- نہ روزہ پر قدرت ہو نہ آیندہ اُمید:
- جس کو اتنا بڑھاپا ہوگیا ہو کہ روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رہی یا اتنا بیمار ہے کہ نہ روزہ رکھنے کی طاقت ہے، نہ آیندہ اتنی صحت ہونے کی امید ہے کہ روزہ رکھ سکے تو وہ روزہ نہ رکھے اور ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو صدقہ فطر کے برابر غلہ دے دے یا صبح و شام پیٹ بھر کے اس کو کھلادے، اس کو فدیہ کہتے ہیں۔ اگر غلہ کے بدلے میں اسی قدر غلہ کی قیمت دے دے تب بھی درست ہے۔
- پھر اگر کبھی طاقت آگئی یا بیماری سے صحت یاب ہوگیا تو سب روزے قضا رکھنے پڑیں گے اور جو فدیہ دیا ہے اس کا ثواب الگ ملے گا۔
في الدر: ’’ فإن عجز عن الصوم لمرض لا یرجی برء ہ أو کبر، أطعم۔‘‘ وفي الحاشیۃ: ’’ فلو بریٔ وجب الصوم، رحمتی۔‘‘ (رد المحتارمع الدر: ۳/۴۷۸)
میت نے فدیہ کی وصیت کی ہو:
جس کے ذمہ کئی روزے قضاء تھے وہ مرتے وقت وصیت کرگیا کہ میرے روزوں کے بدلے فدیہ دے دینا تو اس کے مال سے اس کا ولی فدیہ دے دے اور کفن، دفن، قرض اداء کر کے جتنا مال بچے اس کی ایک تہائی سے اگر سارا فدیہ اداء کرنا ممکن ہو تو دینا واجب ہوگا اور اگر سارا فدیہ تہائی مال سے اداء نہ ہوسکتا ہو تو جس قدر اداء ہوسکتا ہو دے دیا جائے۔ اس سے زائد دینا لازم نہیں، مگر بالغ ورثہ اگر اپنے حصہ سے پورا فدیہ بخوشی دے دیں تو اچھی بات ہے۔ اس صورت میں یعنی جب تہا ئی مال سے فدیہ پورا نہ ہو رہاہو ،تہائی مال نکال کر بقیہ مال سے نابالغ کی میراث کا پورا حصہ اس کے لیے محفوظ رکھنا ضروری ہے، اس کا مال فدیہ میں خرچ کرنا جائز نہیں، اگرچہ وہ اجازات دے رہا ہو۔
’’ولو فات صوم رمضان بعذر المرض أو السفر، أو استدام المرض والسفر، حتی مات، لا قضاء علیہ، لکنہ إن أوصٰی بأن یطعم عنہ صحت وصیتہ وان لم تجب علیہ ویطعم عنہ من ثلث مالہ… فإن بریٔ المریض… وأدرک من الوقت بقدر مافاتہ فیلزمہ قضاء جمیع ما أدرک، فإن لم یصم حتی أدرکہ الموت، فعلیہ أن یوصي بالفدیۃ۔‘‘(ھندیۃ: ۱/۲۰۷)
فدیہ کی وصیت نہ کی ہو:
اگر اس نے وصیت نہیں کی مگر ولی نے اپنے مال سے فدیہ دے دیا تب بھی اﷲ تعالیٰ سے امید رکھے کہ شاید قبول کرے اور ان روزوں کا مواخذہ نہ کرے۔
بغیر وصیت کیے خود میت کے مال میں سے فدیہ دینا جائز نہیں۔ ہاں! سب بالغ وارث نہایت خوش دلی سے راضی ہو جائیں تو میت کے مال سے فدیہ دینا بھی درست ہے، لیکن نا بالغ وارث کی رضا کا شرع میں کچھ اعتبار نہیں، بالغ وارث اپنا حصہ جدا کر کے اس میں سے دیں۔
في الشامیۃ: ’’أما إذا لم یوص بفدیۃ الصوم، یجوز أن یتبرع عنہ ولیہ…، فإن زادت الوصیۃ علی الثلث، لا یلزم الولی إخراج الزائد إلا بإجازۃ الورثۃ۔‘‘(۲/۷۲ ۔ ۷۳)
وفي الھندیۃ: ’’ فإن لم یوص، وتبرع عنہ الورثۃ جاز، ولا یلزمہم من غیر إیصاء۔‘‘ (۱/۲۰۷)
اگر فدیہ نہ دے سکتا ہو:
اگر کوئی شخص روزہ رکھ سکتا ہو نہ آیندہ امید ہو اور مسکین ہونے کی وجہ سے فدیہ بھی ادا نہ کرسکتا ہو تو وہ یہ نیت رکھے کہ آیندہ جب بھی روزہ رکھنے کی استطاعت ہوگی توروزہ رکھوں گا ورنہ مالی استطاعت حاصل ہوگی تو فدیہ ادا کروں گا، دعاء بھی کرتا رہے۔
فدیہ کی مقدار:
اگر کوئی بیماری کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکاتو صحت کے بعد روزہ قضاء رکھنا فرض ہے، البتہ اگر صحت کی کوئی امید نہیں رہی اور آخر دم تک روزہ رکھنے کی طاقت لوٹنے سے بالکل مایوسی ہے، چھوٹے اور ٹھنڈے ایام میں بھی روزہ رکھنے کی طاقت نہیں تو ایک روزہ کے عوض نصف صاع گندم یا ایک صاع جَو یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع کشمش یا تینوں میں سے کسی کی بھی مقدارِ مذکور کی قیمت کسی مسکین کو دیدے۔
في الھندیۃ: ’’ویطعم عنہ ولیہ لکل یوم نصف صاع من بر أوصاعا من تمر أوصاعا من شعیر۔ کذا في الہدایۃ۔‘‘(۱/۲۰۷)
نصف صاع کی مقدار:
گندم کا نصف صاع بعض علماء کے قول کے مطابق پونے دو کلو کا ہوتا ہے، جبکہ بعض علماء… جن میں ہمارے استاذ حضرت مفتی رشید احمد صاحبؒ بھی شامل ہیں… کی تحقیق کے مطابق ۲۴۹ ء۲یعنی تقریباً سوا دو کلو کا ہوتا ہے۔ حضرت والاؒ نے اپنی تحقیق مفصل و مدلل رسالہ ’’بسط الباع لتحقیق الصاع‘‘ مندرجہ احسن الفتاویٰ جلد۴ میں تحریر فرمائی ہے۔ احتیاط اسی میں ہے کہ سوا دو کلو گندم یا اس کی قیمت اداء کی جائے، کیونکہ اس میں فدیہ کی ادائیگی یقینی ہے۔ عبادات میں احتیاط ہی پرعمل کرنا چاہیے۔
فدیہ و کفارہ کافر کو دینا جائز نہیں:
فدیہ اور کفارہ کا کھانا کافرحربی (جو کسی غیر مسلم ملک میں رہتا ہو) کو دینا بالاتفاق جائز نہیں اور ذمی (جو کسی مسلم ملک میں رہتا ہو) کو دینے میں اختلاف ہے،عدم جواز راجح ہے۔ البتہ اگر کسی نے دے دیا توفدیہ اور کفارہ اداء ہو جائے گا۔
في الشامیۃ: ’’ وفي الحاوي: وإن أطعم فقراء أہل الذمۃ جاز، وقال أبو یوسف لا یجوز وبہ نأخذ۔ قلت: بل صرح في کافی الحاکم بأنہ لا یجوز، ولم یذکر فیہ خلافا، وبہ علم أنہ ظاہر الروایۃ عن الکل۔‘‘ (۳/۲۷۹)
گذشتہ سالوں کے فدیہ میں وقت ِاداء کی قیمت معتبر ہے:
اگر کسی کے چالیس سال قبل روزے قضاء ہوگئے، اب بوجہ ضعف قضاء رکھنے سے معذوری ہے، تو کیا فدیہ میں گندم کی قیمت چالیس سال قبل کی لگائی جائے گی جب روزے قضاء ہوئے تھے، یا آج کا نرخ لگایا جائے گا جب فدیہ ادا کررہا ہے؟ اسی طرح اگر اقساط میں فدیہ اداء کیا جائے تو جس روز فدیہ ادا کرنے کا ارادہ کیا اس روز جو نرخ ہے وہ محسوب ہوگا، یا بوقت اداء جو نرخ ہوگا وہ واجب الاداء ہوگا؟ اس بارے میں عموماً لوگ سوال کرتے ہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ فدیہ میں اصل واجب خود گندم یا دوسرا اناج ہے جس کی مقدار تو متعین ہے، جس میں زمانہ گزرنے سے کوئی کمی بیشی نہیں ہوتی، قیمت اس کے قائم مقام ہے، اس لیے اگر قیمت دینا چاہے تو بہر صورت وقت اداء کے نرخ کا اعتبار ہے۔
في الدر: ’’ وجاز دفع القیمۃ في زکاۃ وعشر … وکفارۃ غیر الإعتاق، وتعتبر القیمۃ یوم الوجوب، وقالا: یوم الأداء، وفي السوائم یوم الأداء إجماعا وہو الأصح۔ وفي الشامیۃ تحتہ (قولہ وہو الاصح) أي کون المعتبر في السوائم یوم الأداء إجماعا ہو الأصح، فإنہ ذکر في البدائع: أنہ قیل: إن المعتبر عندہ فیہا یوم الوجوب، وقیل یوم الأداء اھـ، وفي المحیط: یعتبر یوم الأداء بالإجماع، وہو الأصح اھـ فہو تصحیح للقول الثاني الموافق لقولہما، وعلیہ فاعتبار یوم الأداء یکون متفقاً علیہ عندہ وعندہما۔ (درمختار: ۲/۲۵۸)
فدیہ رمضان سے قبل دینا جائز نہیں:
رمضان سے قبل اداء کرنے سے فدیہ اداء نہ ہوگا، البتہ رمضان شروع ہونے کے بعد آیندہ ایام کا فدیہ ایک ساتھ دے سکتے ہیں۔ (أحسن الفتاویٰ: ۴/۴۳۵)
مفتی محمد
رئیس دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی