85591 | نماز کا بیان | جمعہ و عیدین کے مسائل |
سوال
ایک فیکٹری جس میں ملازمین کی تعداد تین سو (300) سے اوپر ہے، کے مصلیّٰ میں جمعہ کی نماز درست ہے یا نہیں؟ جبکہ وہاں فجر کے علاوہ باقی چاروں نمازیں جماعت کے ساتھ ہوتی ہوں، مگر فجر کی نماز نہیں ہوتی، جمعہ میں اذنِ عام بھی نہیں ہوتا اور فیکٹری کے قریب تقریبا ایک پلاٹ کے فاصلے پر جامع مسجد بھی موجود ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورتِ مسئولہ میں جب فیکٹری کے قریب جامع مسجد موجود ہے تو اصل حکم یہی ہے کہ جمعہ کی نماز جامع مسجد میں ادا کی جائے؛ بغیر عذر جمعہ کے لیے مسجد نہ جانا مکروہ ہے۔ فیکٹری مالکان نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لیے مناسب وقفہ رکھیں، تاکہ اس دوران وہاں کام کرنے والے لوگ مسجد جاکر جمعہ کی نماز ادا کرسکیں۔ البتہ اگر کسی مجبوری کی وجہ سے بعض ملازمین کے لیے مسجد جانا مشکل ہو تو ایسی صورت میں وہ جمعہ کی تمام شرائط کی رعایت کرتے ہوئے فیکٹری کے مصلّٰی میں نمازِ جمعہ ادا کرسکتے ہیں؛ جامع مسجد یا پانچوں نمازوں کا باجماعت ہونا کسی جگہ جمعہ کے جائز ہونے کی شرائط میں سے نہیں، جہاں تک "اذنِ عام" کی شرط کا تعلق ہے تو اگر فیکٹری اتنی بڑی ہو کہ اس میں معتد بہ تعداد میں لوگ ہوں تو حفاظتی (Security) وجوہات کی بنیاد پر اس میں ہر کسی کو اندر آنے کی اجازت نہ دینا اذنِ عام کی شرط کے منافی نہیں ہوتا، سوال کے مطابق چونکہ مذکورہ فیکٹری میں بھی ملازمین کی تعداد تین سو سے اوپر ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بڑی فیکٹری ہے، اس لیے باہر کے لوگوں کو اندر آنے کی اجازت نہ دینے کی وجہ سے اس میں جمعہ ناجائز نہیں ہوگا۔ (باستفادۃٍ من فتاویٰ عثمانی:1/528-523)
حوالہ جات
الدر المختار (2/ 152-151):
( و ) السابع ( الإذن العام ) من الإمام، وهو يحصل بفتح أبواب الجامع للواردين، كافي. فلا يضر غلق باب القلعة لعدو أو لعادة قديمة؛ لأن الإذن العام مقرر لأهله، وغلقه لمنع العدو لا
المصلي. نعم ! لو لم يغلق لكان أحسن، كما في مجمع الأنهر معزيا لشرح عيون المذاهب. قال: وهذا أولى مما في البحر و المنح، فليحفظ. ( فلو دخل أمير حصنا ) أو قصره ( وأغلق بابه ) وصلى بأصحابه ( لم تنعقد ) ولو فتحه وأذن للناس بالدخول جاز وكره، فالإمام في دينه ودنياه إلى العامة محتاج، فسبحان من تنزه عن الاحتیاج.
رد المحتار (2/ 152-151):
قوله ( لأن الإذن العام مقرر لأهله ) أي لأهل القلعة؛ لأنها في معنى الحصن، والأحسن عود الضمير إلى المصر المفهوم من المقام؛ لأنه لا يكفي الإذن لأهل الحصن فقط، بل الشرط الإذن للجماعات كلها، كما مر عن البدائع. قوله ( وغلقه لمنع العدو الخ ) أي أن الإذن هنا موجود قبل غلق الباب لكل من أراد الصلاة، والذي يضر إنما هو منع المصلين لا منع العدو. قوله ( لكان أحسن ) لأنه أبعد عن الشبهة؛ لأن الظاهر اشتراط الإذن وقت الصلاة لا قبلها؛ لأن النداء للاشتهار كما مر، وهم يغلقون الباب وقت النداء أو قبيله، فمن سمع النداء وأراد الذهاب إليها لا يمكنه الدخول فالمنع حال الصلاة متحقق، ولذا استظهر الشيخ إسماعيل عدم الصحة، ثم رأيت مثله في نهج الحياة معزيا إلى رسالة العلامة عبد البر بن الشحنة، والله أعلم. قوله ( وهذا أولى مما في البحر والمنح ) ما في البحر و المنح هو ما فرعه في المتن بقوله فلو دخل أمير حصنا أي أنه أولى من الجزم بعدم الانعقاد. قوله ( أو قصره ) كذا في الزيلعي والدرر وغيرهما، وذكر الواني في حاشية الدرر أن المناسب للسياق أو مصره بالميم بدل القاف. قلت: ولا يخفى بعده عن السياق. وفي الكافي التعبير بالدار حيث قال: والإذن العام وهو أن تفتح أبواب الجامع ويؤذن للناس حتى لو اجتمعت جماعة في الجامع وأغلقوا الأبواب وجمعوا لم يجز، وكذا السلطان إذا أراد أن يصلي بحشمة في داره، فإن فتح بابها وأذن للناس إذنا عاما جازت صلاته شهدتها العامة أو لا، وإن لم يفتح أبواب الدار وأغلق الأبواب وأجلس البوابين ليمنعوا عن الدخول لم تجز؛ لأن اشتراط السلطان للتحرز عن تفويتها على الناس، وذا لا يحصل إلا بالإذن العام، اه.
قلت: وينبغي أن يكون محل النزاع ما إذا كانت لا تقام إلا في محل واحد، أما لو تعددت فلا؛ لأنه لا يتحقق التفويت، كما أفاده التعليل، تأمل. قوله ( لم تنعقد ) يحمل على ما إذا منع الناس، فلا يضر إغلاقه لمنع عدو أو لعادة كما مر، ط. قلت: ويؤيده قول الكافي وأجلس البوابين الخ، فتأمل. … قوله (وكره) لأنه لم يقض حق المسجد الجامع، زيلعي و درر
عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
21/ جمادی الاولیٰ/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبداللہ ولی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |