85505 | طلاق کے احکام | الفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان |
سوال
ہماری ایک بہن کی شادی کو تقریباً ایک سال ہوا تھا، ان کا شوہر کسی ایک لڑکی کو لےکر گھر سے بھاگ گیا اور ہماری بہن کو بغیر نان ونفقہ بغیر گھر کے چھوڑ دیا،کیونکہ اس کا ذاتی گھر نہیں تھا، بلکہ کرایہ پر رہتا تھا، اس کے بعد تقریباً اب ایک سال مکمل ہونے کو ہے۔ ان کا شوہر ان سے کوئی رابطہ نہیں کر رہا اور نہ نان نفقہ کا انتظام کر رہا ہے، ساتھ میں دھمکیاں بھی دے رہا ہے کہ یہ تمہیں بیوی بناؤں گا نہ طلاق دوں گا، ہم نے ان سے طلاق کے لیےجتنے بھی ذرائع تھے وہ استعمال کیے، جرگہ کیا اور ساتھ میں پولیس کے ذریعہ لوکیشن بھی نکالنے کوشش کی، لیکن کسی طرح کامیابی نہیں ملی، اب جبکہ ہم ایک لوکلاس فیملی سے تعلق رکھتے ہیں، ان کا نان ونفقہ برداشت کرنا ہمارے لئے مشکل ہے اور ساتھ آج کل کے حالات میں عفت اور عصمت کے بھی مسائل ہیں، ان وجوہات کی بناء پر کیا ہمارے لئے عدالت میں فسخ نکاح کا کیس دائر کرنا ٹھیک ہے؟ اور کیا طریقہ کار اپنایا جائے کہ جس میں عدالت سے بھی نکاح ختم ہو اور شرعاً بھی فسخ درست ہو؟
نوٹ: ہم نے اس کا گھر بسانے کی بھی بہت کوشش کی، خاندان کے افراد کے ذریعہ جرگے بھی کیے ،مگر اس کے بھائی وغیرہ نے ان سے برات کا اظہار کیا۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
سوال میں ذکر کی گئی صورتِ حال کے مطابق اگر واقعتاً سائلہ کاشوہر نان ونفقہ کا انتظام نہیں کر رہا، بلکہ ساتھ دھمکیاں بھی دے رہا ہے کہ میں نہ بیوی بناؤں گا اور نہ طلاق دوں گا تو ایسی صورت میں آپ کے لیے عدالت میں تنسیخِ نکاح کا دعوی دائر کرنا جائز ہے، جس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ حقیقی صورتِ حال لکھ کر عدالت میں دعوی دائر کریں اور عدالت کے فیصلہ کرنے سے پہلے نان ونفقہ نہ دینے پر گواہ ضرور پیش کریں،[1] اگرچہ عدالت گواہوں کا مطالبہ نہ کرے، کیونکہ عام طور پر پاکستان میں عدالت کی طرف سے خلع کے مسائل میں مدعیہ سے گواہوں کا مطالبہ نہیں کیا جاتا، جبکہ شرعا مدعی علیہ موجود نہ ہونے کی صورت میں گواہ پیش کرنا ضروری ہے اور پھراس گواہی کی بنیاد پر اگر عدالت فسخِ نکاح کی ڈگری جاری کر دے تو ائمہ ثلاثہ رحمہم اللہ کے مذہب کے مطابق نکاح ختم ہو جائے گا اور فیصلہ جاری ہونے کی تاریخ سے عورت کی عدت شروع ہو جائے گی اور وہ عدت مکمل کرکے دوسری جگہ نکاح کرنے میں شرعاً آزاد ہو گی۔
[1] یہ گواہ ایسے ہوں جن کو مدعیہ کی مذکورہ صورتِ حال کا علم ہو، یا ہر ایک گواہ کو کم از کم دو افراد نے نان ونفقہ نہ دینے کی صورتِ حال سے آگاہ کیا ہوتو یہ عدالت میں گواہی دے سکتے ہیں۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (5/ 414) دار الفكر-بيروت:
(قوله: ولو قضى على غائب إلخ) أي قضى من يرى جوازه كشافعي لإجماع الحنفية على أنه لا يقضى على غائب كما ذكره الصدر الشهيد في شرح أدب القضاء، كذا حققه في البحر. والحاصل: أنه لا خلاف عندنا في عدم جواز القضاء على الغائب. وإنما الخلاف في أنه لو قضى به من يرى جوازه هل ينفذ بدون تنفيذ أو لا بد من إمضاء قاض آخر.
منح الجليل شرح على مختصر سيد خليل (8/ 371) دار الفكر،بيروت:
ولما أفاد أن القاضي يحكم على الغائب وكانت الغيبة ثلاثة أقسام قريبة وبعيدة ومتوسطة ذكرها على هذا الترتيب فقال و الغائب القريب الغيبة كثلاثة أيام مع أمن الطريق كالحاضر في سماع الدعوى عليه والبينة ۔ ابن الماجشون العمل عندنا أن تسمع الدعوى والبينة حضر الخصم أو لم يحضرفإن كان له مدفع وإلا قضى عليه في كل شيء بعد الإرسال إليه وإعلامه بمن قام عليه دعواه وما ثبت عليه وتسمية الشهود۔
محمد نعمان خالد
دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی
17/جمادی الاولیٰ 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |