03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مال تجارت پر زکوۃ کا حکم
85533زکوة کابیانان چیزوں کا بیان جن میں زکوة لازم ہوتی ہے اور جن میں نہیں ہوتی

سوال

قابل فروخت تیار مال اور خام مال (Display Items and Inventory)، جیسے: ڈسپلے آئٹمز کراچی (Display Items Karachi)،  تیار مال (Stock-in-Hand) جو فروخت کے لیے موجود ہے،  ان کی زکوة کیسے نکالی جائے گی؟    کیا اسٹاک کی قیمت سال کے آخر میں  بازاری قیمت(Market Price)پر لگائی جائے گی یا خریداری قیمت (Purchase Price) کے حساب سے؟ 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کاروبار میں جو سامان فروخت کرنے کی نیت سے رکھا ہے جسے مالِ تجارت کہتے ہیں سال پورا ہونے پر جس قدر مال موجود ہے ، چاہے خام صورت میں ہو یا تیار ہو چکا ہو ، اس کی بازاری قیمت (یعنی زکوۃ کی ادائیگی کے وقت مارکیٹ ریٹ ،نہ کہ قیمت خرید یا جو لاگت اس پر آئی ہے) پر ڈھائی فی صد زکوة واجب ہے۔          

حوالہ جات

 الموسوعة الفقهية الكويتية، (268/23):

جمهور الفقهاء على أن المفتى به هو وجوب الزكاة في عروض التجارة، واستدلوا لذلك بقوله تعالى: {يا أيها الذين آمنوا أنفقوا من طيبات ما كسبتم}  وبحديث سمرة: كان النبي صلى الله عليه وسلم يأمرنا أن نخرج الصدقة من الذي نعد للبيع ۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، (21/2):

وأما صفة هذا النصاب فهي أن يكون معدا للتجارة وهو أن يمسكها للتجارة وذلك بنية التجارة مقارنة لعمل التجارة لما ذكرنا فيما تقدم بخلاف الذهب والفضة فإنه لا يحتاج فيهما إلى نية التجارة؛ لأنها معدة للتجارة بأصل الخلقة فلا حاجة إلى إعداد العبد ويوجد الإعداد منه دلالة على ما مر.

اسامہ مدنی

دارالافتا ء جامعۃالرشید،کراچی

17/ جمادی الاولی/1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

اسامہ بن محمد مدنی

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب