03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ملازمین سے کٹوتی کرکے قرعہ اندازی میں نام نکلنے کی شرط پر عمرہ پر بھیجنے کا حکم
85524سود اور جوے کے مسائلجوا اور غرر کے احکام

سوال

میں ایک سرکاری ادارے میں کام کرتا ہوں، ہمارے ادارے کی ترتیب یہ ہے کہ ہر ماہ تنخواہ سے عمرہ پالیسی کے نام سے بارہ سو ساٹھ (1,260) روپے کی کٹوتی ہوتی ہے۔یہ رقم جبری طور پر کاٹی جاتی ہے، یعنی اگر ملازم کہے کہ میں ادارہ کی طرف سے عمرہ پر نہیں جانا چاہتا اور یہ کٹوتی نہ کی جائے تو ادارہ یہ بات تسلیم نہیں کرتا۔ پھر سالانہ قرعہ اندازی ہوتی ہے، جس کا نام نکل آئے، وہ عمرہ پر چلا جاتا ہے، اور جس کا نام نہیں آتا تو ان کو وہ پیسے واپس نہیں ملتے جو ان سے پورے سال میں کٹوتی کی شکل میں لیے گئے ہوں۔ یہ کٹوتی پوری مدتِ ملازمت کے دوران برابر ہوتی رہتی ہے، بالفرض اگر ایک دو تین سال بعد کسی ملازم کا نام قرعہ اندازی میں نکل آتا ہے تو پھر اس کا نام دوبارہ قرعہ اندازی میں تو شامل نہیں کیا جاتا،  لیکن  مدتِ ملازمت ختم ہونے تک اس کی تنخواہ سے یہ رقم برابر کاٹی جاتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ پوری سروس کے دوران کٹوتی ہوتی رہے اور قرعہ اندازی میں نام ایک دفعہ بھی نہ نکلے۔

سوال یہ ہے کہ اس طرح کٹوتی کرنا شرعا کیسا ہے ؟ اگر ہمارا نام نکل آئے تو ان پیسوں سے عمرے پر جانا کیسا ہے؟اس رقم کا کیا کریں؟ ادارہ کو واپس کریں یا صدقہ کردیں؟ اور اگر نام نہیں آتا اور پوری مدتِ ملازمت ہم سے  پیسوں کی کٹوتی ہوتی رہے تو اس کی کیا حیثیت ہے؟ شرعا ہمیں یہ پیسے واپس ملیں گے یا نہیں؟

تنقیح: سائل نے فون پر بتایا کہ جب ملازمت کا معاہدہ ہوتا ہے تو یہ سب بات اس وقت معلوم ہوتی ہے کہ آپ کی تنخواہ سے عمرہ پالیسی کی مد میں رقم کی کٹوتی ہوگی، وقت کے ساتھ اس کٹوتی کی مقدار میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔ جب کسی شخص کا نام قرعہ اندازی میں نکلتا ہے تو ادارہ اس کو یک مشت ایک مقدار میں رقم دیدیتا ہے، اب اس میں یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی کل مدتِ ملازمت میں اس سے اتنی رقم کی کٹوتی نہ ہو، بلکہ اس سے کم کی کٹوتی ہو، یہ بھی امکان ہوتا ہے کہ اس سے زیادہ کی کٹوتی ہو اور یہ بھی کہ اس کی پوری مدتِ ملازمت میں نام نہ نکلے اور اس کو کچھ بھی نہ ملے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کردہ طریقے پر عمرہ پالیسی کے نام سے کٹوتی کرنا شرعا جائز نہیں؛ کیونکہ قرعہ اندازی کے ذریعے ایسا انتخاب جس میں پوری مدتِ ملازمت کے دوران ملازم کا نام نکلنے اور نہ نکلنے کے دونوں امکان ہوں، شرعا قمار یعنی جوا ہے۔ جوے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اپنا مال اس طرح داؤ پر لگائے کہ اس کا مال اپنے ساتھ مزید مال لانے یا پھر اس کا مال بھی ڈوب جانے کے دونوں احتمالات ہوں۔ صورتِ مسئولہ میں بھی ہر ملازم کی تنخواہ سے جو کٹوتی ہوتی ہے، اس میں یہ امکان ہوتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ مزید رقم لائے اس طور پر کہ قرعہ اندازی میں نام نکلنے کی صورت میں ادارہ اس کو کل مدتِ ملازمت کی کٹوتی شدہ رقم سے زیادہ رقم ادا کرے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ ملازمت ختم ہونے تک اس کا نام نہ نکلے اور اس کی کٹوتی شدہ ساری رقم بھی چلی جائے۔ جوا چونکہ شرعا حرام ہے، اس لیے آپ کے ادارے کی مذکورہ عمرہ پالیسی بھی جائز نہیں، جس کو ختم کرنا لازم ہے۔   

اگر مذکورہ ناجائز طریقے سے قرعہ اندازی میں کسی کا نام نکلتا ہے تو اس کے لیے ادارے سے اتنی ہی رقم لینا جائز ہوگا جتنی رقم وہ اس وقت تک جمع کرا چکا ہو، اس سے زیادہ رقم لینا جائز نہیں ہوگا، اگر کسی نے زیادہ رقم لے کر استعمال کرلی تو اس پر اس کی واپسی لازم ہوگی، جس میں آئندہ ہونے والی کٹوتیوں کو بھی شمار کیا جائے گا۔ اور اگر کسی کا نام قرعہ اندازی میں بالکل نہیں نکلا تو اس کی جمع کی ہوئی ساری رقم اس کو واپس کرنا ادارے کے ذمے لازم ہوگا۔ اسی طرح اگر کسی کا نام قرعہ اندازی میں نکلا، لیکن اس کو جتنی رقم دی گئی اس سے کل مدتِ ملازمت میں اس سے زیادہ رقم لی گئی تو اس کی اضافی رقم واپس کرنا بھی ادارے پر لازم ہوگا۔  

اگر ادارہ اس ناجائز طریقے کو ختم کر کے جائز طریقے پر عمرہ پالیسی بنانا چاہے تو اس کے ممکنہ طریقے کسی مستند مفتی صاحب یا دار الافتاء سے معلوم کرسکتا ہے۔  

مذکورہ عمرہ پالیسی کو جی پی فنڈ (جنرل پراویڈنٹ فنڈ) پر قیاس کر کے جائز نہیں کہا جاسکتا؛ کیونکہ اُس میں جوا نہیں پایا جاتا یعنی ملازم کی تنخواہ سے کٹوتی شدہ رقم ڈوبنے کا احتمال نہیں ہوتا، بلکہ وہ رقم اس کو یقینی طور پر اضافہ کے ساتھ ملتی ہے، اس لیے وہ جائز ہے۔

حوالہ جات

بحوث في قضایا فقهیة معاصرة (2/ 160-157):

والذي یتبین من النظر في أحکام القرآن والسنة والفقه الإسلامي بشأن القمار، أن القمار یترکب من أربعة عناصر: الأول: أنه عقد معاوضة بین جهتین أو فردین. الثاني: أن کل فریق في هذا العقد یعلق ملکه علی خطر. الثالث: أن حصول المال الزائد في هذا العقد موقوف علی واقع یحتمل الوقوع وعدمه. الرابع: أن المال المعلق علی الخطر في القمار إما یضیع من ید صاحبه بدون عوض، أو یجلب مالًا أکثر. فحیث وجدت هذه العناصر الأربعة تحقق القمار. ثم القمار علی قسمین: ……..القسم الثانی من القمار: ما یتعین فیه بذل المال من جانب واحد، وبذله من الجانب الآخر موقوف علی أمر یحتمل الوقوع وعدمه. وإن الذي یبذل فیه المال إنما یخاطر به من حیث إن ماله المبذول إما سیضیع بدون عوض أو سیجلب مالًا أکثر منه.

ویدخل في هذا القسم جمیع العملیات الرائجة في الکازینوات ( محلات القمار) التي تدفع فیها الرسول للدخول في عملیات المخاطرة وعملیات یا نصیب، والتي تباع فیها التذاکر والکوبونات بسعر معین، ثم توزع الجوائز الغالیة علی أساس القرعة، وبما أن هذا الجوائز إنما تمنح بمقابل، فإنها لیست جوائز في الحقیقة، وإنما هي أموال القمار، وإن سمیت جوائز.

فتح القدير (4/ 284):

نحن لاننفي شرعية القرعة في الجملة، بل نثبتها شرعا لتطييب القلوب ودفع الأحقاد والضغائن، كما فعل عليه الصلاة والسلام للسفر بنسائه، فإنه لما كان سفره بكل من شاء منهن جائزا، إلا انه ربما يتسارع الضغائن الى من يخصها من بينهن، فكان الإقراع لتطييب قلوبهن، وكذا إقراع القاضي في الأنصباء المستحقة والبداية بتحليف أحد المتحالفين إنما هو لدفع ما ذكرنا من تهمة الميل.

 والحاصل أنها إنما تستعمل في المواضع التي يجوز تركها فيها لما ذكرنا من المعنى، ومنه استهام زكريا عليه السلام معهم على كفالة مريم عليها السلام كان لذلك، وإلا فهو كان أحق بكفالتها؛ لأن خالتها كانت تحته، والله اعلم.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

18/جمادی الاولیٰ/1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب