85613 | خرید و فروخت کے احکام | دین )معاوضہ جو کسی عقدکے نتیجے میں لازم ہوا(کی خرید و فروخت |
سوال
سوہارا نامی ایک شخص نے فیض محمد سے دس پلاٹ خریدے، پلاٹ نامعلوم جگہ پر اور غیر متعین تھے، دونوں نے ان کی لوکیشن بھی نہیں دیکھی تھی، فیض محمد نے سوہارا کو چار پلاٹ کی جگہ پر گبول گوٹھ میں چار پلاٹ دے دیے اور باقی پلاٹ بھی دینے کا وعدہ کر لیا، مگر جب فیض محمد باقی پلاٹوں کا انتظام نہ کر سکا تو اس نے کہا میں پاکستانی کرنسی میں آپ کی قیمت واپس کرتا ہوں، سوہارا نے کہا میں نے آپ کو اٹھارہ سال قبل ریال اور سونا دیا تھا، اب وہی مجھے واپس کیا جائے، اختلاف ہونے پر دونوں فریق مفتیان کرام کے پاس گئے، انہوں نے فتوی دیا کہ یہ خریدوفروخت درست نہیں ہوئی، کیونکہ پلاٹ متعین نہیں تھے، لہذا سودا کینسل ہے اورخریدارکو ریال اور سونا واپس کیا جائے گا، اب فیض محمد کہتا ہے کہ میرے بقیہ چار پلاٹ بھی واپس کرو، جبکہ سوہارا نے اس پر گھر تعمیر کیا ہوا ہے، وہ کہتا ہے کہ مجھے گھر کی قیمت ادا کرو تو میں یہ چار پلاٹ بھی واپس کر دیتا ہوں، جبکہ فیض محمد میں گھر کی قیمت ادا کرنے کی استطاعت نہیں ہے، سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
وضاحت: سائل نے فون پر بتایا کہ فیض محمد اور سوہارہ دونوں سعودیہ میں رہتے تھے، ایک تیسرے شخص کے پاس معمار کے قریب دو ایکڑ زمین تھی، اس نے فیض محمد سے کہا کہ تم مجھ سے یہ زمین خرید کر یہاں کسی کو پرافٹ پر بیچ دو اور مجھے صرف اصل قیمت دے دینا، چنانچہ فیض محمد نے اس سے زمین خرید کر سوہارا کو دس پلاٹ بنا کر بیچ دیے، جبکہ فیض محمد نے وہ زمین نہیں دیکھی تھی، بعد میں پہلے شخص نے فیض محمد کو وہ زمین دینے سے انکار کر دیا تو فیض محمد نے گبول گوٹھ میں چار پلاٹے دیے اور باقی کا وعدہ کر لیا۔
نیزیہ بھی بتایا کہ ہماری خریوفروخت پاکستانی کرنسی میں ہوئی تھی اور فی پلاٹ تینتالیس یس چوالیس ہزار قیمت طے ہوئی تھی، اگرچہ خریدار نے پاکستانی کرنسی کی جگہ مجھے ریال دیے تھے اور کچھ ریال کم پڑنے پر پاکستانی کرنسی کے حساب سے سونا دیا تھا، اس پر فروخت کنندہ حلفیہ بیان دینے کو تیار ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
سوال میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق چونکہ پلاٹوں کا محلِ وقوع معلوم اور متعین نہیں تھا تو اس لیےیہ خریدوفروخت فاسد اور ناجائز ہوئی تھی اور ایسی خریدوفروخت کو ختم کرنا فریقین کے ذمہ لازم تھا، اس کے بعد جب فیض محمد نے چار پلاٹوں کی جگہ آپ کو گبول گوٹھ میں دوسرے پلاٹ دیے تو ان چار پلاٹوں میں بھی خریدوفروخت درست نہ ہو ئی، کیونکہ فقہائے کرام رحمہم اللہ نے صراحت کی ہے کہ ناجائز اور فاسد خریدوفروخت کوفسخ کیے بغیر اسی چیز کی دوبارہ خریدوفروخت زبانی یا تحریری ایجاب وقبول اور تعاطیا (بغیر زبان سے ایجاب وقبول کیےبیچی گئی چیزدینا اور قیمت وصول کرنا)بھی درست نہیں ہوتی اور اس کو ختم کرنا بھی فریقین کے ذمہ شرعاً لازم ہوتا ہے، البتہ فقہائے کرام رحمہم اللہ نے ایک اور اصول یہ ذکر کیا ہے کہ فاسد خریدوفروخت میں اگرخریدار اس چیزپر قبضہ کر کے کوئی ایسا تصرف کر لے کہ اس کے ساتھ کسی شخص کا حق متعلق ہو جائے جیسے تعمیر کرنا یا آگے بیچ دینا وغیرہ یا وہ چیز ہلاک یعنی ضائع ہو جائے تو ایسی صورت میں پہلی خریدوفروخت کو ختم کرنا شرعاً لازم نہیں رہتا۔
اور صورتِ مسئولہ میں چونکہ سوہارا نے چار پلاٹوں پر تعمیر کر لی ہے اس لیے ان چار پلاٹوں کو واپس کر کے خریدوفروخت کے معاملے کو ختم کرنافریقین کے ذمہ اب لازم نہیں، لہذا ان چار پلاٹوں میں خریدوفروخت کا معاملہ مکمل ہو گیا، البتہ شرعاً ناجائز خریدوفروخت کرنے کی وجہ سے فریقین پر اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کرنا لازم ہے۔اس کے علاوہ بقیہ چھ پلاٹوں میں خریدوفروخت کے معاملے کو ختم کر کے ان کی قیمت واپس کرنا فیض محمد کے ذمہ لازم ہے اور یہ قیمت اگرچہ پاکستانی کرنسی میں طے کی گئی تھی، مگر فاسد خریدوفروخت میں قبضہ سے پہلے ملکیت نہیں آتی، لہذا پاکستانی کرنسی پر قبضہ کرنے سے پہلے جب خریدار نے روپیہ کی جگہ ریال اور سونا دیا تو یہ ثمن یعنی قیمت میں قبضہ سے پہلے تصرف کرنا لازم آیا، اس لیے اس کا شرعاً اعتبار نہیں کیا جائے گا، لہذا اب وہی ریال اور سونا واپس کرنا ہو گا، جو فروخت کنندہ نے خریدار سے وصول کیا تھا۔ کیونکہ خریدفروخت کا معاملہ ناجائز ہونے کی وجہ سے وہ ریال اورسونا فروخت کنندہ کے ذمہ واجب الاداء ہو چکا تھا۔
حوالہ جات
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 152) الناشر: دار الكتب العلمية:
ولو تصرف الفضولي في العين قبل الإجازة ينظر إن تصرف فيه قبل القبض فتصرفه باطل؛ لأن الملك في العقد الفاسد يقف على القبض، وإن تصرف فيه بعد ما قبض بإذن المشتري صريحا أو دلالة يصح تصرفه؛ لأنه تصرف في ملك نفسه، وعليه مثله أو قيمته؛ لأن المقبوض بالبيع الفاسد مضمون به.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 156) دار الكتب العلمية،بيروت:
"(ومنها) أن يكون المبيع معلوماً وثمنه معلوماً علماً يمنع من المنازعة. فإن كان أحدهما مجهولاً جهالةً مفضيةً إلى المنازعة فسد البيع، وإن كان مجهولاً جهالةً لا تفضي إلى المنازعة لا يفسد؛ لأن الجهالة إذا كانت مفضيةً إلى المنازعة كانت مانعةً من التسليم والتسلم، فلايحصل.
مقصود البيع، وإذا لم تكن مفضيةً إلى المنازعة لا تمنع من ذلك؛ فيحصل المقصود وبيانه في مسائل: إذا قال: بعتك شاةً من هذا القطيع أو ثوباً من هذا العدل فالبيع فاسد؛ لأن الشاة من القطيع والثوب من العدل مجهول جهالةً مفضيةً إلى المنازعة لتفاحش التفاوت بين شاة وشاة، وثوب وثوب، فيوجب فساد البيع، فإن عين البائع شاةً أو ثوباً وسلمه إليه ورضي به جاز، ويكون ذلك ابتداء بيع بالمراضاة؛ ولأن البياعات للتوسل إلى استيفاء النفوس إلى انقضاء آجالها والتنازع يفضي إلى التفاني فيتناقض؛ ولأن الرضا شرط البيع والرضا لا يتعلق إلا بالمعلوم".
فقه البيوع للشيخ محمد تقي العثماني (369/1)مكتبة، معارف القراّن كراتشي:
والشرط السادس المتعلّق بالمبيع أن يكونَ متعيّناً معلومًا. وهذا شرط لصحة البيع، لا الانعقاده، فيفسد بيع المجهول جهالةً مفضية إلى المنازعة، لأنه داخل في بيع الغرر كما قدمناه في الشرط الخامس. فإن زالت الجهالة في المجلس، عاد البيع صحيحاً، والجهالة قد تكون في جنس المبيع، وقد تكون في تعيينه.
مجلة الأحكام العدلية (ص: 73) نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي:
(المادة 372) لكل من المتعاقدين فسخ البيع الفاسد إلا أنه إذا هلك المبيع في يد المشتري , أو استهلكه , أو أخرجه من يده ببيع صحيح , أو بهبة من آخر أو زاد فيه المشتري شيئا من ماله كما لو كان المبيع دارا فعمرها , أو أرضا فغرس فيها أشجارا , أو تغير اسم المبيع بأن كان حنطة فطحنها وجعلها دقيقا ; بطل حق الفسخ في هذه الصور.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 287) دار الكتب العلمية،بيروت:
الصفقة لا تتم إلا بقبض جميع المعقود عليه فكان رد البعض دون البعض تفريق الصفقة قبل التمام وأنه باطل.
البحر الرائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (5/ 281) دار الكتاب الإسلامي:
ومنها أن يكون المبيع معلوما والثمن معلوما علما يمنع من المنازعة فالمجهول جهالة مفضية إليها غير صحيح كشاة من هذا القطيع.
المبسوط للسرخسي (13/ 54) دار المعرفة – بيروت:
قال: وإذا اشترى عدلا على أنه زطي فيه خمسون ثوبا كل ثوب بكذا أو جماعته بكذا أو شرط الخيار لنفسه ثلاثة أيام فإن أراد أن يرد بعضه دون بعض لم يكن له ذلك؛ لأن خيار الشرط يمنع تمام الصفقة ألا ترى أن البدل الذي من جانب من له الخيار لا يخرج عن ملكه فهو برد البعض يفرق صفة مجتمعة على البائع قبل التمام فليس له ذلك كما لو قبل العقد في الابتداء في البعض دون البعض فكذلك ما اشتراه صفقة واحدة من المكيل والموزون والعروض والحيوان، وما يضره التبعيض وما لا يضره في ذلك سواء.
البحر الرائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (5/ 292) دار الكتاب الإسلامي،بيروت:
وقدمنا في الإيجاب والقبول أنهما بعد عقد فاسد لا ينعقد بهما البيع قبل متاركة الفاسد ففي بيع التعاطي بالأولى وهو صريح الخلاصة والبزازية أن التعاطي بعد عقد فاسد أو باطل لا ينعقد به البيع; لأنه بناء على السابق وهو محمول على ما ذكرناه.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (4/ 515) دار الفكر-بيروت:
وصرح في البحر بأن الإيجاب والقبول بعد عقد فاسد لا ينعقد بهما البيع قبل متاركة الفاسد ففي بيع التعاطي بالأولى، وعليه فيحمل ما في الخلاصة وغيرها على ذلك، وتمامه في الأشباه من الفوائد إذا بطل المتضمن بطل المتضمن والمبني على الفاسد فاسد.
قال ابن عابدين: (قوله: ففي بيع التعاطي بالأولى إلخ) مأخوذ من البحر حيث قال: ففي بيع التعاطي بالأولى، وهو صريح الخلاصة والبزازية إن التعاطي بعد عقد فاسد أو باطل لا ينعقد به البيع؛ لأنه بناء على السابق، وهو محمول على ما ذكرناه. اهـ. وقوله: على ما ذكرناه أي أن عدم الانعقاد قبل متاركة الأول، وهو معنى قول الشارح، فيحمل ما في الخلاصة وغيرها على ذلك ومراده بما في الخلاصة ما قدمه من قوله كما لو كان بعد عقد فاسد، ونقلنا عبارتها وعبارة البزازية، وليس فيها التقييد بما قبل متاركة الأول فقيده الشارح به تبعا للبحر لئلا يخالف كلام غيرها فافهم.
منحة الخالق على البحر الرائق (6/ 86) دار الكتاب الإسلامي،بيروت:
(قوله وأولوا تلك الرواية إلخ) هذا أيضا ينافي ما قدمه أول كتاب البيوع من التعاطي لا ينعقد بعد بيع باطل أو فاسد ما لم يفسخ العقد الأول.
محمد نعمان خالد
دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی
22/جمادی الاولیٰ 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |