03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیوی کا شوہر سے الگ گھر کا مطالبہ کرنا
85545نان نفقہ کے مسائلبیوی کا نان نفقہ اور سکنہ ) رہائش (کے مسائل

سوال

مسئلہ کافی لمبا ہے لیکن گزارش ہے کہ آپ اس کو پڑھ کر حل بیان کردیں جزاک اللہ ۔

ہماری شادی کو تین مہینے ہوئے ہیں۔ شادی کے لیے لڑکے کے ماں باپ مشکل سے راضی ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی شادی کی عمر نہیں ہے ،والدین کو ٹائم دو، اور مالی طور پر بھی بہتر ہوجاؤ تو  پھر شادی کرلینا ۔ لڑکے نے پیار سے، دھمکی سے، ناراض ہو کر ہر طریقے سے سمجھایا اور یہ بھی دھمکی دی کہ میں خود جا کرشادی  کر لوں گا ۔ یہاں تک  کہ رضامندی تو ظاہر کردی اور رشتہ لے کر چلے گئے۔ لڑکے کا یہ بھی اصرار تھا کہ بیوی کو وہ الگ رکھے گا اور ماں باپ کی ذمہ داری بھی پوری کرے گا۔ لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے، اس لیے لڑکا جلد از جلد نکاح کرنا چاہتا تھا۔ لیکن اس بات نے بھی مسائل پیدا کئے اور الگ گھر لینے کا معاملہ نہ ہو سکا۔شادی سے پہلے ایک بڑا گھر دیکھ کر لڑکے کی فیملی شفٹ ہوگئی، کیونکہ یہ ماں باپ کا اسرار تھا کہ بہو چھوٹے گھر میں نہیں آئے گی۔

 ماں نے یہ بھی شرط رکھی کہ لڑکی شادی سے پہلے نوکری چھوڑ کر آئے گی۔ لڑکے اور لڑکی کی رضامندی اس میں تھی کہ وہ نوکری چھوڑ دے گی، لیکن فوراً نہیں، لیکن اس شرط کی وجہ سے اسے شادی سے پہلے ہی نوکری چھوڑنی پڑی۔

شادی کے سارے معاملات ماں باپ کی مرضی سے طے کیے گئے اور انہوں نے خوش اسلوبی کے ساتھ شادی کردی۔

ساتھ رہتے رہتے معاملات یہاں تک پہنچے  کہ چھوٹی باتوں پر مسائل شروع ہوگئے۔ جیسے کہ بہو گھر سے چادر پہن کر نکلے۔ لڑکی پہلے سے سر پہ حجاب لیتی ہے، لیکن چادر یا عبایا نہیں پہنتی تھی۔ ماں کا کہنا تھا کہ میرے گھر کی بہو بنا چادر کے گھر سے نہیں نکلے گی، کیونکہ وہ خود شرعی پردہ کرتی ہیں تو اگر گھر کی بہو چادر نہیں لے گی تو لوگ ان پر باتیں بنائیں گے،اس پر لڑکی نے شوہر کو  کہا کہ چادر  نہیں پہنے گی۔لڑکی اور ساس کے آپس میں اس وقت تک کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ جب میاں بیوی باہر جا رہے تھے تو پارکنگ سے کال کر کے واپس بلایا کہ یہ بنا چادر کے نہیں نکلے گی۔ جب بیٹا چادر لینے کے لیے گیا تو بہت شور شرابہ ہوا اور لڑکی نے شوہر کی بات رکھ کر بات مان لی۔

لڑکا لڑکی کے آنے جانے پر کوئی پابندی تو نہیں تھی، لیکن یہ اصرار تھا کہ جہاں بھی جا رہے ہوں بتا کر جائیں  ۔ اگرچہ لڑکی کہیں اکیلے نہیں جاتی  اور ہر جگہ شوہر کے ساتھ جاتی ہے، اس پر ماں کا یہ اصرار تھا کہ لڑکی خود بتا کر جائے کہ کہاں جا رہی ہے، نہ کہ صرف بیٹا بتائے کہ وہ اپنی بیوی کو کہاں لے  کرجا رہا ہے۔ کچھ عرصہ تک شوہر کے کہنے پر کہ گھر میں چھوٹی  چھوٹی باتوں پر مسئلے مسائل  نہ بنیں، لڑکی نے سب باتیں مان لی۔ چادر لے کر جاتی تھی اور بتا کر بھی جاتی تھی۔ ایک دفعہ جب غلطی سے جگہ بتا کر نہیں گئی، جبکہ شوہر پہلے انہیں بتا چکا تھا کہ امی یا دوست کے گھر چھوڑنے جا رہا ہوں، اس پر بھی گھر میں بہت ہنگامہ ہوا اور باتیں سنائی گئیں کہ مجھے بتا کر نہیں گئی۔

اسی طرح گھر کے کاموں کا مسئلہ بھی شروع ہوگیا،جیسے کہ پورے گھر کی صفائی نہ کرنا، کیوں کہ لڑکی بس اپنے کمرے کی صفائی کرتی تھی اور گھر میں کوئی ماسی نہیں آتی۔ كھانا نہ پکانے کا مسئلہ ہونے لگا جبکہ لڑکی آہستہ آہستہ کچن میں کام کررہی تھی ،وہ روز روٹی ڈالنے لگی لیکن ساس ساتھ پکاتی تھی ۔وہ بولتی تھی کہ  وہ پوری خود پکا لے گی لیکن ساس نہیں کرنے دیتی ۔برتن دھونے کی ذمہ داری اس نے خود لے لی تھی لیکن کبھی کبھی ساس بھی دھو دیتی تھی ،اسی طرح گھر کے معاملات چل رہے تھے۔

یہ ساری چیزیں ہوتی رہی اور انکی ساری باتیں مان کر گزارا ہو رہا   تھا۔پِھر ایک دن میاں بیوی  کسی کام  کے سلسلے میں  گھر سے باہر نکلےا  ور  انہوں  کہیں اور بھی جانا تھا ،وہاں چلے گئے تو واپسی پہ ٹائم لگ گیا ،جب گھر پہنچے تو لڑکے کے ابّا نے پوچھنا شروع کردیا کہ کہاں تھے اور بنا بتائے کدھر گئے تھے  ،لڑکے نے ٹریفک کا بہانہ کردیا اور اصل جگہ نہیں بتائی ۔ان لوگوں کا کہنا تھا کہ  بیوی کو میسج کردینا چاہیے تھا ،اگر تم بھول گئے تھے اور ہم تمھاری فکر میں پریشان ہو رہے تھے ، جبکہ لڑکا لڑکی رات ساڑھے آٹھ بجے گھر پہنچ گئے تھے ۔ لڑکی نے یہ بول کر کہ آئندہ خیال کریں گے بات ختم کرنی چاہی اور سب کے ساتھ بیٹھ کر كھانا کھایا ۔آدھی رات کو دوبارہ ہنگامہ شروع ہوا اور لڑکے کو باہر بلایا کہ تم سچ نہیں بتا رہے کہ کہاں گئے تھے ۔جبکہ لڑکے کی نظر میں اگر وہ اپنی بیوی کو لیکر جا رہا ہے تو اسکی ساری تفصیل والدین کو دینا ضروری نہیں ہے ۔جبکہ والدین کا خیال ہے کہ لڑکی کو وہ رخصت  کر کے گھر لے آئے ہیں اس لئےوہ انکی ذمہ داری ہے۔چونکہ  یہ جوائنٹ فیملی سسٹم میں آئی ہے تو اس کو ہماری طرح رہنا پڑے گا ۔یہ بات اتنی بڑھی کہ مار پیٹ شروع ہوگئی ،لڑکا اچھے  طریقے سے اپنے ماں باپ کو سمجھاتا رہا کہ  میری بیوی کے اوپر یہ سب زور زبردستی کرنے کی ضرورت نہیں ۔لیکن انکا کہنا ہے کہ وہ اس کو بیٹی بنا کر گھر لے آئے ہیں تو بیٹی کی طرح رہنا پڑے گا یا  یہ بتا دو  کہ وہ تمھاری بیوی بن کے آئی ہے تو پِھر ہم اس سے کوئی تعلق نہیں رکھیں گے۔ یہی باتیں مزید بڑھتی گئیں اور والد نے لڑکے کو گھر سے نکل جانے کا بول دیا ،لیکن پِھر لڑکے کے بھائی نے بیچ میں آکر معاملہ ٹھنڈا کیا اور دونوں کو کمروں میں بھیج دیا۔

اگلی صبح  وہی بات پھر سے شروع ہوئی اور لڑکا سمجھانے کی کوشش کرتا رہا کہ اِس طرح سے معاملات نہیں چل سکتے لیکن لڑکے کی ماں مار پیٹ پر اُتَر آئی ،لڑکے کو بار بار منہ پر تھپڑ مار رہی تھی ،گلا کھینچ رہی تھی ،لیکن لڑکے نے ایک دفعہ بھی  اس کا ہاتھ نہیں روکا ۔ لیکن جب بات حد سے زیادہ بڑھی تو لڑکی نے لڑکے کے باپ سے کہا کہ انکل آپ مرد بنیں اور اپنی بیوی کو سنبھالیں ، اس کے یہ بولتے وقت لڑکے کی ماں نے لڑکے کو پکڑا ہوا تھا اور دھکے مار  مارکر گلا کھینچ رہی تھی تو لڑکا اس وقت اپنی بِیو ی کو یہ الفاظ بولنے سے نہ روک سکا ۔اِس سب کے بعد مزید بدتمیزی  اِس بات پر شروع ہوگئی کہ تمھاری بیوی نے آپ کے والد صاحب کو طعنہ دیا ہے کہ تم بے غیرت ہو۔ لڑکی نے فوراً سے اپنے اِس جملے  معافی بھی مانگ لی ، اور بار بار معافی مانگی ،لیکن انہوں نے معافی قبول نہیں کی ۔پِھر لڑکا لڑکی کمرہ بند  کر کے بیٹھ  گئے تاکہ مزید فساد نہ ہو ں ،کیوں کہ لڑکی کی کچھ دن سے طبیعت خراب تھی ۔اگلے دن ڈاکٹر کا اپائنٹمنٹ تھا تو لڑکا صبح آفس سے پہلے اسے ڈاکٹر کے پاس لیکر گیا اور واپسی پر اس کی امی کے گھر چھوڑ دیا ،تاکہ کچھ دن وہ اِس ذہنی ٹینشن سے دور رہے اور اسکو یہ بھی کہا کہ آپ کچھ دن یہیں رکو تاکہ پیچھے سےحالات  بہتر ہوجائیں  ،غصہ ٹھنڈا ہوجائے تو میں تمہیں لےجاؤں گا اور میں اپنے والدین سے بات  بھی کروں گا ،انہیں سمجھاؤں گا اور مسئلے کا کوئی حل نکالوںگا ۔ پیچھے سے والدین نے  مسائل  شروع  کردیے کہ تمھاری بیوی ناراض ہوکر اپنی ماں کے گھر جاکر بیٹھ گئی ہے ۔اب جب تک ہم نہیں بولیں گے ،آپ اسے واپس مت لانا ۔لڑکے نے بدھ  کے دن بیوی  امی کے گھر  چھوڑ کر  جمعہ کو واپس لانے کا ارادہ رکھتا تھا ،لیکن ماں باپ نے ضد لگا لی کہ  اب وہ پیر سے پہلے گھر نہیں آئیگی ۔ کیوں کہ لڑکا  ہفتہ اور اتوارگھر پر موجود ہوتا ہے تو وہ چاہتے تھے  کہ یہ پتہ چلے کہ اس کی تنہائی کیسی ہوتی ہے کیوں کہ اس نے اپنے ماں باپ کو اکیلا چھوڑ دیا ہے۔

اِس سب معاملات میں اب جہاں لڑکی کافی چیزوں پر سمجھوتہ کر رہی تھی ،اس نے بھی بول دیا کہ میں اب مزید یہ سب برداشت نہیں کروں گی ۔لڑکی بار بار گھر آنے پہ اصرار کر رہی تھی ،کیوں کہ  اسکو شوہر کے ساتھ رہنا تھا ۔

لڑکا اپنی بیوی کو اب اتوار والے دن گھر واپس لے کر گیا اور سامنے بٹھا کر بات کروائی ،جس پراس کے سسر نے پوچھا کہ تم ناراض ہوکر گئی تھی اور اب واپس کیوں آئی ہو تو اس نے جواب میں یہی کہا کہ میرے شوہر مجھے چھوڑ کے گئے تھے تو میں رک گئی ، وہ واپس لینے آئے تو میں آگئی ۔اب وہی پرانی چیزوں پر(  چادر پہننا ،كھانا اور صفائی وغیرہ )بحث شروع ہوگئی اور بڑھتی گئی۔ بالآخر  والد نے صاف بول دیا کہ  یہ آپ کی  ماں کا گھر ہے اور ساری چیزیں ان کی مرضی سے ہوں گی ، یہ سب ہمارے اصول ہیں ۔جس کو اِس گھر میں رہنا ہے، اس کو یہی سب ماننا پڑے گا ورنہ اپنا بندوبست کر لو ۔ لڑکے نے مزید کوشش کی  کہ کوئی بات بن جائے ،کوئی راستہ نکل آئے ،لیکن انہوں نے فیصلہ سنا دیا تو لڑکا لڑکی سامان پیک کر کے چلے گئے۔ ایک رات لڑکا لڑکی ہوٹل میں رکے اور اگلی صبح لڑکے کے والدین  اور بھائی لڑکی کے والدین  کو سارا معاملہ بتانے اور شکایت کرنےان  کے گھر پہنچ گئے۔ پھر لڑکا بھی ایک دن سسرال میں رکا تاکہ اس کے گھر والے ٹھنڈے ہوجائیں۔ پھر وہ اکیلے اپنے ماں باپ سے بات کرنے اور انہیں یہ سمجھانے دوبارہ گھر گیا  کہ میاں بیوی کے بیچ میں اس طرح نہیں بولنا چاہئے ، وہ لڑکی میری بیوی ہے تو میری مرضی پر چلے گی۔

اس سب میں مزید ایک ہفتہ گزر گیا ،لڑکا اپنے گھر رہتا رہا ،جبکہ لڑکی اپنی ماں کے گھر رہ رہے تھی ۔اس دوری کی وجہ سے لڑکا لڑکی کی بھی آپس میں لڑائیاں ہونے لگی ، لڑکی بھی اس بات پہ راضی نہیں تھی کہ وہ اس شرط پہ سسرال واپس جائے کہ سب کچھ ساس کی مرضی سے ہوگا۔ لڑکی کی یہ مسلسل ڈیمانڈ تھی کہ اسے الگ گھر دے دیا جائے، لیکن لڑکے کا اصرار تھا کہ ساتھ رہ کر معاملات بہتر ہو سکتے ہیں۔

لڑکے کو ان  دنوں میں یہ لگ رہا تھا کہ ماں باپ کے رویے میں تبدیلی آئی ہے اور وہ اب اسے کچھ نہیں بول رہےتو وہ اس کی بیوی کا بھی تھوڑا خیال رکھیں گے۔ پھر لڑکے کے والدین نے بول دیا کہ آپ اسے لے آؤ، کوئی اسے کچھ نہیں کہے گا۔ اس پر لڑکا پھر سے پر امید ہوکر بیوی کو منانے آگیا کہ اب گھر کے حالات بہتر ہوں گے۔

لڑکے کی بہت سی تسلیوں کے بعد بہت مشکل سے لڑکی  راضی ہوئی۔وہ گھر چلی گئی۔ گھر میں جو باتیں ہوئیں اور جس طرح کے اسے طعنے ملے اور باتیں سنائی گئیں کہ وہ بے غیرت ہے، اس کا سر کے بال ڈھکنا کسی حجاب کی قسم نہیں، اس کے خاندان، اس کی تربیت، اس کی شکل سے لے کر ہر چیز پہ باتیں سننے کے بعد لڑکی کے دل میں لڑکے کے والدین  کے لیے بالکل جگہ نہیں تھی۔ لیکن لڑکی نے اپنے شوہر کی زبان پر بھروسہ کیا اور ساتھ چلی گئی۔

لیکن اگلے ہی دن پھر سے وہی سب شروع ہوگیا کہ ہماری مرضی کے مطابق اس گھر میں رہنا ہوگا۔ اور اگر بات  نہیں مانی گئی، ماں نے بتایا   کہ پھر سے فساد ہوگا۔ اور اگر گھر چھوڑ کر گئے تو قطع تعلقی کی دھمکیاں دیں۔

لڑکی نے شوہر کی بات سن کر اس تماشے سے بچنے کے لیے شوہر کی روٹی ڈال دی، لیکن وہ گھر کا ساس کا پکایا ہوا کھانا نہیں کھا رہی تھی، اس لیے اپنی روٹی نہیں بنائی نہ ہی ساتھ کھانا کھایا۔ اسی طرح رات کا کھانا بھی نہیں کھایا کیونکہ اسے اپنی ساس کا کوئی احسان نہیں چاہیے۔ جس طرح وہ پہلے باتیں سنا چکی ہیں کہ کس طرح اس کے شادی کے کپڑے بنائے گئے، لڑکی مزید ان کا کسی چیز پر احسان نہیں لینا چاہتی تھی ۔

اگلی صبح جب لڑکا آفس کے لیے جانے لگا تو لڑکی نے اسے کہا کہ آپ مجھے کسی دوست کے گھر چھوڑ دیں یا امی کے گھر کیونکہ وہ پورے دن شوہر کے بغیر اس ماحول میں نہیں رہ سکتی اور کھا پی بھی نہیں سکتی۔ اس لیے شوہر اسے اپنے ساتھ لے جانے لگا ،لیکن ماں باپ نے پھر سے فساد اور چیخنا چلانا شروع کردیا کہ یہ گھر ہے یا ہوٹل ہے؟ اور غلط قسم کی باتیں بولنا شروع کردیں کہ بس اسے رات گزارنے کے لیے لائے ہو کیا؟ اور اگر یہ تمھاری بات نہیں سنتی تو تم الگ نیچے زمین پر سویا کرو اور اس سے بستر الگ کرو۔

ماں باپ کا خیال ہے کہ الگ ہونے کا مطالبہ لڑکی کی ماں کا ہے جس کی وجہ سے یہ سب ہو رہا ہے اور وہ یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ ان کی زور زبردستی کی وجہ سے لڑکی الگ گھر کا بول رہی ہے۔ جو یہ ہر دوسرے دن چیخ پکار اور چلانا ہوتا ہے، جس سے گھر کا ماحول خراب ہوتا ہے، اسی لیے الگ گھر کا بول رہی ہے۔

جس گھر میں اس کے شوہر کے ساتھ مار پیٹ ہو، اس گھر میں وہ خود کو بھی محفوظ محسوس نہیں کرتی، اسی لیے الگ گھر کا بول رہی ہے۔ اپنے اور اپنے شوہر کے ذہنی سکون کے لیے یہ الگ گھرکا  مطالبہ کر رہی ہے۔ لڑکی آہستہ آہستہ ساری باتیں مان رہی تھی لیکن ایک غلطی پر یا کسی بھی بات کو ماننے سے انکار کیا جائے تو والدین  کو یہ اپنی بے عزتی لگتی ہے اور وہ کوئی بھی بات سننے کو تیار نہیں ہیں۔

تمام معاملات کھول کر بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کوئی ایسا حل  بتا دیا جائے کہ بیوی پر زور زبردستی بھی نہ ہو اور والدین  سے قطع تعلقی بھی نہ ہو۔ والدین جیسے بھی ہیں، ضعیف ہیں اور ساری عمر اولاد کی خاطر انہوں نے جو کچھ کیا اسے بھلایا نہیں جا سکتا لیکن ساتھ ہی بیوی کو زبردستی ایک مشکل ماحول میں رہنے پر مجبور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ میاں بیوی اور ان کے متعلقین کے رشتے قاعدوں اور ضابطوں کے بجائے رابطوں سے نبھائے جائیں تو یہ رشتے کامیاب رہتے ہیں ،اسلام نے ہرمسلمان کو تمام تعلق داروں سے حسن معاشرت کا حکم دیاہے، جیسے بیوی پرشوہر کے حقوق اور اس کے والدین کا احترام وتوقیر لازم ہے، اسی طرح شوہر کے ذمہ بھی بیوی کے حقوق لازم ہیں، اورشوہر کے والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ آنے والی بہو کو اپنی حقیقی بیٹی سمجھتے ہوئے اس سے وہی سلوک وبرتاؤ رکھیں جو حقیقی بیٹی سے رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں جانبین کو  حقوق کے مطالبے کے بجائے اخلاق کریمانہ کا مظاہرہ کرناچاہیے، بیوی کو چاہیے کہ  اپنی ساس کی ہر بات برداشت کرے،ان کی ہر نصیحت کا  خندہ پیشانی سے استقبال کرے اورشوہر کے والدین کی خدمت کرے ،  یہ میاں بیوی دونوں کی سعادت اور اخروی نیک بختی ہے، یہ ہمت اور حوصلہ اور شوہر کے بزرگ والدین کے ساتھ رہ کر ان کی خدمت بیوی کو لائق رشک بنادیتا ہے، نیز اس کی برکتوں کا مشاہدہ پھر میاں بیوی خود بھی کرتے ہیں۔اس لیے میاں بیوی حتی الامکان اسی کی کوشش کریں کہ والدین کے ساتھ رہ کر ان کی خدمت کریں، اگر ان سے کوئی سخت یا ناروا بات بھی ہوجائے تو  اس پر صبر کریں اوراللہ سے اجر کی امید رکھیں۔

تاہم  اگربیوی میں اتنا حوصلہ نہیں کہ وہ اپنے شوہر کے والدین کے ساتھ رہیں تو اس پر یہ لازم نہیں ہے کہ وہ شوہر کے والدین کے ساتھ ہی رہے، بلکہ شریعت نے عورت کو الگ رہائش کا حق دیاہے، یعنی کہ  اگر بیوی مالدار ہو تو اسے الگ مکان دینا واجب ہے ،متوسط درجے کی ہو تو اسی مکان میں ایک مستقل کمرے کے علاوہ باورچی خانہ ،غسل خانہ اور بیت الخلاء بھی مستقل ہونا ضروری ہے ،غریب  ہو تو صرف ایک کمرہ کافی ہے  باورچی خانہ ،غسل خانہ اور بیت الخلاء  مشترک ہوں تو مضائقہ نہیں ۔ایسی صورت میں شوہر کے والدین اور اس کی بیوی دونوں کے حق میں روز انہ کی  اذیت سے بہتر یہ ہے کہ  الگ رہائش اختیار کرلیں، لیکن علیحدہ رہائش اختیار کرنے میں شوہر کے والدین سے قطع تعلق کی نیت نہ ہو، بلکہ نیت یہ ہو کہ ساتھ رہ کہ والدین کو جو اذیت ہم سے پہنچتی ہے اور جو بے ادبی ہوتی ہے اس سے بچ جائیں، غرض خود کو قصوروارسمجھ کر الگ ہونا چاہیے والدین کو قصوروار ٹھہرا کر نہیں۔ اور الگ ہونے کے بعد بھی شوہر کے والدین کی ہر خدمت کو اپنی سعادت سمجھا جائے۔

بیوی کے لیے الگ رہائش کا بندوبست ایک علیحدہ معاملہ ہے اور والدین کے ساتھ محبت کا اظہار اور ان کے ساتھ تعلق  اور میل جول رکھنا ایک علیحدہ معاملہ ہے،  اولاد کے دل میں والدین کی محبت ہونی ہی چاہیے اور والدین کے حقوق کی ادائیگی اولاد پر فرض بھی ہے۔ شوہر بیک وقت دونوں امور کو بحسن وخوبی انجام دے سکتا ہے۔ بیوی کو علیحدہ رہائش دینے سے یہ نتیجہ کہاں نکلتا ہے کہ والدین کی محبت میں یا ان کے ساتھ میل جول میں کسی طرح بھی کمی کرے!!  نہ ہی بیوی کی الگ رہائش کا یہ مطلب ہے کہ والدین کو چھوڑ کر ہر وقت بیوی کے پاس موجود رہے، جیسے اپنے کاروبار اور ضروریات کے لیے انسان دن بھر گھر سے باہر رہتاہے، اسی طرح والدین کی خدمت ، ان سے میل جول، ان کے حقوق کی ادائیگی کی ترتیب بھی بنائی جاسکتی ہے، یہ کوئی ایسا کام نہیں کہ جو ناممکن  یا بہت مشکل ہو،  اللہ تعالی نے انسان کو اسی نظام سے منسلک پیدا کیا ہے ، اور اسی دنیا میں انہیں تعلقات کو نبھاتے ہوئے اس نے کامیاب زندگی گزارنی ہے، بیوی کا مطالبہ بھی اپنی بساط کے مطابق پورا کرے اور والدین کے ساتھ میل جول بھی بیک وقت برقرار رکھے، دونوں باتیں، گو کہ ہمت اور شخصی استقلال چاہتی ہیں، لیکن  یہ مشکل یا ناممکن نہیں ہیں۔

حوالہ جات

الفتاوى الهندية (1/ 556)

تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله وأهلها إلا أن تختار ذلك كذا في العيني شرح الكنز

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 601)

أبت أن تسكن مع ضرتها أو صهرتها، إن أمكنه أن يجعل لها بيتا على حدة في داره ليس لها غير ذلك،

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 599)

(وكذا تجب لها السكنى في بيت خال عن أهله) (وأهلها) (بقدر حالهما) كطعام وكسوة وبيت منفرد من دار له غلق. زاد في الاختيار والعيني: ومرافق، ومراده لزوم كنيف ومطبخ، وينبغي الإفتاء به بحر (كفاها) لحصول المقصود هداية. وفي البحر عن الخانية: يشترط أن لا يكون في الدار أحد من أحماء الزوج يؤذيها، ونقل المصنف عن الملتقط كفايته مع الأحماء لا مع الضرائر فلكل من زوجتيه مطالبته ببيت من دار على حدة.

(قوله وكذا تجب لها) أي للزوجة السكنى أي الإسكان، وتقدم أن اسم النفقة يعمها؛ لكنه أفردها؛ لأن لها حكما يخصها نهر (قوله خال عن أهله إلخ) ؛ لأنها تتضرر بمشاركة غيرها فيه؛؛ لأنها لا تأمن على متاعها ويمنعها ذلك من المعاشرة مع زوجها ومن الاستمتاع إلا أن تختار ذلك؛ لأنها رضيت بانتقاص حقها هداية۔

(قوله ومفاده لزوم كنيف ومطبخ) أي بيت الخلاء وموضع الطبخ بأن يكونا داخل البيت أو في الدار لا يشاركها فيهما أحد من أهل الدار. قلت: وينبغي أن يكون هذا في غير الفقراء الذين يسكنون في الربوع والأحواش بحيث يكون لكل واحد بيت يخصه وبعض المرافق مشتركة كالخلاء والتنور وبئر الماء ويأتي تمامه قريبا (قوله لحصول المقصود) هو أنها على متاعها؛ وعدم ما يمنعها من المعاشرة مع زوجها والاستمتاع (قوله وفي البحر عن الخانية إلخ) عبارة الخانية: فإن كانت دار فيها بيوت وأعطى لها بيتا يغلق ويفتح لم يكن لها أن تطلب بيتا آخر إذا لم يكن ثمة أحد من أحماء الزوج يؤذيها. اهـ

وعلى ما نقله المصنف عن ملتقط صدر الإسلام يكفي مع الأحماء لا مع الضرة، وعلى ما نقلنا عن ملتقط أبي القاسم وتجنيسه للأسروشني أن ذلك يختلف باختلاف الناس، ففي الشريفة ذات اليسار لا بد من إفرادها في دار، ومتوسط الحال يكفيها بيت واحد من دار. ومفهومه أن من كانت من ذوات الإعسار يكفيها بيت ولو مع أحمائها وضرتها كأكثر الأعراب وأهل القرى وفقراء المدن الذين يسكنون في الأحواش والربوع، وهذا التفصيل هو الموافق، لما مر من أن المسكن يعتبر بقدر حالهما، ولقوله تعالى - {أسكنوهن من حيث سكنتم من وجدكم} [الطلاق: 6]-

فينبغي الإفتاء بلزوم دار من بابها، نعم ينبغي أن لا يلزمه إسكانها في دار واسعة كدار أبيها أو كداره التي هو ساكن فيها؛ لأن كثيرا من الأوساط والأشراف يسكنون الدار الصغيرة، وهذا موافق لما قدمناه عن الملتقط من قوله اعتبارا في السكنى بالمعروف۔

عطاء الر حمٰن

دارالافتاءجامعۃالرشید ،کراچی

16   / جمادی الاولٰی /1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عطاء الرحمن بن یوسف خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب