے اپنے پاس جمع شدہ رقم سے ادا کئے،جبکہ بقیہ ادائیگی والدہ کے پاس جمع شدہ پیسوں سے کی گئی،کیونکہ گھر کے اخراجات چلانے کے لئے والدہ بھی والد کے ساتھ ہاتھ بٹایا کرتی تھیں اور چھوٹے موٹے کام کرتی تھیں،اس کے علاوہ بچے بھی چھوٹے موٹے کام کرکے حاصل ہونے والی اجرت والدہ کے حوالے کرتے تھے،کیونکہ خرچہ وغیرہ والدہ چلایا کرتی تھیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر سائل کی جانب سے بتائی گئی تفصیل حقیقت پر مبنی ہے کہ اس زمین پر تعمیر کی مد میں رقم کی ادائیگی کے لئے والدہ نے جو رقم اور زیور والد کو دیا تھا ہبہ کی نیت سے دیا تھا تو پھر یہ مکان مکمل والد کی ملکیت ہے اور جب تک وہ زندہ ہیں انہیں اس میں تصرف کا حق حاصل ہوگا،ان کی مرضی کے بغیر کسی کو اس میں تصرف کا حق حاصل نہیں،جبکہ ان کی وفات کے بعد ان کی وفات کے وقت زندہ ورثا میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔

حوالہ جات

"الدر المختار " (5/ 688):

"(و) شرائط صحتها (في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول) كما سيتضح".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

11/جمادی الاولی1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب