85451 | خرید و فروخت کے احکام | قرض اور دین سے متعلق مسائل |
سوال
ایک شخص کو پیسوں کی ضرورت ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اپنا ذاتی گھر بنائے۔ لیکن گھر کی تعمیر کے لیے صرف سود پر مبنی قرض ہی دستیاب ہے۔ قرض کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ قرض دینے والا (دائن) مقروض (مدیون) کو اتنی رقم کے بدلے ایک رکشہ یا دو رکشے یا کوئی اور چیز فروخت کرے، اور قسطوں میں اضافی رقم وصول کرے۔ کیا اس صورت میں قرض لینا جائز ہوگا؟ اگر جائز نہیں تو براہِ کرم کوئی متبادل جائز حل تجویز کر کریں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
عام حالات میں سودی قرض لینا یا دینا شریعت میں قطعی حرام اور ممنوع ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں ایسے شخص پر لعنت کی گئی ہے جو سودی معاملات میں ملوث ہو۔ اس لیے ذاتی گھر کی تعمیر کے لیے سود پر قرض لینے سے اجتناب کریں اور کوئی جائز متبادل راستہ اختیار کریں، جیسے غیر سودی قرض حاصل کرنا۔اگر رقم کی فوری ضرورت ہو تو ایک جائز طریقہ یہ ہے کہ آپ کسی چیز کو ادھار خرید کر عام بازار میں فروخت کر دیں، البتہ یہ چیز اسی شخص کو نہ بیچیں جس سے خریدی گئی ہو۔ اس طرح آپ اپنی ضرورت پوری کر سکتے ہیں۔مزید یہ کہ جب تک غیر سودی قرض کا انتظام نہ ہو، کرائے کے مکان میں رہائش اختیار کریں اور صبر سے کام لیں۔ سود پر مبنی قرض لینا صرف اس صورت میں جائز ہو سکتا ہے جب زندگی گزارنا واقعی ناممکن ہو جائے اور اضطراری حالات پیدا ہو جائیں۔ بظاہر آپ کی حالت اضطراری نہیں ہے، اس لیے آپ کے لیے سودی قرض لینا درست نہیں ہے۔
حوالہ جات
(ردالمحتار على المختار:5/326)
ثم قال في الفتح ما حاصله: إن الذي يقع في قلبي أنه إن فعلت صورة يعود فيها إلى البائع جميع ما أخرجه أو بعضه كعود الثوب إليه في الصورة المارة وكعود الخمسة في صورة إقراض الخمسة عشر فيكره يعني تحريما، فإن لم يعد كما إذا باعه المديون في السوق فلا كراهة فيه بل خلاف الأولى، فإن الأجل قابله قسط من الثمن، والقرض غير واجب عليه دائما بل هو مندوب وما لم ترجع إليه العين التي خرجت منه لا يسمى بيع العينة؛ لأنه من العين المسترجعة لا العين مطلقا وإلا فكل بيع بيع العينة.
(ردالمحتار على المختار:5/73)
(قوله وفسد شراء ما باع إلخ) أي لو باع شيئا وقبضه المشتري ولم يقبض البائع الثمن فاشتراه بأقل من الثمن الأول لا يجوز زيلعي: أي سواء كان الثمن الأول حالا أو مؤجلا هداية، وقيد بقوله وقبضه؛ لأن بيع المنقول قبل قبضه لا يجوز ولو من بائعه كما سيأتي في بابه، والمقصود بيان الفساد بالشراء بالأقل من الثمن الأول.
(فتح القدير شرح الهداية:7/213)
وإلا فلا كراهة إلا خلاف الأولى على بعض الاحتمالات كأن يحتاج المديون فيأبى المسئول أن يقرض بل أن يبيع ما يساوي عشرة بخمسة عشر إلى أجل فيشتريه المديون ويبيعه في السوق بعشرة حالة، ولا بأس في هذا.
محمد ادریس
دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی
14 ٖجماد الاولی1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد ادریس بن محمدغیاث | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب |