85548 | نکاح کا بیان | ولی اور کفاء ت ) برابری (کا بیان |
سوال
میں ایک چوبیس سالہ لڑکی ہوں،میرے والدین نے میری مرضی کے بغیر ایک ہفتہ قبل میرا نکاح میرے کزن سے کروادیا،میں نے بار بار انکار کیا،لیکن کسی نے میری بات نہیں سنی،مجھے جذباتی طور پر بلیک میل کیا گیا اور میں نے بارہا کہا کہ میں اس نکاح کے لئے رضامند نہیں ہوں اور میں اس شخص سے شادی نہیں کرنا چاہتی،مجھے مہینوں تک ذہنی طور پر بلیک میل کیا گیا اور یہاں تک کہ نکاح کے وقت بھی میں نے رضامندی ظاہر نہیں کی۔
نکاح کے وقت میرے والد میرے پاس نکاح کے کاغذات لے کر آئے اور بس اتنا کہا کہ "میں تمہارا نکاح کروا رہا ہوں، یہاں دستخط کرو"،وہاں کوئی مولوی نہیں تھا،مولوی صرف دولہا کی طرف تھا اور صرف دو گواہ تھے،نہ مجھ سے رضامندی کے بارے میں پوچھا گیا اور نہ ہی مجھے واضح طور پر بتایا گیا کہ کس سے نکاح ہو رہا ہے،انہوں نے بس اتنا کہا کہ "میں تمہارا نکاح معید سے کر رہا ہوں"،نہ پورا نام بتایا،نہ مزید تفصیلات دیں اور نہ مجھے حق مہر کے بارے میں کچھ بتایا،مجھے اتنا جذباتی دباؤ دیا گیا کہ میں بے بس ہو کر دستخط کر رہی تھی اور اللہ جانتا ہے کہ دل سے میں اس نکاح کے حق میں نہیں تھی اور دل میں اللہ سے فریاد کر رہی تھی کہ مجھے مجبور کیا جا رہا ہے اور میں اس پر رضامند نہیں ہوں۔
میرا سوال یہ ہے کہ کیا میرا نکاح جائز ہے؟ کیونکہ جو معلومات میں نے زبردستی نکاح کے بارے میں حاصل کی ہیں،ان کے مطابق ایسا نکاح شرعاً درست نہیں ہوتا۔
تنقیح: زور و زبردستی کے حوالے سے اس نے یہ وضاحت کی والدین ایموشنل بلیک میلنگ کیا کرتے تھے کہ اگر تم نہیں مانوگی تو ہمیں کچھ ہوجائے گا اور اس کے علاوہ یہ دھمکی بھی دیا کرتے تھے کہ اگر شرافت سے نہیں مانوگی تو ہمیں ہاتھ اٹھانا بھی آتا ہے،نکاح ہوجانے کے بعد لڑکی کی والدہ اس کے پاس آئی تو اس نے والدہ سے کہا کہ یہ کیسا نکاح ہے؟نہ مجھ سے اجازت لی،نہ کوئی تفصیل بتائی،بس زبردستی دستخط لے کر چلے گئے،جس پر والدہ نے کہا کہ ایسا ہی ہوتا ہے۔
اس کے بعد اسی دن رخصتی ہوگئی،لڑکے کی والدہ نے لڑکی کو دینے کے لئے ایک گفٹ اپنے بیٹے کودیا تھا جو اس نے لڑکی کو دیا،رات بھی ایک ہی کمرے میں گزاری،لیکن ازدواجی تعلق قائم نہیں ہونے دیا،اس کے بعد لڑکی میکے آئی تو اس نے گھر والوں سے دوبارہ اس نکاح پر عدم رضامندی کا اظہار کیا۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
عاقلہ، بالغہ لڑکی کا نکاح اس کی مرضی کے بغیر کرنا جائز نہیں،لہذااگر آپ نے والد کےحکم اور زور زبردستی کی وجہ سے بادل ناخواستہ نکاح نامے پر(والد کی توکیل اور بطور دلہن نکاح پر راضی ہونے کے خانے پر) مجبورا صرف دستخط کئے تھے، زبانی طور پر نہ نکاح کو قبول کیا اور نہ والد کو نکاح کا وکیل بنایااور نکاح ہوجانے کے بعد رخصتی سے پہلے والدہ کے سامنے آپ نے اس معاملے پر عدم رضامندی کا اظہار کردیا تھا تو پھر یہ نکاح منعقد نہیں ہوا،کیونکہ حالت اکراہ میں نکاح کو صرف لکھ کر قبول کرنا حالت اکراہ میں لکھ کر طلاق دینے کی طرح ہے اور اس طرح لکھی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔
نیز یہی حکم وکالت نکاح کا بھی ہے کہ اکراہ کی حالت میں تحریری طور پر نکاح کی وکالت معتبر نہیں ہوتی،لہذا ایسا زور و زبردستی سے کیا گیا نکاح منعقد نہیں ہوگا۔
حوالہ جات
"سنن أبي داود " (3/ 436):
"عن عكرمة عن ابن عباس: أن جارية بكرا أتت النبي - صلى الله عليه وسلم -، فذكرت أن أباها زوجها وهي كارهة، فخيرها النبي - صلى ﷲعليه وسلم".
"الدر المختار " (3/ 58):
"(ولا تجبر البالغة البكر على النكاح) لانقطاع الولاية بالبلوغ (فإن استأذنها هو) أي الولي وهو السنة (أو وكيله أو رسوله أو زوجها) وليها وأخبرها رسوله أو الفضولي عدل (فسكتت) عن رده مختارة (أو ضحكت غير مستهزئة أو تبسمت أو بكت بلا صوت) فلو بصوت لم يكن إذنا ولا ردا حتى لو رضيت بعده انعقد سراج وغيره، فما في الوقاية والملتقى فيه نظر (فهو إذن) .....
ولو زوجها لنفسه فسكوتها رد بعد العقد لا قبله، ولو استأذنها في معين فردت ثم زوجها منه فسكتت صح في الأصح بخلاف ما لو بلغها فردت ثم قالت: رضيت لم يجز لبطلانه بالرد، ولذا استحسنوا التجديد عند الزفاف لأن الغالب إظهار النفرة عند فجأة السماع .....
(وكذا إذا زوجها الولي عندها) أي بحضرتها (فسكتت) صح (في الأصح) إن علمته كما مر والسكوت كالنطق في سبع وثلاثين مسألة مذكورة في الأشباه (فإن استأذنها غير الأقرب) كأجنبي أو ولي بعيد (فلا) عبرة لسكوتها (بل لا بد من القول كالثيب) البالغة لا فرق بينهما إلا في السكوت لأن رضاهما يكون بالدلالة كما ذكره بقوله (أو ما هو في معناه) من فعل يدل على الرضا (كطلب مهرها) ونفقتها (وتمكينها من الوطء) ودخوله بها برضاها ظهيرية (وقبول التهنئة) والضحك سرورا ونحو ذلك بخلاف خدمته أو قبول هديته".
قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ:" (قوله: عن رده) قيد به إذ ليس المراد مطلق السكوت لأنها لو بلغها الخبر فتكلمت بأجنبي فهو سكوت هنا فيكون إجازة، فلو قالت الحمد للہ: اخترت نفسي أو قالت :هو دباغ ،لا أريده فهذا كلام واحد فهو رد .بحر".
"الدر المختار " (6/ 137):
"(وصح نكاحه وطلاقه وعتقه) لو بالقول لا بالفعل كشراء قريبه ابن كمال".
"رد المحتار" (3/ 235):
"(قوله :فإن طلاقه صحيح) أي طلاق المكره وشمل ما إذا أكره على التوكيل بالطلاق فوكل فطلق الوكيل فإنه يقع بحر قال محشيه الخير الرملي: مثله العتاق كما صرحوا به. وأما التوكيل بالنكاح فلم أر من صرح به والظاهر أنه لا يخالفهما في ذلك، لتصريحهم بأن الثلاث تصح مع الإكراه استحسانا.
وقد ذكر الزيلعي في مسألة الطلاق أن الوقوع استحسان والقياس أن لا تصح الوكالة لأن الوكالة تبطل بالهزل فكذا مع الإكراه كالبيع وأمثاله. وجه الاستحسان أن الإكراه لا يمنع انعقاد البيع ولكن يوجب فساده، فكذا التوكيل ينعقد مع الإكراه والشروط الفاسدة لا تؤثر في الوكالة لكونها من الإسقاطات؛ فإذا لم تبطل فقد نفذ تصرف الوكيل اهـ فانظر إلا علة الاستحسان في الطلاق تجدها في النكاح فيكون حكمهما واحدا تأمل اهـ كلام الرملي".
"البحر الرائق " (8/ 80):
"وفي المحيط قال مشايخنا إلا إذا كان الرجل صاحب منصب يعلم أنه يتضرر بضرب سوط أو حبس يوم فإنه يكون إكراها.
وقد يكون فيه ما يكون في الحبس من الإكراه لما يجيء به من الاغتمام البين ومن الضرب ما يجد به الألم الشديد وليس في ذلك حد لا يزاد عليه ولا ينقص منه؛ لأنه يختلف باختلاف أحوال الناس فمنهم لا يتضرر إلا بضرب شديد وحبس مديد ومنهم من يتضرر بأدنى شيء كالشرفاء والرؤساء يتضررون بضرب سوط أو بفرك أذنه".
"الدر المختار " (6/ 129):
"(وشرطه) أربعة أمور: (قدرة المكره على إيقاع ما هدد به سلطانا أو لصا) أو نحوه (و) الثاني (خوف المكره) بالفتح (إيقاعه) أي إيقاع ما هدد به (في الحال) بغلبة ظنه ليصير ملجأ (و) الثالث: (كون الشيء المكره به متلفا نفسا أو عضوا أو موجبا غما يعدم الرضا) وهذا أدنى مراتبه وهو يختلف باختلاف الأشخاص فإن الأشراف يغمون بكلام خشن، والأراذل ربما لا يغمون إلا بالضرب المبرح ابن كمال".
"الفتاوى الهندية" (1/ 379):
"رجل أكره بالضرب والحبس على أن يكتب طلاق امرأته فلانة بنت فلان بن فلان فكتب امرأته فلانة بنت فلان بن فلان طالق لا تطلق امرأته كذا في فتاوى قاضي خان".
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
21/جمادی الاولی1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق غرفی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب |