81881 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
میری بیوی کا انتقال نوسال پہلے ہواتھا،جبکہ میری ساس کا حال ہی میں انتقال ہواہے،فوت ہونے سے پہلے میری ساس نے کچھ رقم کی وصیت کی کہ میرے فوت ہونے کے بعد یہ رقم میرے بیٹوں اور بیٹیوں میں برابرتقسیم کر دی جائے جو میری مرحوم بیوی کے حصے آئی وہ 55ہزاردو سو روپے ہے،میرے چار بیٹے ہیں،ساس نے مرحوم بیٹی کا حصہ کہہ کردیاتھا۔
اب میرا سوال یہ ہے کہ
اس رقم میں میرا حصہ بنتا ہے یا نہیں،اگر بنتا ہے تو کتنا ہے، اور میرے چار بیٹوں میں سے ہر ایک کا کتنا بنتا ہے؟جلد جواب کے لیے آپ کا مشکور ہوں گا۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
واضح رہے کہ وارث کے حق میں وصیت کرنا درست نہیں ہوتا،البتہ اگر سب ورثاء عاقل و بالغ ہوں اور وہ سب بخوشی مورِث(وصیت کرنے والے)کی وفات کے بعد اُس وصیت کو نافذقرار دیں تو میت کے کُل ترکہ میں سے مرحوم کے کفن ودفن کے اخراجات اورقرضےمنہا کرنے کے بعد جو مال بچے اُس میں سے ایک تہائی(۳؍۱)تک وصیت قابلِ عمل ہو تی ہے ۔
مذکورہ صورت میں بیٹوں اورزندہ بیٹیوں کے حق میں رقم کی وصیت کرنا درست نہیں ہےکیونکہ وہ وارث ہیں ،تاہم اگر سب ورثاء عاقل وبالغ ہوں اور وہ سب بخوشی مورِث(وصیت کرنے والے) کی وفات کے بعداُس وصیت کو نافذقرار دیں اور مذکورہ رقم کی مالیت مرحوم کے کفن ودفن کے اخراجات اور قرضےمنہا کرنے کے بعد باقی ماندہ ترکہ کا ایک تہائی (۳؍۱)یا ایک تہائی سے کم ہے تو یہ وصیت درست ہو گی ۔
اگر مذکورہ کل رقم مرحوم کے کفن ودفن کے اخراجات اور قرضےمنہا کرنے کے بعد باقی ماندہ ترکہ کا ایک تہائی (۳؍۱) سے زیادہ ہو توترکہ کے ایک تہائی(۳؍۱)تک وصیت قابلِ عمل ہو گی اورزیادہ میں ورثہ کی اجازت پر موقوف ہوگی،ورثہ کی اجازت کے بعدبیٹوں اوربیٹوں کووصیت کی رقم ملنے کے بعد دیگر ورثاء کی طرح بقیہ ترکہ میں سے اِن کا حصۂ شرعی بھی ملے گا۔
جہاں تک آپ کی ساس صاحبہ کا اپنی مرحومہ بیٹی یعنی آپ کی مرحومہ بیوی کےلیے وصیت کا تعلق ہے تو میت کے لیےاصولاً تو وصیت کرنا نہیں ہوتا کیونکہ میت مالک نہیں بن سکتی، تاہم جب وصیت کرنے والےکو یہ معلوم ہے کہ مرحومہ بیٹی رقم نہیں لے سکتی مگروہ پھربھی وصیت کررہی ہے تو اس سے مراد بظاہران کی بیٹی کی اولاد ہوگی،جیسے کہ بعض لوگ ایسا کرتے ہیں کہ بیٹی کے فوت پونے پر نواسوں اورنواسیوں کو بیٹی کا حصہ کہہ کردیتےہیں، لہذا یہ رقم آپ کی اولاد کے درمیان برابرتقسیم ہوگی اورآپ کواس میں سے حصہ نہیں ملےگا کیونکہ یہ آپ کی بیوی کی میراث نہیں ہے، بلکہ درحقیقت نانی کی طرف سے اپنے نواسوں اورنواسیوں کے لیے وصیت ہےجس میں آپ شامل نہیں ہےلہذا یہ رقم آپ اپنے بیٹوں اوربیٹیوں میں برابرتقسیم کردیں اورخود اس میں سے کچھ نہ لیں۔
حوالہ جات
الفتاوى الهندية - (6 / 90)
ثُمَّ تَصِحُّ الْوَصِيَّةُ لِأَجْنَبِيٍّ مِنْ غَيْرِ إجَازَةِ الْوَرَثَةِ، كَذَا فِي التَّبْيِينِ وَلَا تَجُوزُ بِمَا زَادَ عَلَى الثُّلُثِ إلَّا أَنْ يُجِيزَهُ الْوَرَثَةُ بَعْدَ مَوْتِهِ وَهُمْ كِبَارٌ وَلَا مُعْتَبَرَ بِإِجَازَتِهِمْ فِي حَالِ حَيَاتِهِ، كَذَا فِي الْهِدَايَةِ…وَلَا تَجُوزُ الْوَصِيَّةُ لِلْوَارِثِ عِنْدَنَا إلَّا أَنْ يُجِيزَهَا الْوَرَثَةُ، وَلَوْ أَوْصَى لِوَارِثِهِ وَلِأَجْنَبِيٍّ صَحَّ فِي حِصَّةِ الْأَجْنَبِيِّ وَيَتَوَقَّفُ فِي حِصَّةِ الْوَارِثِ عَلَى إجَازَةِ الْوَرَثَةِ إنْ أَجَازُوا جَازَ وَإِنْ لَمْ يُجِيزُوا بَطَلَ وَلَا تُعْتَبَرُ إجَازَتُهُمْ فِي حَيَاةِ الْمُوصِي حَتَّى كَانَ لَهُمْ الرُّجُوعُ بَعْدَ ذَلِكَ، كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ.
مشكاة المصابيح - (2 / 925)
ويروى عن ابن عباس رضي الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا وصية لوارث إلا أن يشاء الورثة» منقطع هذا لفظ المصابيح. وفي رواية الدارقطني: قال: «لا تجوز وصية لوارث إلا أن يشاء الورثة»
سنن سعيد بن منصور - (1 / 149)
عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا تَجُوزُ لِوَارِثٍ وَصِيَّةٌ إِلَّا أَنْ يُجِيزَهَا الْوَرَثَةُ»
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (6 / 655)
(وَلَا لِوَارِثِهِ وَقَاتِلِهِ مُبَاشَرَةٌ) لَا تَسْبِيبًا كَمَا مَرَّ (إلَّا بِإِجَازَةِ وَرَثَتِهِ) لِقَوْلِهِ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - «لَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ إلَّا أَنْ يُجِيزَهَا الْوَرَثَةُ» يَعْنِي عِنْدَ وُجُودِ وَارِثٍ آخَرَ كَمَا يُفِيدُهُ آخِرُ الْحَدِيثِ أَيْ الْوَارِثِ وَقْتَ الْمَوْتِ كَمَا مَرَّ بَيَانُهُ.
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق - (ج 13 / ص 468)
العبرة للمعاني دون الصور ؛ ولهذا جعلت الهبة بشرط العوض بيعا ، والكفالة بشرط براءة الأصيل حوالة والحوالة بشرط أن لا يبرأ الأصيل كفالة.
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق - (ج 11 / ص 450) العبرة للمعاني لا لمجرد اللفظ.
الأشباه والنظائر - حنفي - (ج 1 / ص 39) القاعدة الثانية : الأمور بمقاصدها.
الفتاوى الهندية - (6 / 447)
التركة تتعلق بها حقوق أربعة: جهاز الميت ودفنه والدين والوصية والميراث. فيبدأ أولا بجهازه وكفنه وما يحتاج إليه في دفنه بالمعروف…ثم بالدين… ثم تنفذ وصاياه من ثلث ما يبقى بعد الكفن والدين إلا أن تجيز الورثة أكثر من الثلث ثم يقسم الباقي بين الورثة على سهام الميراث.
السراجي ـــ(ص_5 /8)
قال علماءنا: تتعلق بتركت الميت حقوق أربعة مرتبة:الاول:يبدأ بتكفينه وتجهيزه من غير تبذير ولاتقتير،ثم تقضى ديونه من جميع ما بقي من ماله ،ثم تنفذ وصاياه من ثلث ما بقي بعد الدين ،ثم يقسم الباقي بين ورثته بالكتاب والسنة إجماع الامة.
الأشباه والنظائر - حنفي - (ج 1 / ص 99)
وصح له في الثلث دون ما زاد عليه دفعا لضرر الورثة حتى أجزناها بالجميع عند عدم الوارث وأوقفناها على إجازة بقية الورثة.
سیدحکیم شاہ عفی عنہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید
5/5/1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید حکیم شاہ | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |