81885 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
ہمارےوالد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے ان کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں والدہ محترمہ اور بڑے بھائی ان کی زندگی میں ہی وفات پاچکے ہیں۔مرحوم بھائی کی بیوہ اور تین بچیاں ہیں۔پوچھنایہ ہےکہ
١۔ کیا مرحوم بھائی کی بیوہ اورتین بچیوں کا بھی وراثت میں حصہ ہو گا؟
۲۔مذکورہ بالامیراث کیسے تقسیم ہوگی؟اس سے متعلق رہنمائی کی درخواست ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
آپ کے بڑے بھائی اوروالدہ کا انتقال جب آپ کے والد سے پہلےہی ان کی زندگی میں ہوگیا تھا تو یہ دونوں تو آپ کے والدکےوارث نہیں ہونگے ، لہذا ان کو آپ کےوالد کی میراث میں حصہ نہیں ملےگا۔
١۔ آپ کے بڑے بھائی کی بیوی اورتین بچیوں کا بھی شرعاً آپ کے والد کی میراث میں حصہ نہیں بنتا، البتہ اگرورثہ ان کو اپنے حصوں سے کچھ ہدیہ کرنا چاہیں یہ بہترہے، تاہم واجب نہیں۔
۲۔ ورثہ میں آپ کے والدکی میراث درج ذیل طریقے سے تقسیم ہوگی ۔
حقوقِ متعلقہ بالترکہ(کفن دفن کے اخراجات ،قرض اورثلت تک وصیت اگرکی ہو) کی ادائیگی کے بعد آپ کےمرحوم والد کی موت کے وقت چھوڑے ہوئے کل مال میں سے ان کےہر بیٹے کو 25 فیصد اورہربیٹی کو12.5 فیصد حصہ ملے گا۔
حوالہ جات
وفی "رد المحتار"
وشروطه: ثلاثة: موت مورث حقيقة، أو حكما كمفقود، أو تقديرا كجنين فيه غرة ووجود وارثه عند موته حيا حقيقة أو تقديرا كالحمل والعلم بجهة إرثه. ( رد المحتار على الدر المختار، كتاب الفرائض، شرائط الميراث، ج:6، ص:758)
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (6/ 234)
ولد الابن يحجب بالابن ذكورهم وإناثهم فيه سواء لأن الابن أقرب، وهو عصبة فلا يرثون معه.
قال اللہ تعالی :
{يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ}.................. [النساء:11،12]
وفی البحر الرائق (8/ 567)
والعصبة أربعة أصناف: عصبة بنفسه وهو جزء الميت وأصله وجزء أبيه وجزء جده الأقرب.
سیدحکیم شاہ عفی عنہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید
7/5/1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید حکیم شاہ | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |