03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
فضائل رمضان

رمضان سے متعلق آیات قرآنیہ

رمضان میں قرآن اُتارا گیا:

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی أُنْزِلَ فِیہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِنَ الْہُدَی وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ وَمَنْ کَانَ مَرِیضًا أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِنْ أَیَّامٍ أُخَرَ۔۔۔الآیۃ (البقرۃ: 185)

ترجمہ: رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے سراپا ہدایت، اور ایسی روشن نشانیوں کا حامل ہے جو صحیح راستہ دِکھاتی اور حق و باطل کے درمیان دو ٹوک فیصلہ کردیتی ہیں، لہٰذا تم میں سے جو شخص بھی یہ مہینہ پائے، وہ اس میں ضرور روزہ رکھے۔ اور اگر کوئی شخص بیمار ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کرلے۔

رمضان کے روزے فرض ہیں:

یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ  کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ (البقرۃ:183)

ترجمہ:اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کردیے گئے ہیں، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تمھارے اندر تقوی پیدا ہو۔

روزہ سے متعلق احادیث

روزہ دار کے مُنہ کی بو مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے:

عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم: کل عمل ابن آدم یضاعف،الحسنۃ عشرۃ أمثالہا إلی سبعمائۃ ضعف، قال اللہ عز و جل: إلا الصوم، فإنہ لی وأنا أجزی بہ، یدع شہوتہ وطعامہ من أجلی، للصائم فرحتان فرحۃ عند فطرہ، وفرحۃ عند لقاء ربہ، ولخلوف فمہ أطیب عند اللہ من ریح المسک۔ [صحیح مسلم  (ج 2 ؍ ص 806)]  (سنن ابن ماجہ، سنن نسائی،  صیحح بخاری، سنن ترمذی)

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ ابن آدم کے ہر نیک عمل کا اجروثواب دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’روزہ اس سے مستثنیٰ ہے، اس لیے کہ وہ خاص میرے لیے ہے اور میں خود (اپنے شایان شان) اس کا بدلہ دوں گا کہ روزہ دار میری ہی خاطر نفسانی خواہشات اور کھانے پینے کو قربان کرتا ہے۔روزہ دار کے لیے دو فرحتیں ہیں، ایک فرحت افطار کے وقت ملتی ہے اور دُوسری فرحت اپنے رب سے ملاقات کے وقت نصیب ہوگی اور روزہ دار کے مُنہ کی بدبو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ اورپسندیدہ ہے۔‘‘

روزہ گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہے:

عن أبی ھریرۃر ضی اللہ تعالیٰ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من صام رمضان إیمانا واحتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ۔            [صحیح البخاری (ج 1 ؍ ص 16)]

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے حالت ایمان میں ثواب کی نیت سے رمضان کا روزہ رکھا، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔

مسند احمد کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ اگلے گناہ بھی معاف کر دئیے جائیں گے۔ (مسند احمد : ج ۲ ص ۵۸۳)

رمضان میں شیاطین قید ہوجاتے ہیں:

عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :إذا کان أول لیلۃ من شہر رمضان صفدت الشیاطین ومردۃ الجن، وغلقت أبواب النار فلم یفتح منہا باب، وفتحت أبواب الجنۃ فلم یغلق منہا باب ۔[ سنن الترمذی (ج 3 ؍ ص 26)]

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ماہِ رمضان شروع ہوتے ہی شیاطین اور سرکش جنات کو قید کر لیا جاتا ہے اورجہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں یہاں تک کہ ان کوئی دروازہ نہیں کھولا جاتا اور   جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں یہاں تک کہ ان میں سے کوئی بند نہیں کیا جاتا ۔

روزہ دار کے لیے جنت کا مخصوص دروازہ:

عن سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ و سلم  قال: إن فی الجنۃ لبابا یدعی الریان یدعی لہ الصائمون فمن کان من الصائمین دخلہ ومن دخلہ لم یظمأ أبد اً۔

ترجمہ:  حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ جنت میں ایک دروازہ ہے جسے’’ باب الرّیّان ‘‘ کہا جاتا ہے، روزہ داروں کو اس طرف بلایا جائے گا (کہ اس دروازہ سے جنت میں داخل ہوں) چنانچہ تمام روزہ دار اس سے داخل ہوں گے اور جو اس سے داخل ہوگیا، اسے کبھی پیاس نہ لگے گی۔     (سنن الترمذی   (ج 3 ؍ ص 137)

سحری کھا نے میں برکت :

          عن أنس بن مالك رضی اللہ عنہ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ’’ تسحروا: فإن في السحور بركة ‘‘(سنن ابن ماجہ : با ب ما جا ء فی السحو ر،ج۱ص۵۴۰)

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:سحری کیا کرو ، کیو نکہ سحری کر نے میں برکت ہے ۔

روزہ توڑنے پر وعید:

 ویذکر عن أبی ھریرۃ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ رفعہ من أفطر یوما من رمضان من غیر عذر ولا مرض لم یقضہ صیام الدہر وإن صامہ وبہ قال ابن مسعود۔۔۔ (صحیح البخاری (ج 3 ؍ ص 32)

 ترجمہ: حضرت ابوہریرہ سے مرفوعا مروی ہے کہ جو شخص (قصداً) بلا کسی شرعی عذر (مرض یا سفر وغیرہ)کے ایک دن بھی رمضان کا روزہ افطار کردے، غیر رمضان میں چاہے عُمر بھر روزے رکھے اس کا بدل نہیں ہوسکتے۔

یہ فضائل کیسے حاصل ہوں گے؟

1:۔روزہ کے جتنے فضائل سطورِبالا میں بیان کیے گئے ہیں، ان کے حصول کی لازمی شرط یہ ہے کہ روزہ ہر قسم کے منکرات و معاصی اور بدعات سے اجتناب کے ساتھ رکھا جائے، زبان، کان، ہاتھ، پائوں، آنکھ، ناک اور قلب و دماغ اطاعت سے معمور اور معصیت سے مجتنب ہوں۔ کسب ِمعاش، معاملات، معاشرت غرض حقوق اللہ و حقوق العباد کے ہر شعبے میں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی سے بچنے بچانے کی کوشش ہو۔

روزہ وہ عظیم الشان عبادت ہے کہ قرآن کریم نے اسے تقویٰ یعنی ترکِ معاصی کا نسخہ قرار دیا ہے، مگر کتنے مسلمان ہیں جو پچاس پچاس، ساٹھ ساٹھ سال سے رمضان کے روزے رکھ رہے ہیں، لیکن ان کی زندگی میں کوئی نمایاں تبدیلی نظر نہیں آتی، جو گناہ ان کی زندگی میں تھے، وہ سالوں روزے رکھنے کے باوجود جوں کے توں ہیں، اس کی وجہ سوائے اس کے کچھ نہیں کہ آج کل کے مُسلمان روزے سے گناہ چھوڑنے کا قصدو نیت ہی نہیں کرتے اور گناہوں سے اجتناب کے اہتمام کے ساتھ روزہ رکھتے ہی نہیں، جو باطنی امراض سے حصولِ شفاء کے لیے شرط لازم ہے۔ ایسے لوگوں کا روزہ گو جمہور علماء کی رأی کے مطابق ذمّہ سے سقوطِ فرض کا ذریعہ بن جائے گا مگر اس سے کوئی فضیلت اور ثواب حاصل نہیں ہوگا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

٭ عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :من لم یدع قول الزور والعمل بہ فلیس للہ حاجۃ فی أن یدع طعامہ وشرابہ۔(صحیح البخاری (ج 3 ؍ ص 26)

ترجمہ:’’ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص روزہ رکھ کر بھی جھوٹے کردار و گفتار سے باز نہ آیا تو اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے سے کوئی غرض نہیں۔‘‘ 

٭عن أبی ہریرۃرضی اللہ تعالیٰ عنہ ، قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم " رب صائم لیس لہ من صیامہ إلا الجوع .ورب قائم لیس لہ من قیامہ إلا السہر "۔     (سنن ابن ماجۃ  (ج 2 ؍ ص 39)

ترجمہ:’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جن کے روزہ کا ثمرہ بھوکا رہنے کے سوااور کچھ نہیں اور بہت سے شب بیدار ایسے ہیں جن کے لیے شب بیداری کا بدلہ سوائے جاگنے کے اور کچھ نہیں۔‘‘ 

اعمال صالحہ سے صرف صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں :

2:۔ دورِ حاضرمیں عموماً فضائل کے بیان پر خوب زور دیا جاتا ہے اور فضائل کے حصول کے موانع اور وعیدوں کا ذکر بہت کم ہوتا ہے، جس سے عوام کا نظریہ بن جاتا ہے کہ خوب گناہ کیے جائو، روزوں سے، لیلۃ القدر سے یا فلاں عملِ صالح سے سب اگلے پچھلے گناہ معاف ہوجائیں گے۔ اس بارے میںیہ حقیقت اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ جن روایات میں رمضان کے روزوں، شب قدر کی عبادت یا کسی بھی عملِ صالح سے گناہوں کی معافی کا ذکر ہے، علماء کے نزدیک اس سے مراد صغیرہ گناہوں کی معافی ہے۔ ٹی وی، وی سی آرکے ذریعے نا جا ئز چیزیں دیکھنا یا سننا، گانا بجانا، بلاضرورت جاندار کی تصویر بنانا یا گھر میں رکھنا، غیبت کرنا یا سننا،ڈاڑھی منڈانا یا کٹوا کر ایک مشت سے کم کرنا ، عورتوں کا شرعی پردہ نہ کرنا، مردوں کا ٹخنے ڈھانکنا، سودی بینکوں، سود اور جوے جیسے عقود کے تحت انشورنس کرنے والی مروجہ ا نشورنس کمپنیوں یا کسی بھی حرام ذریعہ سے کمائی کرنا اور ایسے لوگوں کی دعوتیں اور ہدیے قبول کرنا، بدعات اور قبیح رسوم کی پابندی، ناجائز طریقے سے خریدوفروخت، حقوق العباد اور فرائض و واجبات اداء کرنے میں کوتاہی جیسے کبیرہ گناہوں سے جب تک صدقِ دل سے توبہ و استغفار اور آیندہ اجتناب کا عزم مصمم نہ کیا جائے، وہ محض کسی عمل صالح سے معاف نہیں ہوتے۔

اس بناء پر ہرمُسلمان پر لازم ہے کہ ماہِ مقدس کے آغاز ہی سے ہر قسم کے گناہوں سے کلیۃً احتراز کرے اور جن گناہوں کی عادت پختہ ہوگئی ہے، ان کو ہمیشہ کے لیے چھوڑنے کی نیت کے استحضار کے ساتھ روزے رکھے، اگر اس اہتمام کے ساتھ رمضان کے مبارک مہینے کا مختصر سا وقت گذارا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ نفس کی اصلاح نہ ہو اور دُنیا و آخرت کو تباہ کرنے والے مہلک امراض اور معاصی سے نجات نہ ملے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا بیان کردہ نسخہ کبھی غلط نہیں ہوسکتا۔

روزے کی فرضیت کب ہوئی ؟

          صوم رمضان کی فرضیت ہجرت کےدوسرے سال ہو ئی ، اس سے پہلے آپ ﷺ اور صحابہ کرام ؓ عاشوراء اور ایام بیض کے روزے رکھتے تھے ۔ (البدایۃ والنھا یۃ : ۳؍۲۵۴و ۳۴۷  )

 روزہ کی حقیقت:

 

روز ہ کی حقیقت مخصوص شرائط کی رعایت کے ساتھ صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اور بیوی کے پاس جانے سے رکے رہنا ہے۔

في البدائع: ’’ وأما الشرعی: فہو الإمساک عن أشیاء مخصوصۃ، وہي الأکل والشرب والجماع بشرائط مخصوصۃ۔‘‘ (۲/۷۵)

نفس فرضیت:

روزہ ارکان اسلام میں سے ایک بنیادی رکن ہے، جس کی فرضیت قرآن و سنت، اجماع امت اور عقل و درایت سے ثابت ہے اور اس کا منکر کافر ہے۔ نفس فرضیت کی تین شرائط ہیں:

1مسلمان ہونا۔    2 عاقل ہونا۔      3بالغ ہونا۔

’’ أما الشرائط العامۃ، فبعضہا یرجع إلی الصائم، وہو شرط أہلیۃ الأداء۔‘‘ (بدائع: ۲/۷۷)

چنانچہ ہر عاقل بالغ مسلمان پر روزہ فرض ہے۔

وجوب ِاداء:

رمضان ہی میں ادائیگی کے فرض ہونے کے لیے تین شرطیں ہیں:

1تندرست ہونا۔  2 مقیم ہونا۔       3حیض و نفاس سے پاک ہونا۔

’’
وشرط وجوب الأداء الصحۃ والإقامۃ۔‘‘ (ھندیۃ: ۱/۱۹۵)
’’ وہی (شرط وجوب أدائہ) ثلاثۃ: الصحۃ والإقامۃ والخلو من حیض ونفاس۔‘‘ (ردالمحتار: ۲/۳۷۲)

لہٰذا مریض اور مسافر چاہیں تو رمضان میں اداء کرنے کی بجائے بعد میںقضاء بھی رکھ سکتے ہیں۔

صحت ِاداء:

صحت روزہ کے لیے دو شرطیں ہیں:

1 :۔حیض و نفاس سے پاک ہونا۔یہ شرطِ صحت بھی ہے اور شرطِ وجوبِ اداء بھی ہے۔

’’ھو لغۃ: إمساک مطلقا، وشرعا: إمساک عن المفطرات الآتیۃ حقیقۃ أو حکما…، في وقت مخصوص، وہو الیوم من شخص مخصوص مسلم کائن في دارنا أو عالم بالوجوب طاہر عن حیض أو نفاس مع النیۃ۔‘‘(الدرالمختار: ۲/۳۷۱)

2 :۔نیت کرنا۔

مفتی محمد

رئیس دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی