خطاء ًیا بھو ل کرکوئی چیز کھاپی لی یا زبردستی کھلادی گئی:
1:۔روزہ یاد تھا، مگر کلی کرتے ہوئے یا ناک میں پانی چڑھاتے ہوئے بے اختیار کچھ پانی حلق سے اُتر جائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
2:۔نیند میں کسی نے پانی منہ میں ڈال دیا اور پی گیا تو روزہ ٹوٹ گیا۔
3:۔کھانے پینے یا جماع پر مجبورکیا گیا یعنی روزہ نہ توڑنے کی صورت میں جان سے مار دینے یا کسی عضو کے تلف کر دینے یا کسی بڑے صدمے سے دو چار کرنے کی دھمکی دی گئی اور اس نے یہ کام کر لیے تو روزہ جاتا رہا۔
4:۔بھول کر کھاپی لیایا جماع کرلیا یا احتلام ہوگیا یا نظر شہوت سے دیکھا اور انزال ہوگیا تو روزہ نہیں ٹو ٹا۔
5 :۔تھوڑی سی قے ہوئی تو روزہ نہیں ٹوٹا۔
لیکن اگرنمبر ۴اور ۵ میں بیان کردہ صورتوں میں اس نے یہ گمان کر کے کہ میرا روزہ ٹوٹ گیا قصداً کھاپی لیا یا جماع کرلیا توروزہ ٹوٹ گیا۔
مندرجہ بالا تمام صورتوں میں صرف ایک روزہ قضا ء رکھنا فرض ہے،کفارہ لازم نہیں۔ (رد المحتار: ۲/۴۰۱)
قے کی صرف دو صورتیں مفسد ِصوم ہیں:
قے کی بہت ساری صورتیں ہیں، ان میں سے صرف دو صورتوں میں روزہ ٹوٹتا ہے: ایک یہ کہ قصداً منہ بھر کر قے کی، خواہ باہر پھینک دے یا منہ میں لوٹا لے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ بے اختیار منہ بھر کر قے آئی اور اس نے قصداً منہ میں لوٹا لی اگر چہ چنے کے برابر ہی لوٹائی ہو، ان دونوں صورتوں میں روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور صرف قضاء واجب ہو جاتی ہے، بشرطیکہ قے کرتے وقت روزہ یاد ہو اور قے میں بھی کھانا یا پانی یا صفراء یا خون آئے، بلغم نکلنے سے کسی صورت میں روزہ نہیں جاتا۔
ان دو صورتوں کے سوا قے کی جتنی صورتیں ہیں کسی میں روزہ نہیں ٹوٹتا، مثلاً قصداً قے کی اور منہ بھر کر نہ آئی یا بے اختیار آئی مگر منہ بھر سے کم تھی یا منہ بھر تھی مگر لوٹائی نہیں، خواہ وہ باہر نکل آئی یا بے اختیار لوٹ گئی یا لوٹالی مگر چنے کی مقدار سے بھی کم یا قصداً منہ بھر قے کی یا بلا قصد منہ بھر آئی اور لوٹالی لیکن روزہ دار ہونا یاد نہ تھا تو ان تمام صورتوں میں روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ (درمختار: ۲/۴۱۴)
اگر ایک مجلس میں قصداً بار بار قے کی جس کا مجموعہ منہ بھر کی مقدار کوپہنچ گیا تو روزہ ٹوٹ گیا اور مجموعی مقدار اس سے کم ہو یا کئی مجالس میں اتنی قے کی تو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ (فتح القدیر: ۲/۲۶۰)
ان چیزوں سے روزہ نہیں ٹوٹتا
1 :۔بھول کر کھاپی لینا:
بھول کر کھانے پینے یا جماع کرنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، خواہ فرض و واجب روزہ ہو یا نفل، مگر کسی کو یاد دلایا گیا کہ تو روزہ دار ہے، پھر بھی اسے یاد نہ آیا اور کھاتا پیتا رہا تو روزہ ٹوٹ جائے گا اور اس صورت میں صرف قضاء ہے، کفارہ نہیں۔
باقی رہا یہ مسئلہ کہ کسی کو کھاتے پیتے دیکھ کر روزہ یاد دلانا ضروری ہے یا نہیں؟ تو اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر وہ روزہ دار اس قدر کمزور اور لاغر ہے کہ یاد دلانے پر کھانا تو چھوڑ دے گا مگر کمزوری بڑھ جائے گی اورروزہ پورا کرنا بھی دشوار ہوگا تو یاد نہ دلانا بہتر ہے اور قوی ہو تو یاد دلانا واجب ہے۔ (درمختار: ۲/۳۹۴ ۔ ۴۰۰ ، ومثلہ في فتح القدیر: ۲/۲۵۴)
2 :۔خوشبو اور دھواں:
کسی قسم کی خوشبو خواہ وہ کتنی ہی تیز ہو، سونگھنے سے روزہ نہیں جاتا، اسی طرح گرد و غبار، مکھی یا کسی قسم کا دھواں بے اختیار حلق میں اتر جائے تب بھی روزہ نہیں ٹوٹتا، گوکہ روزہ یاد ہو۔ ہاں! اگر اپنے قصد و اختیار سے دھواں پہنچایا تو روزہ ٹوٹ جائیگا، مثلاً از خود جلتی سگریٹ، لوبان، اگربتی وغیرہ کے قریب آکر ان کا دھواں لیتا رہا تو روزہ ٹوٹ گیا۔ (حوالۂ بالا)
3:۔سرمہ اور تیل وغیرہ:
روزہ میں سرمہ (یا آنکھ کی کوئی دوا)ڈالنا اور ڈاڑھی مونچھوں پر تیل لگانا بھی بلا کراہت جائز ہے، اگرچہ ان کا مزہ حلق میں محسوس ہو یا تھوک میں سرمہ کا رنگ بھی دکھائی دے، جبکہ یہ چیزیں ضرورت کے تحت استعمال کی جائیں اور مقصد زینت وزیبائش نہ ہو، ورنہ ان کا استعمال مکروہ ہوگا۔ اسی طرح پچھنے لگوانے میں بھی کراہت نہیں بشرطیکہ کمزوری لاحق ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔ (حوالۂ بالا)
4 :۔مسواک:
مسواک جیسے بغیر روزہ کے ہر وضو میں سنت ہے، یونہی روزہ میں بھی سنت ہے، خواہ صبح استعمال کی جائے یا شام کو اور خواہ تر ہو یا خشک اور مسواک کرتے ہوئے اس کا کوئی ریشہ بے اختیار حلق میں چلا جائے تو اس سے روزہ نہ ٹوٹے گا۔ (ردالمحتار: ۲/۴۱۹)
5 :۔ٹھنڈک حاصل کرنے کے لئے غسل یا کلی وغیرہ کرنا :
اسی طرح وضو کی ضرورت کے بغیر ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے کلی کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، غسل کرنا، گیلا کپڑا بدن پر لپیٹنا بلا کراہت جائز ہے، جبکہ مقصد صرف ٹھنڈک حاصل کرنا ہو، بے صبری اور پریشانی ظاہر کرنے کے لیے یہ کام مکروہ ہیں۔(درمختار: ۲/۴۱۹ ، ومثلہ في مراقي الفلاح مع الطحطاوي: صـ ۳۷۲)
6:۔ان تمام صورتوں میں روزہ نہیں ٹوٹے گا:
٭کوئی دوا کوٹی اور اس کا مزہ حلق میں محسوس ہوا۔
٭ ہلیلہ یا اور کوئی چیز منہ میں چوستا رہا مگر اس کا کوئی جزء حلق میں نہیں اترا۔
٭کان میں پانی پڑگیا یا خود ڈالا یا تنکا لے کر کان کھجایا اور اسے میل لگ گئی اور اسی میل سمیت دوبارہ بار بار کان میں ڈالا۔
٭ دانتوں کے درمیان چنے سے کم مقدار کی کوئی چیز پھنسی رہ گئی اسے نگل گیا۔
٭ دانتوں سے خون نکل کر حلق تک پہنچا اور پیٹ تک نہ پہنچا، یا پیٹ میں پہنچ گیا مگر تھوک اس پر غالب تھا۔
٭ ناک کی رطوبت سڑک کر حلق میں لے گیا اور وہ پیٹ میں اتر گئی یا منہ کی رال اور بلغم اسی طرح نگل گیا، خواہ یہ چیزیں اندر ہی اندر نگل لیں یا ناک اور منہ سے باہر نکل کر بہنے لگیں لیکن دھار ٹوٹنے نہ پائی تھی کہ نگل لیں۔
٭گفتگو کرتے ہوئے ہونٹ لعاب سے تر ہوگئے اور اسے زبان سے چاٹ کرنگل لیا۔
٭تل یا اس جیسی خفیف سی چیز منہ میں ڈال کر چبائی اور وہ حلق میں اتر گئی مگر اس کا مزہ محسوس نہ ہوا۔
ان تمام صورتوں میں روزہ نہیں ٹوٹا۔ (الدر المختار: ۲/۳۹۶)
صبح صادق سے پہلے پان کھا کر منہ اچھی طرح صاف کرلیا، مگر صبح ہونے کے بعد بھی پان کی سرخی تھوک میں دکھائی دیتی ہے تو تھوک نگلنے سے روزہ نہ ٹوٹے گا۔الدرالمختار (۲/۳۹۶)
7 :۔انجکشن:
انجکشن لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، اس لیے کہ انجکشن کے ذریعہ دوا جوف عروق میں پہنچائی جاتی ہے اور خون کے ساتھ شرایین یا وریدوں (موٹی اور باریک رگوں)میںسرایت کرتی ہے، جوف ِدماغ یا جوف ِبطن میں دوا نہیں پہنچتی، اگر پہنچتی بھی ہے تو وریدوں اور مسامات کے ذریعہ پہنچتی ہے اور فساد صوم کے لیے مفطر(روزہ توڑنے والی چیز) کا جوف دماغ یا جوف بطن میں( معروف راستے جیسے حلق کھانے کی نالی) منفذ اصلی کے ذریعےپہنچنا ضروری ہے، مطلقاً کسی عضو کے جوف میں یا عروق (رگوں) کے جوف میں پہنچنا مفسد صوم نہیں، لہٰذا انجکشن کے ذریعے سے جو دوا بدن میں پہنچائی جاتی ہے مفسدِصوم نہیں۔ (امداد الفتاویٰ:۲/۱۴۵، امداد المفتین:ص ۴۸۹)
مفتی محمد
رئیس دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی