03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والد کے علاج معالجے پر خرچ کی گئی رقم کا حکم
85418میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

ابو کے علاج پر نعمان بھائی نے جو رقم صرف کی اس کا کیا حکم ہوگا؟

تنقیح: یہ رقم تقریبا دو ڈھائی لاکھ کے قریب ہے،والد کے علاج معالجے کے حوالے سے سائل نے مزید بتایا کہ تمام بھائیوں نے والد کا خیال رکھا،عدنان کے آرمی میں ہونے کی وجہ سے اس کے لئے والد کا علاج فری تھا تو اس نے اپنے اداروں سے کروایا،نعمان کے مالی حالات بہتر تھے تو اس نے بھی اپنی حیثیت کے مطابق کوشش کی،جبکہ شہروز کے مالی حالات ٹھیک نہیں تھے تو وہ کراچی سے گیا اور جسمانی خدمت کی،لیکن نعمان کی جانب سے والد صاحب کے علاج پر لگائی گئی رقم کے حوالے سے بقیہ بھائیوں پر قرض وغیرہ کی کوئی تصریح نہیں ہوئی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر والد کے مال میں علاج کی گنجائش تھی اور  بیٹے  نعمان نے قرض کی صراحت یا واپسی کے معاہدے کے ساتھ علاج پر رقم خرچ کی تھی یا عرف یہ ہو کہ ایسے مواقع پر خرچ کی جانے والی رقم قرض شمار ہوتی ہو تو اسے والد کے مال میں سے اتنی رقم لینے کا حق حاصل ہوگا ،البتہ اگر بیٹےنے  والد ہونے کی حیثیت سے از خود تبرع واحسان کی نیت سے والد کے علاج معالجے پر رقم خرچ کی ہو تو اسے اس رقم کے مطالبے کا حق حاصل نہیں ہوگا،تاہم والد کی خدمت پر اجر و ثواب کے مستحق ہوگا۔

لیکن اگروالد کے پاس علاج  کا خرچہ  موجود نہ ہو،تو پھر والد کے علاج معالجے کی ذمہ داری اولاد پر ہوتی ہے اورعرف یہ ہے کہ اجتماعی گھروں میں  ایسے موقع پر تمام اولاد ذمہ داری میں شریک ہوتی ہے،لہذا ایسی صورت میں والد کے علاج معالجے پر جو اخراجات آئے ہیں وہ سب بیٹوں پر برابر تقسیم ہوں گے۔

حوالہ جات

"رد المحتار" (6/ 717):

 "وفي المنتقى بالنون: أنفق الوصي من مال نفسه على الصبي وللصبي مال غائب فهو متطوع في الإنفاق استحسانا إلا أن يشهد أنه قرض أو أنه يرجع به عليه لأن قول الوصي لا يقبل في الرجوع فيشهد لذلك، وفي العتابية ويكفيه النية فيما بينه وبين ﷲ تعالى. وفي المحيط عن محمد إذا نوى الأب الرجوع ونقد الثمن على هذه النية وسعه الرجوع فيما بينه وبينﷲ تعالى، أما في القضاء فلا يرجع ما لم يشهد ومثله في المنتقى.

وفيه أيضا: ولو شرى الأب لطفله شيئا يجبر هو عليه كالطعام والكسوة لصغيره الفقير لم يرجع أشهد أو لم يشهد لأنه واجب عليه، وإن شرى له ما لا يجب عليه كالطعام لابنه الذي له مال والدار والخادم رجع إن أشهد عليه وإلا فلا، وعن أبي حنيفة في نحو الدار: إن كان للابن مال رجع إن أشهد وإلا لا، وإن لم يكن له مال لم يرجع أشهد أو لا.

وفي الخانية: ولو شرى لطفله شيئا وضمن عنه ثم نقده من ماله يرجع قياسا لا استحسانا اهـ.

قلت: فقد تحرر أن في المسألة قولين: أحدهما عدم الرجوع بلا إشهاد في كل من الأب والوصي، والثاني اشتراط الإشهاد في الأب فقط، ومثله الأم الوصي على أولادها، وعللوه بأن الغالب من شفقة الوالدين الإنفاق على الأولاد للبر والصلة لا للرجوع، بخلاف الوصي الأجنبي فلا يحتاج في الرجوع إلى الإشهاد، وقد علمت أن القول الأول استحسان. والثاني قياس، ومقتضاه ترجيح الأول وعليه مشى المصنف قبيل باب عزل الوكيل وهذا كله في القضاء، والله تعالى أعلم".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

11/جمادی الاولی1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب