85417 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
نعمان کے پاس جو کاروبار ہےاس کا کیا حکم ہوگا؟ حالانکہ اس میں والد صاحب کے فروخت کردہ پلاٹ کے پیسے بھی شامل ہے اور اسی کاروبار میں سے اس نے تمام تر اخراجات کیے جس میں اپنی اور بہن کی شادی اور گھر وغیرہ کے اخراجات بھی شامل ہیں،والد صاحب کے بیماری پر جو اخراجات ہیں وہ بھی شامل ہیں۔
تنقیح: اس کاروبار کے حوالے سے مزید وضاحت یہ ہے کہ شروع میں سرمایہ دوسرے بندے نے لگایا تھا،نعمان اس کے ساتھ کام کیا کرتا تھا اور جو نفع ہوتا ،دونوں آپس میں تقسیم کرتے،پھروالد صاحب نے پلاٹ فروخت کرکے اس کی رقم نعمان کو اس لئے دی تھی کہ کاروبار اپنا ہوجائے تو سارا منافع ملنے کی وجہ سے گھر کے اخراجات میں آسانی رہے گی،یعنی نعمان کا اس کاروبار کے سرمائے میں ذاتی سرمایہ نہیں لگا۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
چونکہ یہ کاروبار نعمان کو والد صاحب نے پلاٹ فروخت کرکے دلوایا تھا،نعمان کا ذاتی سرمایہ اس میں نہیں لگا اور اس وقت نعمان والد کے ساتھ مشترکہ فیملی میں رہتا تھا،اس لئے یہ کاروبار والد کی ملکیت ہوگا،جبکہ نعمان کو اتنا طویل عرصہ کام کرنے کی اجرتِ مثل ملے گی،جسے درج ذیل باتوں کو مد نظر رکھ کر طے کیا جائے گا:
ا۔یہ اندازہ لگایا جائے کہ اگر کوئی ملازم اس قسم کا کام کرتا تو اس کی ماہانہ یا سالانہ تنخواہ کتنی ہوتی۔
۲۔یہ اندازہ کم از کم دو ایسے غیر جانبدار لوگوں سے لگوایا جائے،جنہیں اس کاروبار کی نوعیت کا علم ہو،مارکیٹ سے وابستہ لوگ ہوں تو زیادہ بہتر رہے گا۔
۳۔یہ بھی مدنظر رہے کہ بھائی اس کاروبار سے اپنے ذاتی اور گھریلو اخراجات بھی وصول کرتے رہے ہیں،اس لیے انہیں بھی اس مجموعی تنخواہ سے منہا کیا جائے گا۔
۴۔اتنی تنخواہ مقرر کرنا درست نہیں ہوگا، جس کی وجہ سے والد کا اکثر حصہ ختم ہوجائے اور ان کے حصے میں کچھ باقی نہ رہے،یا نہ ہونے کے برابر رہ جائے۔
تاہم چونکہ اس کاروبار کو ترقی دینے میں نعمان کی محنت لگی ہے اور اس نے اس سے حاصل ہونے والے نفع کو خالص اپنے مفاد میں خرچ نہیں کیا،بلکہ والد کے علاج معالجہ،قرض کی ادائیگی،گھر کے اخراجات وغیرہ میں بھی خرچ کرتا رہا ہے اور بقیہ بھائی بھی معاشی لحاظ سے خود کفیل ہوچکے ہیں،اس لئے اگر والد صاحب اپنی مرضی سے یہ کاروبار نعمان کو دے دیں تو بھی اس میں کوئی حرج نہیں۔
حوالہ جات
"رد المحتار" (4/ 325):
" الأب وابنه يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء فالكسب كله للأب إن كان الابن في عياله لكونه معينا له ألا ترى لو غرس شجرة تكون للأب ... وفي الخانية: زوج بنيه الخمسة في داره وكلهم في عياله واختلفوا في المتاع فهو للأب وللبنين الثياب التي عليهم لا غير".
"القواعد الفقهية وتطبيقاتها في المذاهب الأربعة" (1/ 298):
"العادة مُحَكَّمة (م/36)
التوضيح: إن القاعدة تعني أن العادة عامة كانت أم خاصة تُجعل حكماً لإثبات حكم شرعي لم يُنص على خلافه بخصوصه، فلو لم يرد نص يخالفها أصلاً، أو ورد ولكن عاماً، فإن العادة تعتبر.
وأصل هذه القاعدة قول ابن مسعود، رضي اللہ عنه: "ما رآه المسلمون حسناً فهو عند الله حسن، وما رآه المسلمون قبيحاً فهو عند الله قبيح ".
وهو حديث موقوف حسن، وإنه وإن كان موقوفاً عليه فله حكم المرفوع، لأنه لا مدخل للرأي فيه ورواه الإمام أحمد في (كتاب السنة) وأخرجه البزار والطيالسي والطبراني وأبو نعيم في (الحلية) والبيهقي في (الاعتقاد) عن ابن مسعود أيضاً.
وعقد الإمام البخاري في كتاب البيوع، باب من أجرى أمر الأمصار على مايتعارفون بينهم في البيوع والإجارة والمكيال والوزن، وسننهم على نياتهم ومذاهبهم المشهورة، وقال شريح للغزالين: سنتكم بينكم ربحاً...
وقال النبي - صلى اللہ عليه وسلم - لهند: (خذي ما يكفيك وولدك بالمعروف )".
وقال تعالى: (وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ) ، واكترى الحسن من عبد ﷲبن مرداس حماراً، فقال: بكَم؟ قال: بدانقين، فركبه، ثم جاء مرة أخرى، فقال: الحمارَ الحمارَ، فركبه ولم يشارطه، فبعث إليه بنصف درهم أي كالأجرة السابقة التي تعارفا عليها) .
وساق البخاري رحمه الله تعالى ثلاثة أحاديث في ذلك، وعقب عليها ابن حجر رحمه اللہ تعالى فقال: (مقصوده بهذه الترجمة إثباته الاعتماد على العرف، وأنه يُقضى به على ظواهر الألفاظ".
وقال النووي رحمه اللہ تعالى في فوائد حديث هند رضي اللہ عنها: "ومنها اعتماد العرف في الأمور التي ليس فيها تحديد شرعي ".
وحدد ابن النجار الفتوحي رحمه اللہ تعالى الضابط للرجوع إلى العرف والعادة، فقال: وضابطه: كل فعل رُتب عليه الحكم، ولا ضابط له في الشرع، ولا في اللغة، كإحياء الموات، والحرز في السرقة، والأكل من بيت الصديق، وما يُعدُّ قبضاً، وإيداعاً، وإعطاء، وهدية، وغصباً، والمعروف في المعاشرة، وانتفاع المستأجر بما جرت به العادة، وأمثال هذه كثيرة لا تنحصر".
"الأشباه والنظائر " (ص: 230):
"استعان برجل في السوق ليبيع متاعه فطلب منه أجرا فالعبرة لعادتهم وكذا لو أدخل رجلا في حانوته ليعمل له".
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
11/جمادی الاولی1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق غرفی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |