85553 | خرید و فروخت کے احکام | خرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل |
سوال
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں مختلف مصنوعات (جیسے جوتے اور گھڑیاں) سوشل میڈیا پر بیچتا ہوں۔ یہ سامان میری ملکیت میں نہیں ہوتا بلکہ ہول سیلر سے تصاویر اور تفصیلات لے کر گاہک تک پہنچاتا ہوں، خود صرف درمیانی (middleman) کی حیثیت سے کام کرتا ہوں۔ میں پروڈکٹ کی اصل قیمت پر ایک طے شدہ اضافہ (markup) لگا کر نفع لیتا ہوں۔ درج ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں :
1. کیا یہ کاروبار شریعت میں جائز ہے؟
2. کیا یہ عمل دلالی کے زمرے میں آتا ہے؟
3. کیا اس نفع (markup) کا طریقہ درست ہے؟ براہ کرم شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں!
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
- اگر آپ ڈراپ شپنگ کرتے ہیں یعنی سامان کو اپنے قبضے میں لیے بغیر براہ راست سپلائر کو گاہک تک پہنچانے کا ذمہ دار بناتے ہیں تو ایسی خریدوفروخت اور اس کا نفع حلال نہیں۔
- اگر آپ سپلائر کے لیے کمیشن ایجنٹ کے طور پر کام کرتے ہیں یعنی سپلائر کے معاہدہ کے تحت اس کی چیز اس کی طےکردہ قیمت پر بیچتے ہیں اور اس سے طے شدہ کمیشن لیتے ہیں تو یہ جائز ہوگا۔
حوالہ جات
أخرج الإمام البیھقی في ’’سننہ ‘‘(11/ 18) (الحدیث رقم:10520)من حدیث حكيم بن حزام قال: قلت: يا رسول الله، الرجل يطلب مني البيع وليس عندي، أفأبيعه له؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا تبع ما ليس عندك.
قال العلامۃ الکاسانی رحمہ اللہ تعالی:وهو شرط انعقاد البيع للبائع أن يكون مملوكا للبائع عندالبيع ،فإن لم يكن لا ينعقد، وإن ملكه بعد ذلك بوجه من الوجوه إلا السلم خاصة، وهذا بيع ما ليس عنده ، ونهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ،عن بيع ما ليس عند الإنسان، ورخص في السلم.( بدائع الصنائع :5/ 146)
في مجلۃ الأحکام العدلیۃ:يشترط لنفاذ البيع أن يكون البائع مالكا للمبيع ، أو وكيلا لمالكه ، أو وصيه ،وأن لا يكون في المبيع حق الغير. (مجلة الأحكام العدلية،ص:72)
وقال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالی:وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع ،وإن سعى بينهما ،وباع المالك بنفسه يعتبر العرف، وتمامه في شرح الوهبانية.( الدر المختارِ،ص400)
شمس اللہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی
16 جمادی الاولی،1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | شمس اللہ بن محمد گلاب | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |