03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
"میری طرف سے تم آزاد ہو، اپنی ماں کے گھر جا سکتی ہو”کہنے کاحکم
85506طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

انیس سال قبل میری شادی ہوئی، میرے شوہر شادی کے قابل نہیں تھے، شادی کے شروع میں گولیاں وغیرہ کھا کر گزارہ چلاتے رہے، مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹی دی، جس کی عمر اٹھارہ سال کے قریب ہے، شوہر اور اس کی بہنیں وغیرہ ہمیشہ مجھے ٹارچر کرتی رہیں کہ اسی کے اندر مسئلہ ہے، میں اپنی بچی کی خاطر برداشت کرتی رہی، شوہر،اس کی ماں اور بہنیں چھوٹی چھوٹی بات پر رات دن مجھے ذلیل کرتے، برا بھلا کہتے، بہنیں اس کے پیچے چرا کر میرے اوپر الزام لگا دیتیں، یہ بھی الزام لگایا کہ یہ بچی میری نہیں ہے، اس طرح میں نے بہت مشکل اور اذیت میں وقت گزارا، جب میں روتی تو مجھے کہتا کس طرح کتے کی طرح منہ بنا کر بیٹھی ہو۔ایک دن اس نے اپنی ماں کی باتوں میں آکر مجھے کہا میری طرف سے تم آزاد ہو، اپنی ماں کے گھر جا سکتی ہو، یہ جملے دو دفعہ کہے، میں چھ ماہ تک اپنی ماں کے گھر رہی، ماں کو اپنے پاس رکھا، بچی کی خاطر مجھے واپس جانا پڑا، تین سال بعد پھر اس نے کہا میری طرف سے تم جا سکتی ہو اور مجھے تمہاری ضرورت نہیں، پھر گھر والوں نے واپس بھیج دیا، اب تین ماہ سے یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا، اب جو چیخ وپکارکرتے ہیں کہ بس اللہ کی پناہ۔ اب رٹ لگائی ہوئی ہے کہ اپنے بھائی کے گھر چلی جاؤ، مجھے تجھ کو نہیں رکھنا اور مجھے تمہاری ضرورت نہیں ہے، اس کے علاوہ اس نے خرچے میں بھی بہت تنگ کیا، کبھی پڑوس میں سے کوئی دے جاتا، کبھی میری بہن دے جاتی تھی، ایک ماہ سے راشن بھی نہیں لا کر دیا، اب میں اور میری بیٹی اپنی ماں کے گھر آگئے ہیں، اب ہمارا واپس جانے کا کوئی ارادہ نہیں، لیکن وہ اب دھمکیاں دے رہے ہیں کہ واپس آ جاؤ۔ لیکن اب ہم واپس نہیں جانا چاہتی، سوال یہ ہے کہ کیا اس صورتِ حال میں میرا اب واپس جانا شرعا جائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق آپ کے شوہر نے جب پہلی مرتبہ آپ کو یہ کلمات "میری طرف سے تم آزاد ہو، اپنی ماں کے گھر جا سکتی ہو" کہے تو اسی وقت آپ پر ایک طلاق بائن واقع ہو چکی تھی، کیونکہ یہ الفاظ کنایاتِ طلاق کی اس قسم میں سے ہیں جن سے غصے کی حالت میں بغیرنیت کے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے، لہذا شرعی اعتبار سے آپ دونوں کا نکاح ختم ہو چکا تھااس کے بعد دوبارہ نکاح کیے بغیر آپ دونوں کا اکٹھے رہنا ہرگز جائز نہیں تھا، لہذا ابھی تک اتنا عرصہ اکٹھے رہنے پرآپ دونوں کے ذمہ اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے توبہ واستغفار کرنا لازم ہے اور آئندہ کے لیے اس طرح کے فعل سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔

اس کے بعد شوہر نے دوبارہ جتنے کلمات کہے ان سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، دوسری مرتبہ مذکورہ کلمات  اگرچہ عدت کے دوران کہے گئے، مگر اصول یہ ہے کہ طلاقِ بائن کے بعد عدت کے دوران بھی دوسری طلاقِ بائن واقع نہیں ہوتی، اور پھر اس کے تین سال بعد جو الفاظ کہے گئے تو وہ چونکہ نکاح ختم ہونے کے بعد کہے گئے تھے اس لیے ان الفاظ سے بھی کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، البتہ چونکہ ابھی تک آپ دونوں اکٹھے رہے ہیں اس لیے آگے سکی اور سے نکاح کرنے کے لیے آپ پر دوسری عدت پوری کرنا بھی ضروری ہے اور وہ عدت اس وقت سے شروع ہو گی جب آپ دونوں ایک دوسرے کو چھوڑ دیں، جس کی صورت یہ ہے کہ میاں بیوی میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کو زبان سےکہہ دے کہ میں نے آپ کو چھوڑ دیا، اس کے بعد آپ کی عدت شروع ہو جائے گی اور عدت مکمل کر کے آپ دوسری جگہ نکاح کرنے میں شرعاً آزاد ہوں گی، اسی شخص کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا آپ کے ذمہ لازم نہیں۔

جہاں تک آپ کی  بیٹی کا تعلق ہے تو اگر آپ کے پاس رہتے ہوئے اس کی عزت وعصمت محفوظ ہے اور تربیت بھی درست ہو رہی ہے تو اس صورت میں وہ شرعاً باختیار ہے، چاہےتو آپ کے پاس رہے یا اگرچاہے تواپنے باپ کے پاس چلی جائے، باپ اس کو اپنے پاس رہنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔

تنبیہ: یہ بھی واضح رہے کہ شوہر کا آپ کی بچی کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ میری بیٹی نہیں، زنا کی تہمت لگانا ہے اور بغیر ثبوت کے کسی بھی مسلمان عورت پر اس طرح تہمت لگانا انتہائی سخت اور کبیرہ گناہ ہے، اسی طرح شوہر کا یہ کلمات کہ"کس طرح کتے کی طرح منہ بنا کر بیٹھی ہو" کہہ کر آپ کو ذلیل اور رسوا کرنا بھی انتہائی قبیح اوراخلاق سے گری ہوئی حرکت ہے، اس کے علاوہ شوہر کی بہنوں کا اپنے بھائی کا مال چرا کر آپ پر تہمت لگانا بھی کبیرہ گناہ ہے، ان سب حرکتوں پر ان سب کے ذمہ اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کرنا اور آپ سے معافی مانگنا ضروری ہے، نیز آئندہ کے لیے کسی بھی انسان کے ساتھ اس طرح کے اخلاق اپنانے سے اجتناب کرنا بھی لازم ہے۔

حوالہ جات

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 101)

إذا قال لامرأته: كوني حرة أو عتقى ولو قال: يا مطلقة وقع عليها الطلاق؛ لأنه وصفها بكونها مطلقة ولا تكون مطلقة إلا بالتطليق، فإن قال: أردت به الشتم لا يصدق في القضاء؛ لأنه خلاف الظاهر.

رد المحتار :باب صریح الطلاق(3/ 252،ط: ايچ، ايم سعید):

"ومن الألفاظ المستعملة: الطلاق يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام فيقع بلا نية للعرف، (قوله فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحا لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن لأن الصريح قد يقع به البائن كما مر، لكن في وقوع البائن به بحث سنذكره في باب الكنايات، وإنما كان ما ذكره صريحا لأنه صار فاشيا في العرف في استعماله في الطلاق لا يعرفون من صيغ الطلاق غيره ولا يحلف به إلا الرجال، وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفا إلا فيه من أي لغة كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك فوجب اعتباره صريحا كما أفتى المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلا نية مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية."

رد المحتار :باب صریح الطلاق(3/ 308،ط: ايچ، ايم سعید):

"(قوله لا يلحق البائن البائن) المراد بالبائن الذي لا يلحق هو ما كان بلفظ الكناية لأنه هو الذي ليس ظاهرا في إنشاء الطلاق كذا في الفتح، وقيد بقوله الذي لا يلحق إشارة إلى أن البائن الموقع أولا أعم من كونه بلفظ الكناية أو بلفظ الصريح المفيد للبينونة كالطلاق على مال"

البحر الرائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (3/ 185) دار الكتاب الإسلامي:

 وظاهر كلامهم أن المتاركة لا تكون من المرأة أصلا كما قيده الزيلعي بالزوج لكن في القنية أن لكل واحد منهما أن يستبد بفسخه قبل الدخول بالإجماع وبعد الدخول مختلف فيه وفي الذخيرة ولكل واحد من الزوجين فسخ هذا النكاح بغير محضر من صاحبه عند بعض المشايخ وعند بعضهم إن لم يدخل بها فكذلك وإن دخل بها فليس لواحد منهما حق الفسخ إلا بمحضر من صاحبه اهـ. وهكذا في الخلاصة، وهذا يدل على أن للمرأة فسخه بمحضر الزوج اتفاقا ولا شك أن الفسخ متاركة إلا أن يفرق بينهما وهو بعيد والله سبحانه وتعالى أعلم

الهداية في شرح بداية المبتدي (2/ 276) دار احياء التراث العربي – بيروت:

" والمعتدة عن وفاة إذا وطئت بشبهة تعتد بالشهور وتحتسب بما تراه من الحيض فيها " تحقيقا للتداخل بقدر الإمكان " وإبتداء العدة في الطلاق عقيب الطلاق وفي الوفاة عقيب الوفاة فإن لم تعلم بالطلاق أو الوفاة حتى مضت مدة العدة فقد انقضت عدتها " لأن سبب وجوب العدة الطلاق أو الوفاة فيعتبر ابتداؤها من وقت وجود السبب ومشايخنا رحمهم الله يفتون في الطلاق أن ابتداءها من وقت الإقرار نفيا لتهمة المواضعة " والعدة في النكاح الفاسد عقيب التفريق أو عزم الواطئ على ترك وطئها " وقال زفر رحمه الله من آخر الوطآت لأن الوطء هو السبب الموجب ولنا أن كل وطء وجد في العقد الفاسد يجري

مجرى الوطأة الواحدة لاستناد الكل إلى حكم عقد واحد ولهذا يكتفى في الكل بمهر واحد فقبل المتاركة أو العزم لا تثبت العدة مع جواز وجود غيره ولأن التمكن على وجه الشبهة أقيم مقام حقيقة الوطء لخفائه ومساس الحاجة إلى معرفة الحكم في حق غيره.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

18/جمادی الاولیٰ 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب