03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
آفاقی کامکہ میں مقیم ہونےکے بعدحج وعمرہ سے متعلق مختلف سوالات
85547حج کے احکام ومسائلحج قران اور تمتع کا بیان

سوال

1۔ایک شخص رمضان المبارک میں پاکستان سے مدینہ شریف گیا اور عید کا چاند نظر آجانے کے بعد اس نے ذوالحلیفہ سے احرام باندھ کرعمرہ کیا اور پھر اس کا ارادہ مکہ ٹھہرنے کا ہو گیا، کیا یہ شخص اسی سال حج کر سکتا ہے اور کیا یہ شخص مکہ میں رہتے ہوئے مزید عمرے بھی کر سکتا ہے؟

 2۔ اگریہ شخص دوبارہ مدینہ شریف جانا چاہے تو کیا اس کا حج تمتع باطل ہو جائے گا؟  اوراس کے لیے واپسی پر عمرہ کرنے کا کیا حکم ہو گا؟ نیز کیا یہ شخص واپسی پر حجِ قران کا احرام باندھ سکتا ہے؟

3۔ اگر یہ شخص رمضان المبارک کے آخر میں مکہ مکرمہ آجائے اور ذوالحلیفہ سے احرام باندھ کر حج کے مہینے شروع ہونے سے پہلے عمرہ کر لے اور پھر مکہ مکرمہ میں مقیم ہو جائے تو کیا اس کے لیے حجِ تمتع کرنا جائز ہے؟

4۔یہ شخص حدودِ حرم میں ہی کام کرتا ہے، اگر یہ شخص حجِ تمتع یا قران  کرنا چاہے تو کیا اس کے لیے جائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

۔ صورتِ مسئولہ میں شخصِ مذکورہ کا مدینہ شریف سے مکہ مکرمہ جاتے ہوئے ذوالحلیفہ سے احرام باندھ کر عمرہ کرنا جائز ہے اور یہ شخص چونکہ آفاقی ہے اس لیے اس کے لیے ایک سفر میں عمرہ اور حج کرنا جائز ہے، جس کو شریعت کی اصطلاح میں حج تمتع کہا جاتا ہے۔ نیز اس کا مکہ مکرمہ میں رہتے ہوئے مزید عمرے کرنا بھی جائز ہے، اگرچہ یہ شخص مکہ میں اقامت اختیار کرنے کی وجہ سے اہلِ مکہ کے حکم میں ہو گیا اور اہلِ مکہ میں سے اگر کوئی شخص حج کے مہینوں میں عمرہ اور پھر اسی سال حج کرنا چاہے تو شریعت نے اس کو منع قرار دیا ہے، لیکن مذکورہ صورت میں یہ شخص حقیقت میں آفاقی ہے، اس لیے اس کے لیے حج کے مہینوں میں بار بار عمرہ کرنا اور پھر اسی سال حج کرنا منع نہیں ہے۔

البحر الرائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 393) دار الكتاب الإسلامي:

 وقد ذكر في اللباب أن المتمتع لا يعتمر قبل الحج قال شارحه هذا بناء على أن المكي ممنوع من العمرة المفردة أيضا، وقد سبق أنه غير صحيح بل إنه ممنوع من التمتع والقران وهذا المتمتع آفاقي غير ممنوع من العمرة فجاز له تكرارها؛ لأنها عبادة مستقلة أيضا كالطواف اهـ.

2۔ مذکورہ صورت میں میقات سے باہر جانے سے حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے قول کے مطابق اس کا حج تمتع باطل نہیں ہو گاکیونکہ حجِ تمتع حنفیہ کے مفتی بہ قول کے مطابق المامِ صحیح (عمرہ کا احرام کھول اپنے وطن واپس لوٹ جانا) سے باطل ہوتا ہے اور مذکورہ صورت میں المامِ صحیح نہیں پایا گیا،کیونکہ یہ شخص اپنے وطن کی طرف نہیں لوٹا، بلکہ یہ اپنے وطن کے علاوہ صرف میقات سے باہر نکلا ہے، اس لیے اس کا تمتع باطل نہیں ہو گا، اورشخصِ مذکور کا مدینہ منورہ سے واپسی پر عمرہ کا احرام باندھنا جائز ہے، البتہ یہ شخص مدینہ منورہ سے  واپسی پر حج قران کی نیت سے احرام نہ باندھے، بلکہ صرف عمرے کا احرام باندھے، کیونکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے قول کے مطابق ایسے شخص کے لیے حج قران کا احرام باندھنا جائز نہیں۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 171) دار الكتب العلمية،بيروت:

''فأما إذا عاد إلى غير أهله بأن خرج من الميقات ولحق بموضع لأهله القران والتمتع كالبصرة مثلاً أو نحوها، واتخذ هناك داراً أو لم يتخذ، توطن بها أو لم يتوطن ثم عاد إلى مكة، وحج من عامه ذلك، فهل يكون متمتعاً؟ ذكر في الجامع الصغير: أنه يكون متمتعاً، ولم يذكر الخلاف، وذكر القاضي أيضاً: أنه يكون متمتعاً في قولهم. وذكر الطحاوي: أنه يكون متمتعاً في قول أبي حنيفة، وهذا وما إذا أقام بمكة ولم يبرح منها سواء. وأما في قول أبي يوسف ومحمد فلا يكون متمتّعاً، ولحوقه بموضع لأهله التمتع والقران، ولحوقه بأهله سواء.

وجه قولهما: أنه لما جاوز الميقات،ووصل إلى موضع لأهله التمتع والقران فقد بطل حكم السفر الأول،وخرج من أن يكون من أهل مكة؛ لوجود إنشاء سفر آخر، فلا يكون متمتعاً، كما لو رجع إلى أهله، ولأبي حنيفة: أن وصوله إلى موضع لأهله القران والتمتع لا يبطل السفر الأول، ما لم يعد إلى منزله؛ لأن المسافر ما دام يتردد في سفره يعد ذلك كله منه سفراً واحداً ما لم يعد إلى منزله، ولم يعد ههنا، فكان السفر الأول قائماً، فصار كأنه لم يبرح من مكة فيكون متمتعاً، ويلزمه هدي المتعة''.

زبدۃ الناسک(ص: ۳۰۹):

وکذا لو خرج (المتمتع) إلی الآفاق لحاجة، فقرن لایکون قارنا عند أبي حنیفة رحمة اﷲ، وعليه رفض أحدھما، ولا یبطل تمتعه؛ لأن الأصل عنده أن الخروج في أشهر الحج إلی غیر أھله فالإقامة بمكة فکأنه لم یخرج ، وقرن من مكة الخ.

   الجوهرة النيرة على مختصر القدوري (1/ 167) الناشر: المطبعة الخيرية:

ولو عاد بعد ما حل من عمرته إلى غير أهله في موضع لأهله التمتع والقران وحج من عامه ذلك كان متمتعا عند أبي حنيفة وصار كأنه لم يخرج من مكة وعندهما لا يكون متمتعا ويكون لحوقه بهذا الموضع كلحوقه بأهله ولو اعتمر في الأشهر ثم أفسدها وأتمها على الفساد ثم حج من عامه ذلك لم يكن متمتعا.

(الفتاویٰ التاتارخانیۃ: 629/3،الفقرة:5203 مكتبة: زکریا، مكتبة إعزازية، بشاور):

م: قال محمد في الجامع الصغير: كوفي قدم العمرة في أشهرالحج ففرغ منها وحلق أو قصر ثم اتخذ بمكة أو البصرة دارا ثم حج من عامه فهومتمتع ، اعلم بأن هذه المسالة على أربعة أوجه: الأول: إذا أقام بمكة بعد ما فرغ من العمرة و حلق ثم حج من عامه ذلك ففى هذا الوجه هو متمتع، الوجه الثاني: إذا خرج من مكة ولكن لم يجاوز الميقات حتى حج من عامه ذلك، وفي هذا الوجه هو متمتع أيضا، الوجه الثالث: إذا خرج من المواقيت وعاد إلى أهله ثم حج من عامه ذلك وفى هذا الوجه هو ليس بمتمتع الوجه الرابع: إذا خرج من الميقات وأتى البصرة واتخذها دارا ثم حج من عامه ذلك قال في الكتاب: هو متمتع، ولم يذكر فيه خلافا، وروى الحاكم الشهيد عن أبي عصمة عن سعد بن معاذ أن ماذكر في الكتاب قول أبي حنيفة.

الجوهرة النيرة على مختصر القدوري (1/ 166) المطبعة الخيرية:

أما إذا رجع إلی غیر بلدہ کان متمتعًا عند أبي حنیفۃ ویکون کأنہ لم یخرج من مکۃ، وعندہما لا یکون متمتعاً ویکون کأنہ رجع إلی بلدہ ولا فرق عندہما بین أن ینوي الإقامۃ في غیر بلدہ خمسۃ عشر یومًا أو لم ینو. .............  (قوله وإذا عاد المتمتع إلى بلده بعد فراغه من العمرة ولم يكن ساق الهدي بطل تمتعه) لأنه ألم بأهله بين النسكين إلماما صحيحا وبه يبطل التمتع وإذا ساق الهدي فإلمامه لا يكون صحيحا ولا يبطل تمتعه عندهما.

وقال محمد يبطل تمتعه لأنه أداهما بسفرين ولأنه ألم بأهله ولهما أن العود مستحق عليه لأجل الحلق لأن الحلق مؤقت بالحرم وجوبا عند أبي حنيفة واستحبابا عند أبي يوسف والعود يمنع صحة الإلمام وقيد بالمتمتع إذ القارن لا يبطل قرانه بالعود إلى بلده والتقييد

ببلده قولهم جميعا أما إذا رجع إلى غير بلده كان متمتعا عند أبي حنيفة ويكون كأنه لم يخرج من مكة وعندهما لا يكون متمتعا ويكون كأنه رجع إلى بلده ولا فرق عندهما بين أن ينوي الإقامة في غير بلده خمسة عشر يوما أو لم ينو.

3۔ حجِ تمتع کے لیے ضروری ہے کہ آفاقی شخص حج کے مہینوں میں ہی میقات سے عمرہ کا احرام باندھ کر عمرہ اور حج کرے، جبکہ صورتِ مسئولہ میں  اس شخص نے حج کے مہینے شروع ہونے سے پہلے عمرہ کیا ہے، اس لیے اب اگر یہ مسنون طریقےپر حجِ تمتع کرنا چاہے تو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے قول کے مطابق اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے وطن واپس آکر دوبارہ میقات سے عمرہ کا احرام باندھ کر حرم شریف جائے، البتہ  اگر یہ شخص حج کے مہینے شروع ہونے سے پہلے کسی بھی میقات پر آجائے اور پھر اشہرِ حج شروع ہونے پر عمرہ کا احرام باندھ کر حدود ِ حرم میں داخل ہوتو ایسی صورت میں یہ شخص حج تمتع کر سکتا ہے، ورنہ صرف حجِ افراد پر اکتفاء کرے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 169) دار الكتب العلمية،بيروت:

ولو أحرم الآفاقي بالعمرة قبل أشهر الحج فدخل مكة محرما بالعمرة، وهو يريد التمتع فينبغي أن يقيم محرما حتى تدخل أشهر الحج فيأتي بأفعال العمرة، ثم يحرم بالحج ويحج من عامه ذلك فيكون متمتعا، فإن أتى بأفعال العمرة أو بأكثرها قبل أشهر الحج ثم دخل أشهر الحج فأحرم بالحج وحج من عامه ذلك، لم يكن متمتعا؛ لأنه لم يتم له الحج والعمرة في أشهر الحج.

ولو أحرم بعمرة أخرى بعد ما دخل أشهر الحج لم يكن متمتعا في قولهم جميعا؛ لأنه صار في حكم أهل مكة بدليل أنه صار ميقاتهم ميقاته، فلا يصح له التمتع إلا أن يعود إلى أهله ثم يعود إلى مكة محرما بالعمرة في قول أبي حنيفة، وفي قولهما: إلا أن يعود إلى أهله أو إلى موضع يكون لأهله التمتع والقران على ما نذكر.

تبيين الحقائق وحاشية الشلبي (2/ 50) المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة:

وقيل: قولهما مثل قول أبي حنيفة رواه الرازي وهو الأصح اهـ قال الكرماني في مناسكه ولو دخل الكوفي بعمرة فأداها وتحلل وأقام بمكة حتى دخل عليه أشهر الحج فأحرم بعمرة أخرى لم يكن متمتعا في قولهم؛ لأنه لما أقام صار في حكم أهل مكة بدليل أن ميقاته ميقات أهل مكة وليس لأهل مكة تمتع لما ذكرنا كذا في حقه إلا أن يخرج إلى أهله أو ميقات نفسه على ما ذكر الطحاوي ثم يرجع محرما بالعمرة، وقالا: إذا خرج إلى موضع لأهله التمتع والقران صار متمتعا، وقد ذكرناه، ولو خرج من مكة قبل أشهر الحج إلى موضع لأهله التمتع والقران، وأحرم بالعمرة، ودخل محرما فتمتع فهو متمتع في قولهم جميعا.

المحيط البرهاني في الفقه النعماني (2/ 470) دار الكتب العلمية، بيروت:

قال القدوري: لو أحرم بعمرة وفرغ منها وتحلل، وأقام بمكة حتى دخل عليه أشهر الحج، فأحرم بعمرة أخرى لم يكن متمتعا؛ لأنه بمنزله، ولا تمتع في حق أهل مكة، فإن خرج من مكة، ثم عاد محرما بالعمرة لم يكن متمتعا إلا إذا رجع إلى أهله في قول أبي حنيفة، وقال أبو يوسف ومحمد رحمهما الله: إذا خرج إلى موضع لأهله التمتع والقران، وهو ما وراء الميقات فهو متمتع، وإذا خرج قبل دخول أشهر الحج إلى موضع لأهله التمتع والقران، فأحرم بالعمرة كان متمتعا في قولهم.

4۔ مکی (جو شخص مکہ میں رہتا ہو)اور جو مکی کے حکم ہو، یعنی جس کی رہائش میقات اور حرم کے درمیان علاقۂ حِل میں ہو، فقہاء حنفیہ رحمہم اللہ کے  نزدیک ایسے شخص  کے لئے حج تمتع کرنا شرعا ممنوع ہے،کیونکہ  المام صحیح (احرام کھول کر اپنے اہل  کی طرف لوٹنا) تمتع کو باطل کر دیتا ہے ، اور ان علاقوں میں رہنے والے شخص کی طرف سے حج تمتع میں المام صحیح  کا ہونا یقینی ہے ،اس لئے اس کے لئے    حج ِ تمتع کرنا شرعا جائز نہیں۔اور اگر اس نے حج کے مہینوں میں تمتع یا قران کی نیت سے احرام باندھ لیا تو اس پر لازم ہے کہ وہ حج یا عمرہ میں سے کسی ایک چیز کو چھوڑے اور عمرہ کے افعال چونکہ کم ہیں اس لیے عمرہ کو چھوڑ دے اور پھر رفضِ عمرہ کی وجہ سے حدودِ حرم میں ایک دم دے اور حج سے فارغ ہونے کے بعد اس عمرہ کی قضاء بھی کرے۔تاہم اگر یہ شخص حج اور عمرہ میں سے کسی چیز کو نہ چھوڑے بلکہ حج تمتع یا قران  کر لے،  توایسی صورت میں   اگرچہ اس  نے شریعت کے حکم کی نافرمانی کر کے برا کیا ، لیکن  اکثرفقہاء کرام رحمہم اللہ   کے نزدیک اس کا  حجِ تمتع  درست ہو جائے گا اور  اس پر دم جنایت واجب ہو گا، کیونکہ ملا علی قاری رحمہ اللہ اور صاحب غنیۃ الناسک رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ المام صحیح سے تمتع مسنون باطل ہوجاتا ہے، اس کی وجہ سے مطلق تمتع کی نفی نہیں کی جا سکتی۔ اگرچہ ایسا کرنے کی وجہ سے یہ شخص گناہ گار ہو گا۔ اس لیے شرعا اس پر لازم ہےکہ تمتع اور قران کی بجائے صرف حجِ افراد کرےیا صرف عمرہ پر اکتفاء کرے۔

حوالہ جات

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 169) دار الكتب العلمية،بيروت:

ولو أحرم من لا تمتع له من المكي ونحوه بعمرة، ثم أحرم بحجة يلزمه رفض أحدهما؛ لأن الجمع بينهما معصية، والنزوع عن المعصية لازم ثم ينظر: إن أحرم بعمرة ثم أحرم بحجة قبل أن يطوف لعمرته رأسا فإنه يرفض العمرة؛ لأنها أقل عملا، والحج أكثر عملا فكانت العمرة أخف مؤنة من الحجة فكان رفضها أيسر، ولأن المعصية حصلت بسببها؛ لأنها هي التي دخلت في وقت الحج فكانت أولى بالرفض، ويمضي على حجته، وعليه لرفض عمرته دم، وعليه قضاء العمرة.

الهداية في شرح بداية المبتدي (1/ 173) دار احياء التراث العربي – بيروت:

قال أبو حنيفة: إذا أحرم المكي بعمرة وطاف لها شوطا ثم أحرم بالحج فإنه يرفض الحج وعليه لرفضه دم وعليه حجة وعمرة وقال أبو يوسف ومحمد رحمهما الله رفض العمرة أحب إلينا وقضاؤها وعليه دم " لأنه لا بد من رفض أحدهما لأن الجمع بينهما في حق المكي غير مشروع والعمرة أولى بالرفض لأنها أدنى حالا وأقل أعمالا وأيسر

مناسك ملا علي القاري رحمه الله (صفحة: 274):

ليس لأهل مكة و أهل المواقيت ومن بينهما وبين مكة تمتع فمن تمتع منهم كان عاصيا و مسيئا وعليه لإساءته الدم أى دم الجبر وجنايته لكفارته قال في البدائع فبقيت العمرة في أشهر الحج في حقهم معصية ، أى لمخالفتهم السنة ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رجحت أن المتعة تتحقق، ويكون مستانسا بقول صاحب’’التحفة ‘‘ لكن الأوجه خلافه لتصريح أهل المذهب من أبي حنيفة و صاحبيه في الآ فاقي الذي يعتمر ثم يعود إلى أهله، ولم يكن ساق الهدي ثم حج من عامه بقولهم بطل تمتعه،  وتصريحهم بأن من شرائط التمتع مطلقا أن لا يلم بأهله بينهما إلمام صحيحا ولا وجود للمشروط قبل وجود شرطه ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وإن اشتراطهم عدم إلمام الصحيح بينهما إثما هو للتمتع المسنون لا للصحة.

غنية المناسك(ص223):

وأن اشتراطهم عدم إلمام الصحيح بينهما إثما هو للتمتع المسنون لا للصحة، فحصل التوفيق  والاتفاق على صحة تمتع المكي مطلقا مع الكراهة، ولزوم دم الجبر لارتكاب النهي، وهو المطلوب.

البحر الرائق (2/ 397):

( ولو اعتمر كوفي فيها وأقام بمكة أو بصرة وحج صح تمتعه……..وقيد بكونه اعتمرفي أشهر الحج إذ لو اعتمر قبلها لا يكون متمتعا اتفاقا وقيد بالكوفي لأن المكي لا تمتع له اتفاقا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قال في غاية البيان ولهذا قلنا لم يصح تمتع المكي لوجود الإلمام الصحيح ومقتضاه أنه لو أحرم بعمرة في أشهر الحج وحل منها ثم أحرم بحج فإنه لا يلزمه دم لكن صرح في التحفة بأنه يصح تمتعهم وقرانهم فإنه نقل في غاية البيان عنها أنهم لو تمتعوا جاز وأساؤا ( ( ( وأساءوا ) ) ) ويجب علهيم (عليهم) دم الجبر وهكذا ذكر الأسبيجابي ثم قال ولا يباح لهم الأكل من ذلك الدم ولا يجزئهم الصوم إن كانوا معسرين فتعين أن يكون المراد بالنفي في قولهم لا تمتع ولا قران لمكي نفي الحل لا نفي الصحة ولذا وجب دم جبر لو فعلوا هو فرع الصحة واشتراطهم عدم الالمام فيما بينهما إنما هو للتمتع المنتهض سببا للثواب المترتب عليه وجوب دم الشكر.

غنية المناسك(ص223):

المكي إذا أحرم بالعمرة في أشهر الحج، فإن كان من نيته الحج من عامه، فأنه يكون اثما لأنه عين التمتع المنهي عنه لهم،فإن حج من عامه لامه دم جناية ۔لاشكر، وإن لم يكن من نيته الحج من عامه، ولم يحج، فإنه لا يكون اثما بالاعتمار في ٲشهر الحج۔

الجوهرة النيرة (2/ 133):

( وليس لأهل مكة تمتع ولا قران ) وكذا أهل المواقيت ومن دونها إلى مكة ومن فعل ذلك منهم كان مسيئا وعليه لأجل إساءته دم وهو دم جناية لا يجوز الأكل منه ولا يجزئه الصوم عنه وإن كان معسرا لا يجد ثمن الهدي.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

16/جمادی الاولیٰ 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب