85635 | اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائل | ملازمت کے احکام |
سوال
السلام علیکم مفتی صاحب، مجھے یہ بتائیں کہ میں ٹیلی گرام کے پروجیکٹس پر کام کرتا ہوں جس میں صرف ٹیپ کرنے سے پیسے ملتے ہیں۔ یہ پروجیکٹس کچھ مہینے چلتے ہیں اور پھر ان کا نفع ملتا ہے۔ کیا اس سے حاصل کی گئی کمائی حلال ہوگی یا حرام؟ اور کبھی یوٹیوب ،انسٹاگرام پر فالو کرنے جیسے ٹاسک بھی ملتے ہیں۔ اگر میں فالو نہ بھی کروں یا کبھی جعلی نمبر اور جعلی ای میلز وغیرہ سے ٹاسک مکمل کرلوں، تو کیا یہ کام حلال ہوگا؟اگر میں اس طرح کا کام نہ بھی کروں اور اصل نمبر وغیرہ استعمال کرلوں، تو کیا یہ حلال ہوگا؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگر آپ کا کام صرف ٹیپ کرنا، یوٹیوب چینلز کو فالو کرنا، یا انسٹاگرام اکاؤنٹس کو سبسکرائب کرنا ہو، تو یہ شرعی طور پر کوئی مقصود منفعت (یعنی حقیقی فائدہ) نہیں ہے جس کی اجرت لی جا سکے۔ اس قسم کے کام پر اجرت وصول کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ شریعت میں اجرت صرف ایسے کاموں پر دی جا سکتی ہے جو نفع بخش اور شرعی لحاظ سے معتبر ہوں۔نیز جعلی نمبر اور ای میلز کا استعمال تو دھوکہ ہے جو شرعًا ممنوع ہے۔
حوالہ جات
قال العلامۃ الحصکفي رحمہ اللہ:لغةً: اسم للأجرة وهو ما يستحق على عمل الخير ولذا يدعى به، يقال أعظم الله أجرك. وشرعًا (تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض) حتى لو استأجر ثيابا أو أواني ؛ليتجمل بها أو دابة ليجنبها بين يديه أو دارا لا ليسكنها أو عبدا أو دراهم أو غير ذلك لا ليستعمله بل ليظن الناس أنه له:فالإجارة فاسدة في الكل، ولا أجر له؛ لأنها منفعة غير مقصودة من العين، بزازية. (الدرالمختارعلی رد المحتار:(4/6
قال العلامۃ فرید الدین رحمہ اللہ:وفي الھدایۃ: الإ جارۃ عقد علی المنافع بعوض،وفي الزاد:یرید بالعوض عوضاً ھو مال.(الفتاوی التاتارخانیۃ:15/3)
محمد مجاہد
دار الافتاء جامعۃ الرشید ،کراچی
/20جمادی الاولی،1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد مجاہد بن شیر حسن | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |