85643 | زکوة کابیان | مستحقین زکوة کا بیان |
سوال
کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص یا عورت اپنی غریب بیٹی جو کہ مستحق زکاۃ ہو اس کو کئی سالوں سے زکاۃ ادا کرتی رہے اور پھر زکاۃ دینے والے کا انتقال ہوجائے تو کیا اس کی زکاۃ ادا ہوگئی ہے یا نہیں ؟اگر نہیں ہوئی تو کیا اب بیٹی پر اس رقم کی واپسی لازم ہوگی یا نہیں جبکہ وہ خود بھی مستحق زکاۃ ہے؟ اور اگر اس کی واپسی لازم ہے تو کیا وہ رقم زکاۃ دینے والے کے ترکہ میں شمار ہوگی یا اسے صدقہ کیا جائیگا ؟براہ کرم ان تینوں شقوں کے جوابات فقہائے کرام کی عبارات کے تحت عطاء فرمائیں،مہربانی ہوگی ،شکریہ۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
سگی بیٹی کو زکاۃ دینے سے زکاۃ ادا نہیں ہوتی۔ بیٹی کو اگر زکاۃ لیتے وقت معلوم تھا کہ یہ زکاۃ کی رقم ہے تو اسے نہیں لینی چاہیے تھی۔ اگر اس کے پاس بعینہ وہ رقم موجود ہے ابھی خرچ نہیں کی تو اسے چاہیے مرحومہ کے ورثہ میں وراثت کے اصول پر تقسیم کر دے اور اگر خرچ ہو چکے ہیں تو بیٹی پر اسےواپس کرنا یا صدقہ کرنا لازم نہیں۔
حوالہ جات
قال برھان الدین المرغیناني رحمه الله تعالى :ولا يدفع المزكي زكاته إلى أبيه وجده وإن علا ولا إلى ولده وولد ولده وإن سفل ؛ لأن منافع الأملاك بينهم متصلة فلا يتتحقق التمليك على الكمال. (الهداية : 1/ 111)
قال في الھندیۃ: ولا يدفع إلى أصله، وإن علا، وفرعه، وإن سفل كذا في الكافي. ( الفتاوى الهندية: 1/ 188)
قال ابن عابدین رحمه الله تعالى: [تنبيه] في القهستاني عن الزاهدي: ولا يسترد منه لو ظهر أنه عبد أو حربي وفي الهاشمي روايتان ولا يسترد في الولد والغني وهل يطيب له؟ فيه خلاف، وإذا لم يطب قيل يتصدق وقيل يرد على المعطي. (رد المحتار: 2/ 353)
قال عبداللہ الموصلي الخنفي رحمه الله تعالى :الملك الخبيث سبيله التصدق به، ولو صرفه في حاجة نفسه...إن كان غنيا تصدق بمثله، وإن كان فقيرا لا يتصدق.(الاختیار:61/3)
لا يحل لمن ليس من أهل الزكاة أخذها وهو يعلم أنها زكاة، إجماعا. فإن أخذها فلم تسترد منه فلا تطيب له، بل يردها أو يتصدق بها؛ لأنها عليه حرام. (الموسوعة الفقهية الكويتية: 23/ 333)
بعد تحقیق کے اگر غلبۂ ظن یہ ہو کہ یہ مصرف ہے، اور زکاۃ وغیرہ صدقات کا مستحق ہے، اور دے دیا تو زکاۃ ادا ہوجاتی ہے، اور زکاۃ دینے والے کا ذمہ بری ہوجاتا ہے، البتہ لینے والے کے لیے جائز نہیں،۔۔۔اس کو چاہیے کہ یا تو اس کو خیرات کر دے ،یا واپس کر دے۔(فتاوی ممودیہ: 375/3)
محمد اسماعیل بن نجیب الرحمان
دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی
۲۳جمادی الاولی ۱۴۴۶ ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد اسماعیل ولد نجیب الرحمان | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |