85360 | طلاق کے احکام | وہ اسباب جن کی وجہ سے نکاح فسخ کروانا جائز ہے |
سوال
میرا شوہر گزشتہ سولہ سال سے لاپتہ ہے، جس کے بارے میں باوجود کوشش کے ہمیں کوئی علم نہیں ہوسکا،اب بھی اس کے بارے میں ہمیں کوئی معلومات نہیں ہیں،نہ ہی اس کی واپسی کا کوئی امکان نظر آرہا ہے،میری ایک بیس سال کی بیٹی بھی ہے۔
اب میں نے پوچھنا یہ ہے کہ شوہر کی گمشدگی کے سولہ سال بعد مجھے ایک جگہ سے رشتہ آرہا ہے،کیا میں اس دوسری جگہ رشتہ کرسکتی ہوں،واضح رہے کہ میں فی الحال والدین کے گھر رہ رہی ہوں اور باقاعدہ روزگار نہ ہونے کی وجہ سے نان نفقہ کے مسائل بھی ہیں۔
تنقیح:شوہر کو تلاش کرنے کے لئے عدالت سے رجوع نہیں کیا گیا،بلکہ ذاتی تعلقات کی بنیاد پر تلاش کی کوشش کی گئی ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
جب تک گمشدہ شوہر سے آپ کا نکاح برقرار ہے آپ کسی اور سے نکاح نہیں کرسکتیں اور گمشدہ شوہر کے نکاح سے نکلنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ گمشدگی کی رپورٹ متعلقہ تھانے میں درج کروائیں،اگر پولیس آپ کے شوہر کو تلاش نہ کرسکے تو پھرعدالت میں مقدمہ دائر کرکے اپنا مسئلہ پیش کریں اور عدالت کے سامنے دو گواہوں کے ذریعے گمشدہ شخص سے تاحال اپنا نکاح ثابت کریں،نکاح کے اصل گواہوں کا ہونا ضروری نہیں،بلکہ شہادت بالتسامع کافی ہے ،یعنی نکاح کی عام شہرت سن کر بھی گواہی دی جاسکتی ہے اور پھر اس بات پر گواہ پیش کریں کہ وہ اتنے عرصے سے غائب ہے،پھر حاکم اس شخص کے حوالے سے متعلقہ اداروں سے معلومات لے،نیز عدالت میں مقدمہ دائر کروانے سے پہلے عورت یا کسی اور شخص کی تلاش کا اعتبار نہیں ہے،بلکہ مقدمہ دائر ہونے کے بعد متعلقہ حکومتی اداروں کی تلاش معتبر ہے،بہرحال جب متعلقہ اداروں کی تلاش کے باوجود بھی شوہر کا کوئی پتہ نہ چل سکے تو حاکم آپ کو چار سال کی مہلت دے،اگر چار سالوں میں بھی اس کا کوئی کھوج نہ لگ سکا تو آپ دوبارہ عدالت سے رجوع کرکے فسخ نکاح کی ڈگری لے لیں،فسخ نکاح کےبعد آپ عدت ِوفات یعنی چارمہینے دس دن گزار کر کہیں اور نکاح کرسکیں گی۔
یہ حکم اس وقت ہے جب آپ عفت و عصمت کے ساتھ مزید چار سال تک انتظار کرسکتی ہوں اورنان نفقے کے انتظام کی بھی کوئی صورت موجود ہو،اگر آپ کے نان نفقے کا کوئی بندوبست ممکن نہ ہو،نہ شوہر کے مال سے اور نہ آپ کے عزیر و اقارب میں سے کوئی اتنے عرصے تک آپ کی کفالت پر آمادہ ہو اور نہ آپ خودعزت وٕعصمت کی حفاظت کے ساتھ محنت کرکے اپنے نان نفقہ کاانتظام کرسکتی ہیں تو آپ عدالت میں اس بات کو شرعی گواہی (یعنی دو دیانت دار مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں) کے ذریعے ثابت کریں کہ آپ کا شوہر اتنی مدت سے غائب ہے،اس نے آپ کے نفقے کے لئے کوئی مال نہیں چھوڑا،نہ کسی کو آپ کے نان نفقہ کا ضامن بنایا اور نہ آپ نے اسے اپنا نان نفقہ معاف کیا ہے اور ان باتوں پر حلفیہ بیان بھی دیں تو اس کے بعد عدالت مزیدکسی قسم کی مہلت دیئے بغیر بھی آپ کا نکاح فسخ کرسکتی ہے۔
نیزاگر یہ خدشہ ہو کہ جج گواہی نہیں لیں گے تو گواہوں کی گواہیاں اسٹامپ پیپر پر درج کرواکر ان کے دستخط کروائے جائیں اور گواہوں کو بھی عدالت میں حاضر کیا جائے اور جج سے درخواست کی جائے کہ آپ کے دعوی پر گواہوں کی گواہی بھی ملاحظہ کریں۔
اور اگر آپ کے نان نفقے کا انتظام تو ممکن ہو،لیکن اتنا عرصہ مزید بغیر شوہر کے رہنے میں آپ کو گناہ میں ابتلاء کا قوی اندیشہ ہو تو بھی اس بات پر حلفیہ بیان لینے کے بعد عدالت فوری طور پر آپ کا نکاح فسخ کرسکتی ہے،کیونکہ آپ کے شوہرکو گم ہوئے سولہ سال کا طویل عرصہ گزرچکا ہے۔
واضح رہے کہ آخری دونوں صورتوں میں آپ عدت وفات کے بجائے عدتِ طلاق گزاریں گی،جس کی ابتداء قاضی کے فیصلے کے وقت سے ہوگی۔
حوالہ جات
"المدونة "(2/ 30):
قلت: أرأيت امرأة المفقود، أتعتد الأربع سنين في قول مالك بغير أمر السلطان؟
قال: قال مالك: لا، قال مالك: وإن أقامت عشرين سنة ،ثم رفعت أمرها إلى السلطان ،نظر فيها وكتب إلى موضعه الذي خرج إليه فإذا يئس منه ضرب لها من تلك الساعة أربع سنين ،فقيل لمالك: هل تعتد بعد الأربع سنين عدة الوفاة أربعة أشهر وعشرا من غير أن يأمرها السلطان بذلك؟
قال: نعم، ما لها وما للسلطان في الأربعة الأشهر والعشر التي هي العدة.
وحدثنا سحنون عن ابن القاسم عن مالك عن يحيى بن سعيد عن سعيد بن المسيب أن عمر بن الخطاب قال: أيما امرأة فقدت زوجها فلم تدر أين هو؟ فإنها تنتظر أربع سنين ثم تعتد أربعة أشهر وعشرا ثم تحل".
"الفواكه الدواني " (2/ 41):
"(والمفقود) وهو كما قال ابن عرفة: من انقطع خبره ممكن الكشف عنه، فالأسير ونحوه مما لا يمكن الكشف عنه لا يسمى مفقودا في اصطلاح الفقهاء، والمراد هنا المفقود في بلاد الإسلام، كما يعلم من إمكان الكشف عنه ولم يعلم له موضع وكان فقده في غير مجاعة ولا وباء، فإن لم ترض زوجته بالصبر إلى قدومه فلها أن ترفع أمرها إلى الخليفة أو القاضي أو من يقوم مقامه في عدمه، أو والي الماء وهو الذي يجبي الزكاة، فإن لم تجد وا أحدا من هؤلاء رفعت لصالحي جيرانها ليفحصوا عن حال زوجها، لكن بعد أن تثبت الزوجية وغيبة الزوج والبقاء في العصمة إلى الآن، وإذا ثبت ذلك عنده كتب كتابا مشتملا على اسمه ونسبه وصفته إلى حاكم البلد الذي يظن وجوده فيه، وإن لم يظن وجوده في بلد بعينه كتب إلى البلد الجامع، واستصوب ابن ناجي أن أجرة الرسول الذي يفحص عن المفقود على الزوجة، فإذا انتهى الكشف ورجع إليه الرسول وأخبره بعدم وقوفه على خبره فالواجب أن (يضرب له أجل) قدره (أربع سنين) للحر وسنتان للعبدوالمعتمد أن هذا التحديد محض تعبد لفعل عمر بن الخطاب وأجمع عليه الصحابة.
ومحل التأجيل المذكور إن كان للمفقود مال تنفق منه المرأة على نفسها في الأجل، وأما إن لم يكن له مال فلها التطليق عليه بالإعسار من غير تأجيل،لكن بعد إثبات ما تقدم، وتزيد إثبات العدم واستحقاقها للنفقة وتحلف مع البينة الشاهدة لها أنها لم تقبض منه نفقة هذه المدة ولا أسقطتها عنه، وبعد ذلك يمكنها الحاكم من تطليق نفسها بأن توقعه ويحكم به أو يوقعه الحاكم.
ومثل المفقود من علم موضعه وشكت زوجته من عدم النفقة يرسل إليه القاضي: إما أن تحضر أو ترسل النفقة أو تطلقها، وإلا طلقها الحاكم، بل لو كان حاضرا وعدمت النفقة قال خليل: ولها الفسخ إن عجز عن نفقة حاضرة لا ماضية، ثم بعد الطلاق تعتد عدة طلاق بثلاثة أقراء للحرة وقرأين للأمة فيمن تحيض، وإلا فثلاثة أشهر للحرة والزوجة الأمة لاستوائهما في الأشهر".
"منح الجليل شرح مختصر خليل" (4/ 318):
"فإن لم تدم نفقتها من ماله فلها التطليق لعدم النفقة بلا تأجيل وكذا إن خشيت على نفسها الزنا فيزاد على دوام نفقتها عدم خشيتها الزنا".
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
02/جمادی الاولی1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق غرفی | مفتیان | مفتی محمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |