85525 | اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائل | کرایہ داری کے متفرق احکام |
سوال
اگر کوئی اپنی گاڑی کسی آن لائن ایپلی کیشن جیسے ان ڈرایو(InDrive)،کریم (Careem)،ینگو(Yango) اور اوبر(Ober)وغیرہ میں رجسٹرڈ کرکے یاڈائریکٹ بغیر کسی رجسڑیشن کے کسی ڈرائیور کو دے کر اس کے ساتھ اس طرح معاملہ کرے ،کہ آپ اس گاڑی کو چلائیں اور مجھے روزانہ تین ہزار دے کر باقی نفع آپ اپنے پاس رکھیں،کیا اس طرح معاملہ کرنا جائز ہے ؟یہ اس لئے کیاجاتاہے کہ اگر اس طرح نہ کیاجائے اور ڈرائیور کے لئے ماہانہ متعین تنخواہ مقرر کر لی جائے تو وہ سستی سے کام لیتاہے،کیونکہ وہ سمجھتاہے کہ اس کی تنخواہ تو پکی ہے ،گاڑی چلے یا نہ چلے ۔کیااس طرح معاملہ کرنا جائز ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
گاڑی کسی ڈرائیور کو چلانے کے لئے کرائے پر دینا ’’اجارہ‘‘ کہلاتاہے اور اجارہ میں متعین اجرت مقررکرنا ضروری ہے،لہذا صورتِ مسولہ میں مالک کا ڈرائیور کو گاڑی کرایہ پر دینا اور یومیہ تین ہزار روپے بطور اجرت لیناجائزہے،اس صورت میں گاڑی کی متعین اجرت مالک وصول کرےگا اور گاڑی چلانے سے حاصل ہونے والی ساری کمائی ڈرائیور کی ہوگی اور معمول کے اخراجات جیسے پیٹرول ،پنکچر وغیرہ ڈرائیور کے ذمہ اوربڑے اخراجات جیسے انجن میں کام کروانا ،ٹیکس ادا کرنا وغیرہ مالک کے ذمہ لازم ہوں گے ۔ اس طرح معاملہ کرنے کے بعدجس دن کوئی آمدنی نہ ہو، اگر اس دن کا کرایہ مالک بغیر شرط کے تبرعا معاف کردے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔لیکن اصو لی طورپر اس دن کی اجرت بھی ڈرائیور پر لازم ہوگی۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (,7,86/ 3):
قدم الهبة لكونها تمليك عين، وهذه تمليك منفعة (هي) لغة: اسم للأجرة وهو ما يستحق على عمل الخير ولذا يدعى به، يقال أعظم الله أجرك. وشرعا (تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض) حتى لو استأجر ثيابا أو أواني ليتجمل بها أو دابة ليجنبها بين يديه أو دارا لا ليسكنها أو عبدا أو دراهم أو غير ذلك لا ليستعمله بل ليظن الناس أنه له فالإجارة فاسدة في الكل، ولا أجر له لأنها منفعة غير مقصودة من العين بزازية وسيجيء.
(وكل ما صلح ثمنا) أي بدلا في البيع (صلح أجرة) لأنها ثمن المنفعة ولا ينعكس كليا، فلا يقال ما لا يجوز ثمنا لا يجوز أجرة لجواز إجارة المنفعة بالمنفعة إذا اختلفا كما سيجيء.
(وتنعقد بأعرتك هذه الدار شهرا بكذا) ؛ لأن العارية بعوض إجارة بخلاف العكس (أو وهبتك) أو أجرتك (منافعها) شهرا بكذا؛ أفاد أن ركنها الإيجاب والقبول.
وشرطها كون الأجرة والمنفعة معلومتين؛ لأن جهالتهما تفضي إلى المنازعة.
المحيط البرهاني في الفقه النعماني (7/ 395):
وأما بيان شرائطها فنقول يجب أن تكون الأجرة معلومة، والعمل إن وردت الإجارة على العمل، والمنفعة إن وردت الإجارة على المنفعة، وهذا لأن الأجرة معقود به والعمل أو المنفعة معقود عليه، وإعلام المعقود به وإعلام المعقود عليه شرط تحرزا عن المنازعة كما في باب البيع، وإعلام المنفعة ببيان الوقت، وهو الأجل أو بيان المسافة.
ا لمبسوط للسرخسي (15/ 170):
[باب إجارة الدواب]
(قال: - رحمه الله - وإذا استأجر دابة ليركبها إلى مكان معلوم بأجر مسمى فهو جائز وليس له أن يحمل عليها غيره) ؛ لأن هذا تعيين مفيد فالناس يتفاوتون في ركوب الدابة وليس ذلك من قبل الثقل والخفة بل من قبل العلم والجهل فالثقيل الذي يحسن ركوب الدابة يروضها ركوبه، والخفيف الذي لا يحسن ركوبها يعقرها ركوبه.
عبدالعلی
دارالافتا ء جامعۃالرشید،کراچی
18/ جمادی الاولی /1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبدالعلی بن عبدالمتین | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب |