روزہ پر قدرت ہو تو کھانا کھلانے سے کفارہ اداء نہ ہوگا:
سوال: مسئلہ یہ ہے کہ آج سے ۳ سال پہلے میں نے ایک گناہ کرکے رمضان کا روزہ توڑ دیا تھا،جس کا کفارہ ابھی تک اداء نہیں کیا۔ موت کا کوئی بھروسہ نہیں، اس لیے میں روزہ کا کفارہ دینا چاہتا ہوں،لیکن بات یہ ہے کہ میں شادی شدہ بھی ہوں اور بہت سخت مزدوری کرتا ہوں، جس کی وجہ سے ۲ ماہ کے روزے رکھنا بہت مشکل ہے۔ باقی رہا مسئلہ ۶۰ مسکینوں کو دو وقت کھانا کھلانے یا ایک مسکین کو دو ماہ دو وقت کا کھانا کھلانے کا تو اب میں مسکین کہاں سے ڈھونڈوں۔ مجھ کو تو اپنی مزدوری سے فرصت نہیں۔ مہربانی فرماکر مجھ کو کچھ اچھا سا مشورہ عنایت فرمائیں۔ اگر ایسا ہوجائے کہ آپ دو وقت کے کھانے کی کُل رقم جو۶۰ مسکینوں کی بنتی ہے مجھے بتادیں تو میں مدارس کے طالب علموں کو خود بانٹ دوں گا یا مجاہدین کے دفتر میں جمع کرادوں گا۔ (ن۔ب۔خوشاب)
جواب:ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے سے آپ کا کفارہ اداء نہیں ہوگا، ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے سے تو اس شخص کا کفارہ ادا ہوتا ہے، جو بہت بوڑھا ہو، روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو اور موت سے پہلے اس کی طاقت واپس آنے کی اُمید بھی نہ ہو، یا ایسا بیمار ہو کہ نہ فی الحال روزہ رکھنے پر قادر ہو اور نہ آیندہ کے لیے اس کی صحت کی اُمید ہو۔ آپ تو ماشاء اﷲ صحت مند ہیں، آپ کوقمری مہینے کی پہلی تاریخ سے شروع کرنے کی صورت میں دو ماہ اور پہلی تاریخ کے بعد شروع کریں تو ساٹھ دن روزے رکھنے ہوں گے اور ایک دن قضا روزہ بھی۔
چھوٹے اور ٹھنڈے دنوں میں رکھنے کی کوشش کریں، آخرت کا عذاب یاد کریں، روزہ رکھنا آسان ہوجائے گا۔ رات میں بیوی سے ہمبستری کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
فی الھندیۃ: ’’ والأصل فیہ: أن کل صوم إذا کان أصلا بنفسہٖ … جاز الإطعام بدلاً عنہ إذا وقع الیأس عن الصوم۔‘‘ (۱/۲۰۷)
سفر کی وجہ سے رمضان اکتیس یا اٹھائیس دن کا ہوگیا:
سوال: مکہ مکرمہ میں پاکستان سے ایک یادو روز قبل چاند دکھائی دیتا ہے، اگر کوئی شخص ۲۹رمضان کو مکہ مکرمہ سے پاکستان آیاسعودیہ میں گزشتہ روز چاند کا اعلان ہو چکا تھا، اور پاکستان میں انتیس رمضان کا دن تھا، شام کو چاند نظر نہ آیا تو یہ شخص کیا کرے گا؟ اگر روزہ رکھتا ہے تو اس کے اکتیس روزے ہو جائیں گے۔ اسی طرح کوئی پاکستان سے مکہ مکرمہ جائے تو اس کے اٹھائیس ہی روزے ہوں گے، اس کا کیا حکم ہے؟ (انور زیب۔ ایبٹ آباد)
جواب: اگر اہل پاکستان نےمکہ مکرمہ سے آنے والے شخص کی رؤیت ہلال سے متعلق خبر کتب فقہ میں مذکورہ شرائط کے مطابق قبول کرلی تو اہل پاکستان اس کے قول کے مطابق عید منائیں گے اور ایک روزہ قضاء رکھیں گے اور اس آنے والے کے روزے پورے ہو جائیں گے اور اگر اس کی خبر قبول نہ کی گئی جیسا کہ عموماً ہوتا ہے تو یہ شخص اکتیسواں روزہ بھی رکھے گا، یہ اس کا نفل روزہ ہوجائے گا اور عید دوسرے لوگوں کے ساتھ کرے گا، مکہ مکرمہ جانے کی صورت میں اہل مکہ کے ساتھ عید کرے اور ایک روزہ قضاء رکھے۔
’’ ولو أکمل ہذا الرجل ثلاثین یوما، لم یفطر إلا مع الإمام۔‘‘ (ھندیۃ: ۱/۱۹۸)
روزہ رکھ کر دوسرے ملک چلا گیا:
سوال: ایک شخص نے پاکستان میں روزہ رکھا، پھر دوسرے ملک چلا گیا تو اب وہ پاکستان کے وقت کے مطابق افطار کرے گا یا اس ملک کے وقت کے مطابق جہاں وہ گیا؟(ضیاء الدین صدیقی۔ کوئٹہ)
جواب: جہاں گیا ہے اس ملک کے وقت کے مطابق افطار کرے گا۔
نکسیر کا خون اندر جانا مفسد ہے:
سوال: نکسیر کا خون حلق سے پیٹ میں چلا گیا تو اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا یا نہیں؟
جواب: روزہ ٹوٹ جائے گا، صرف قضاء واجب ہے، کفارہ نہیں۔
روزہ میں سانپ نے کاٹ لیا:
سوال: کیا سانپ کے کاٹنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟ (بشیر۔ کراچی)
جواب:سانپ، بچھو وغیرہ کے کاٹنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
رمضان میں ایام روکنے والی دواء کا استعمال:
سوال: اگر کوئی عورت قضاء سے بچنے کی یہ تدبیر کرتی ہے کہ رمضان میں ایام (حیض) روکنے والی دوائیں استعمال کرتی ہے تو یہ عمل جائز ہے یا نہیں؟ اس سے روزہ پر تو کوئی اثر نہیں پڑے گا؟(ایک خاتون۔ کراچی)
جواب:جب تک ایام نہ آئیں، روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، روزہ صحیح ہو جائے گا۔ البتہ ایسی دواؤں کا استعمال اس شرط سے جائز ہے کہ کسی نا پاک چیز سے بنی ہوئی نہ ہوں اور صحت کے لیے مضر نہ ہوں۔
پہلی کے چاند کا چھوٹا بڑا ہونا:
سوال: بسا اوقات رؤیت ہلال کمیٹی کے اعلان کے مطابق پہلی کا چاند نسبتاً بڑا نظر آتا ہے، جس سے لوگ شبہہ میں پڑ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شاید یہ دو تاریخ کا چاند ہے، اس بارے میں شریعت کی تعلیم کیا ہے؟ (عبداﷲ۔ کراچی)
جواب:چاند کے چھوٹا بڑا ہونے کا شریعت میں اعتبار نہیں بلکہ ہلال کمیٹی کے قواعد شرعیہ کے مطابق کیے ہوئے اعلان کا اعتبار ہے۔
حدیث میں آتا ہے حضرت ابوالبختری کہتے ہیں کہ ہم لوگ عمرے کے سفر پر نکلے، جب بطن نخلہ میں پہنچے تو ہم نے (رمضان کا) چاند دیکھا، بعض ساتھی کہنے لگے یہ دو راتوں کا چاند ہے، بعض نے کہا یہ تو تین راتوں کا ہے، جب ہم حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے جا کر ملے تو ان سے یہ قصہ عرض کیا۔ انہوں نے پوچھا: ’’کس رات تم نےچاند دیکھا تھا؟‘‘ ہم نے کہا فلاں رات کو، تو حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ نے فرمایا۔ ’’یہ اسی رات کا ہے، جس میں تم نے اس کو دیکھا ہے، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’اﷲ تعالیٰ نے رمضان کا وقت چاند دیکھنا مقرر فرمایا ہے۔‘‘ (رواہ مسلم، مشکوٰۃ مع المرقاۃ: ۴/۴۷۴)
اس حدیث کے ذیل میں ملّا علی قاری رحمہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ بعض روایات میں آیا ہے کہ قیامت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ پہلی کے چاند موٹے اور بڑے دکھائی دیں گے۔ (مرقاۃ: ۴/۴۷۴)
اسی وجہ سے فقہاء رحمہم اﷲ تعالیٰ نے پہلی کے چاند کا حجم بڑا دیکھ کر اس طرح کے شبہات کا تذکرہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (ردالمحتار: ۳/۳۵۴)
شادی کے بعد پہلا رمضان میکے میں گذارنا:
سوال:جب کسی شخص کی شادی ہوتی ہے، شادی کے بعد آنے والا پہلا رمضان لڑکی اپنے والدین کے گھر گذارتی ہے اور اس کو لڑکی کے حقوق میں سمجھا جاتا ہے، اس عمل پر نہ شوہر راضی ہوتا ہے، نہ بیوی، بلکہ محض برادری کے طعن و تشنیع سے بچنے کے لیے مجبوراً اس پر عمل پیرا ہونا پڑتا ہے؟
جواب: شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں، محض بے اصل رسم ہے۔ شریعت کی طرف سے آزادی ہے، لڑکی شوہر کی مرضی سے چاہے میکے میں رمضان گذارے یا شوہر کے گھر گذارے، شریعت کی دی ہوئی اس آزادی کو اپنی طرف سے ختم کرنا اور لڑکی اور اس کے شوہر کو نہ چاہتے ہوئے بھی اس رسم پر مجبور کرنا گناہ کی بات ہے، ایسا ہر گز نہ ہونا چاہئے۔
اذان کے اختتام تک کھاتے رہنا:
سوال:ایک آدمی دیر سے اُٹھا، جب سحری کا وقت ۵ یا۱۰ منٹ رہ گیا تو اس نے کھانا شروع کیا اور وہ اذان کے مکمل ہونے تک سحری کھاتا رہا تو کیا اُس کا روزہ ہوگیا یا نہیں؟نیز سحری کا وقت صحیح کہاں سے کہاں تک ہوتا ہے؟ وضاحت فرمائیں۔(ثقلین عباس۔پیرکوٹ،جھنگ)
جواب: اصل طریقہ یہ ہے کہ اپنی گھڑیاں معیاری وقت پر رکھی جائیں اورکسی مستند اور ماہر کے بنائے ہوئے اوقات کے نقشے میں دیئے گئے وقت سے پانچ منٹ یا کم از کم تین منٹ پہلے سحری بند کردی جائے۔ مساجد، ٹی وی، ریڈیو وغیرہ کی اذانوں پر انحصار نہ کیا جائے، کیونکہ بسا اوقات وقت سے پہلے یا بعد میں بھی اذانیں دی گئی ہیں۔ لہٰذا صورت مسئولہ میں اگر نقشے کے وقت سے پہلے سحری بند کرلی تھی تو روزہ ہوگیا، اگر یقینا معلوم ہوسکے کہ صبحِ صادق کے بعد سحری کی ہے تو پھر قضاء لازم ہے، اگر یقینی طور پر یہ معلوم نہ ہو سکے تو شک کی صورت میں قضاء کا حکم نہیں، البتہ غالب ظن اگر یہ ہو کہ وقت کے بعد سحری کر لی ہے توقضاء کرلے، احتیاط اسی میں ہے ۔
في الھندیۃ: ’’ وإذا شک في الفجر، فالأفضل أن یدع الأکل، ولو أکل فصومہ تام مالم یتیقن أنہ أکل بعد الفجر، فیقضي حینئذ، کذا فيفتح القدیر۔ وان کان أکبر رأیہ أنہ تسحر والفجر طالع، فعلیہ قضاء ہ عملا بغالب الرأي، وفیہ الاحتیاط، وعلی ظاہر الروایۃ لا قضاء علیہ، کذا في الہدایۃ، وھو الصحیح کذا في السراج الوہاج۔‘‘ (ھندیۃ: ۱/۱۹۵ ، ومثلہ في البدائع: ۲/۶۳۳)
سحری صبح صادق کے قریب رات کے آخری حصّے میں کھانا مستحب ہے۔ (مراقی الفلاح) اگر بہت سویرے کھائی جائے تو بھی کوئی حرج نہیں۔
سحری میں جگانے کے لیے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال:
سوال: شہر میں حکومت کی طرف سے بجائے جانے والے سائرن کی آواز اتنی ہوتی ہے کہ تقریباً ہر گھر میں بآسانی پہنچ جاتی ہے،مگرسائرن بجتے ہی مسجدوں میں شور برپا ہو جاتا ہے اور کئی لوگ سحری سے قبل ۳ بجے ہی لوگوں کو اٹھانا شروع کر دیتے ہیں اور تقریباً ۲ گھنٹے تک یہی آواز آتی رہتی ہے کہ اُٹھو اُٹھو، جلدی کرو، کیا شرعاً ایسا کرنا جائز ہے؟ (ابن عبد الغفار۔چینوٹ)
جواب: مروّجہ طریقہ جس میں تسلسل کے ساتھ یا کچھ کچھ وقفہ سے بار بار یہ اعلان کیا جاتا ہے، کئی قباحتوں پر مشتمل ہے:
1:۔یہ طریقہ متوارث و منقول نہیں۔
2:۔لوگوں کی عبادت میں خلل کا ذریعہ ہے۔
3:۔اس سے مریض و ضعیف افراد کو ایذا پہنچتی ہے۔
4:۔مسجد کے لاؤڈ اسپیکر اور بجلی کا بے جا استعمال لازم آتا ہے۔
لہٰذا مذکورہ طریقہ کسی طرح بھی درست نہیں، اس سے احت
راز لازم ہے۔
مفتی محمد
رئیس دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی