03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسئلہ صبح صادق میں اختلاف، ایک اہم ہدایت

روزہ اور نمازوں میں احتیاط کا راستہ:

صبح صادق کب ہوتی ہے؟ جب سورج ۱۸ درجہ زیر افق ہوتا ہے یا جب ۱۵ درجہ زیر افق ہوتا ہے؟ اس میں علماء فلکیات کا اختلاف ہے، بعض کے نزدیک صبح صادق ۱۸ درجہ پر ہوتی ہے، ہمارے ملک میں اوقات نماز کے نقشے عموماً اسی قول کے مطابق بنائے جاتے ہیں، جبکہ بعض فلکیین کے نزدیک صبح صادق ۱۵ درجہ پر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی اقوال ہیں۔ میرے استاذ و شیخ فقیہ العصر حضرت مفتی رشید احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ… جن کو اللہ تعالیٰ نے اس فن میں خصوصی ملکہ عطا فرمایا تھا اور جن کی مہارت کا بڑے بڑے اہل فن نے اعتراف کیا ہے… نے ۱۵ درجہ والے قول کو ترجیح دی ہے اور احسن الفتاویٰ میں اپنا موقف مفصل و مدلل بیان فرمایا ہے۔

ان دو اقوال کے درمیان موسم اور جگہ کے اعتبار سے۱۲ منٹ سے ۲۰ منٹ تک کا فرق ہوتا ہے۔ ۱۸ درجہ کے اعتبار سے صبح صادق جلد ہوجاتی ہے اور ۱۵ کے اعتبار سے ذرا دیر سے ہوتی ہے۔

ہمیں استفتاء ات اور بعض نجی خطوط کی صورت میں ایسی تحریرات موصول ہوتی رہتی ہیں جن میں بعض حضرات شدت سے اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ ہمارے حضرت فقیہ العصر مفتی اعظم مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کی تحقیق کے مطابق پندرہ درجہ زیرِ افق پر صبح صادق کے اوقات پر مشتمل نقشۂ اوقاتِ نماز تیار کرکے اس کی عام اشاعت کرنا چاہتے ہیں اور اس کے مطابق روزہ بند کرنے اور نماز فجر پڑھنے پر اصرار کرتے ہیں۔ دوسری طرف دوسرے فریق کے بعض لوگ ۱۸ درجہ پر روزہ بند کرنے اور اسی کے مطابق نماز فجر پڑھنے پر اصرار کرتے ہیں اور نماز فجر کے لیے ۱۵ درجہ کا انتظار کرنا گوارا نہیں کرتے اور ائمہ کرام سے الجھتے ہیں۔ بعض جگہ کسی ایک فریق کے بے جااصرار کی بناء پر اچھی خاصی کشیدگی پیدا ہوجاتی ہے اور رمضان جیسا مقدس مہینہ یکسوئی، دلجمعی، خشوع و خضوع سے عبادت کرنے اور دوسروں کی خیرخواہی و خبرگیری کی بجائے آپس کے اختلاف و انتشار کا شکار ہوجاتا ہے۔ آپس میں بغض و نفرت کا ماحول بن جاتا ہے، اعاذنا اللّٰہ تعالٰی من ذٰلک۔

ذیل میں دونوں فریقوں کے ایسے تمام حضرات کو ایک اہم امر کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے۔

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ وقت صبحِ صادق کے آغاز سے متعلق ہمارے حضرتؒ کو آخری دم تک پندرہ درجہ زیرِ افق کی تحقیق پر مکمل شرحِ صدر تھا اور آپ اٹھارہ درجہ کے قول کو متعدد وجوہ کی بناء پر صحیح نہیں سمجھتے تھے۔ اس مسئلے کی پوری تفصیل رسالہ ’’صبحِ صادق‘‘ مندرجہ احسن الفتاویٰ جلد۲ میں ہے۔ بحمداللہ تعالیٰ! دارالافتاء کے موجودہ ذمہ داران بھی حضرتؒ کی تحقیق سے مکمل طور پر متفق ہیں، لیکن جہاں ایک طرف حضرتؒ کا شرحِ صدر ایک حقیقت ہے وہیں یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ حضرتؒ نے بعض اکابر اہل علم کے اس مسئلے سے متفق نہ ہونے کی وجہ سے اپنے نقشوں کی عمومی اشاعت پر کبھی بھی اصرار نہیں فرمایا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرتؒ کی زندگی ہی میں ’’ضربِ مؤمن‘‘، ’’روزنامہ اسلام‘‘ اور ’’الرشید ٹرسٹ‘‘ کے پورے عروج پر ہونے کے باوجود نہ صرف یہ کہ آپؒ نے کبھی بھی ان ذرائع اشاعت کو اس مسئلہ کو اُٹھانے یا اپنے نقشوں کی اشاعت کے لیے استعمال نہیں فرمایا، بلکہ اس سے منع بھی فرمایا۔

حضرتؒ کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا کہ اہلِ علم کے خالص علمی مختلف فیہا مسائل کی عام اشاعت سے اجتناب کرنا چاہیے، اس لیے کہ اس سے نہ صرف عوام الناس انتشار کا شکار ہوتے ہیں، بلکہ ان کے دلوں میں علماء سے دوری بھی پیدا ہوتی ہے۔ چنانچہ جواہر الرشید جلد اول صفحہ ۵۵ پر ہے کہ مسئلہ صبحِ صادق پر جب بعض اکابر اہلِ علم نے حضرت سے اتفاق فرمانے کے بعد رجوع کرلیا اور اختلاف کی اشاعت ہونے لگی تو حضرتؒ نے اعلان فرمادیا: ’’کسی مسجد میں کسی ایک نماز ی کو بھی میرے نقشہ پر اعتراض ہو تو میرا نقشہ مسجد سے ہٹادیا جائے، ہمارا کام مسئلہ بتانا ہے منوانا نہیں۔‘‘

اس لیے پندرہ درجہ یا ۱۸ درجہ کے قول کے مطابق نقشے تیار کرکے صرف اور صرف انہی نقشوں کو عوام میں رائج کرنے پر زور دینے کی بجائے عوام و خواص کو یہ بات سمجھانی چاہیے کہ احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ سحری پرانے نقشوں کے مطابق بند کردی جائے، اس کے لیے مسجد سے روزہ بند کرنے کا اعلان بھی کیا جاسکتا ہے اور سائرن بجاکر بھی لوگوں کو مطلع کیا جاسکتا ہے، لیکن اذان و نماز پندرہ درجہ والے نقشے کے مطابق پڑھی جائے۔نقشہ اوقات جس قول کے قائلین تیار کریں وہ اس میں یہ ہدایت بھی تحریر فرمائیں، اس میں نماز و روزہ دونوں کی یقینی حفاظت ہے اور اس طرح سے دونوں طرح کے اقوال پر عمل ہوجائے گا اور کسی کو اشکال بھی نہیں ہوگا۔

دوسرے فریق… جو ۱۸ درجہ کے مطابق نماز پڑھنے پر اصرار کرتا ہے… سے گزارش ہے کہ آخر غیررمضان میں بھی تو اذان ایسے وقت پر دی جاتی ہے جب تقریباً پندرہ درجہ کا وقت ہوچکا ہوتا ہے اور نماز تو ہمیشہ پندرہ درجہ کے وقت کے کافی دیر بعد ہوتی ہے تو آخر رمضان ہی میں اتنی عجلت کا مظاہرہ کیوں کیا جاتا ہے کہ نماز ہی مشکوک ہوجائے!

یہ تجویز نہ صرف ہمارے حضرتؒ کے نزدیک پسندیدہ تھی، بلکہ حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ اور حضرت مولانا محمد یوسف بنوری صاحبؒ کی تحریروں میں بھی اس کا اشارہ ملتا ہے۔ حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ کا ارشاد ہے:

’’میں قدیم جنتری کے اوقات کو حسابی اعتبار سے صحیح سمجھتا ہوں، البتہ یہ حسابات خود یقینی نہیں ہوتے، نماز روزہ کے معاملہ میں احتیاط ہی کا پہلو اختیار کرنا چاہیے۔‘‘

 حضرت بنوریؒ کے الفاظ: ’’ہاں! جس کا جی چاہے نماز دیر سے پڑھے تاکہ اس کو بھی یقین ہوجائے کہ وقت ہوگیا ہے تو اور اچھا ہے۔‘‘

نیز جامعہ دارالعلوم کراچی سے مورخہ ۱۹؍ جمادی الثانیہ ۱۴۲۴ھ کو جاری ہونے والے فتویٰ نمبر ۶۴۰/۵۱ میں واضح الفاظ میں اس تجویز پر عمل کرنے کو بہتر قرار دیا گیا ہے۔ دارالعلوم کراچی کے فتویٰ کا اقتباس: ’’تاہم سوال میں ذکر کردہ احتیاط پر عمل کرنا بہتر ہے۔‘‘ (کما فی التبویب: ۲۶۰/۲)

دارالعلوم کراچی کے ایک اور فتویٰ نمبر ۸۳۰/۱ میں ہے:

           ’’حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ کے دور سے دارالعلوم کراچی میں رمضان میں روزہ ۱۸ درجہ پر بند کیا جاتا ہے اور فجر کی اذان ۱۵ درجہ پر دی جاتی ہے، دوسروں کو بھی یہی مشورہ دیا جاتا ہے۔‘‘

نیز شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے بلیک برن (UK) سے آئے ہوئے ایک ای میل کے جواب میں بعینہٖ مندرجہ بالا مضمون تحریر فرمایا ہے۔ یہ جواب 21 اگست 2011ء کو بھیجا گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی محبت و معرفت اور فہمِ سلیم عطاء فرمائیں اور اختلاف وانتشار کی حوصلہ افزائی کرنے سےحفاظت فرمائیں اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد واتفاق اور محبتیں پیدا کرنے کا ذریعہ بنائیں ۔

مفتی محمد 

رئیس دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی