:۔بلاعذر کوئی چیز چکھنا یا چبانا:
بلا عذر زبان سے کوئی چیز چکھنا یا منہ میں رکھ کر چبانا (جبکہ حلق سے نہ اُتارے، ورنہ روزہ ٹوٹ جائے گا) روزہ دار کے لیے مکروہ ہے، اگر عذر سے چکھے مثلاً کسی عورت کا خاوند بد مزاج ہے اور عورت کو ڈر ہے کہ اگر سالن میں نمک کم و بیش ہوگیا تو خاوند بگڑ جائے گا تو زبان سے چکھنے میں کراہت نہیں۔
اسی طرح عورت کا چھوٹے بچے کو بلا عذر کوئی چیز چبا کر کھلانا بھی مکروہ ہے، لیکن عذر سے کھلائے کہ بچہ کے لیے دوسری نرم غذا موجود نہ ہو، نہ ہی بغیر روزہ کے کوئی دوسرا آدمی موجود ہو جو بچے کو غذا چبا کر دے تو ایسی صورت میں کراہت نہیں، اسی طرح روزہ دار اگر کھانے کی چیز خریدتے وقت زبان سے چکھ لے تو کراہت نہیں، بشرطیکہ اس چیز کی طرف اسے سخت احتیاج ہو اور بغیر چکھے خریدنے میں نقصان کا اندیشہ ہو۔
ان تمام صورتوں میں کراہت کا حکم فرض و واجب روزہ سے متعلق تھا، نفلی روزہ ہو تو کراہت نہیں۔ (درمختار: ۲/۴۱۶)
2 :۔قصداً تھوک جمع کر کے نگلنا:
منہ میں قصداً تھوک جمع کر کے نگل جانا مکروہ ہے لیکن بلا قصد جمع ہو جائے تو نگلنا مکروہ نہیں۔(مراقي الفلاح مع الطحطاوي: صـ ۳۷۲) (مراقي الفلاح: صـ ۲۵۶)
3 :۔ منجن یا پیسٹ:
کوئلے، منجن اور ٹوتھ پیسٹ سے دانت صاف کرنا اور عورتوں کا مسی یا دنداسہ لگانامکروہ ہے، اگر ان کا کوئی جز ء حلق سے نیچے اتر گیا تو روزہ فاسد ہو جائے گا۔ (إمداد الفتاویٰ: ۲/۱۴۱، أحسن الفتاویٰ: ۴/۱۳۹)
4 :۔بلا ضرورت دانت نکلوانا:
روزہ میں ڈاکٹر سے دانت یا ڈاڑھ نکلوانا اور اس جگہ دواء لگانا بوقت ِضرورت ِشدیدہ جائز ہے اور بلا ضرورت مکروہ ہے، اگر دواء یا خون پیٹ کے اندر جائے اور تھوک پر غالب ہو جائے یا اس کے برابر ہو یا اس کا مزہ محسوس ہو تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔(ردالمحتار مع الدر: ۲/۳۹۶)
5 :۔ غیبت وغیرہ:
غیبت، چغلی، جھوٹ، بہتان تراشی، بیہودہ گوئی، گالی گلوچ، ایذا رسانی اور گناہ کے تمام کام یوں تو ہر وقت ہر حال میں حرام و نا جائزہیں مگر روزہ دار آدمی کے لیے ان کی حرمت و شناعت دو چند ہو جاتی ہے اور ان کے سبب روزہ سخت مکروہ ہو جاتا ہے بلکہ حدیث کے مطابق ان گناہوں کی نحوست سے روزہ کا اجر و ثواب ہی غارت ہو جاتا ہے۔
روزہ کے بارے میں چند کوتاہیاں
دوسری عبادات کی طرح روزہ کے معاملہ میں بھی مسلمانوں میں بہت سی کوتاہیاں پائی جاتی ہیں جن کی اصلاح ضروری ہے، یہاں روزہ کے مکروہات یا مفسدات کی تفصیل پیش کرنا مد نظر نہیں، بلکہ بعض ایسی کوتاہیوں کی نشان دہی مقصود ہے جن کی طرف عام روزہ داروں کی توجہ کم جاتی ہے۔
1 :۔بلا عذر روزہ نہ رکھنا:
معذور و مجبور آدمی کے لیے روزہ نہ رکھنا اور رکھنے کے بعد بعض حالات میں توڑنا جائز ہے، مگر شرعاً کون لوگ معذور کی فہرست میں آتے ہیں؟ اس کا فیصلہ کرنا ہر شخص کا کام نہیں، بعض جی چور اور کاہل لوگ روزہ کبھی رکھتے ہی نہیں اور از خود فیصلہ کرلیتے ہیں کہ ہم سے روزہ نہ رکھا جائے گا، حالانکہ رکھ کر دیکھ لیں تو آسانی سے رکھ سکیں، بے ہمتی اور کم حوصلگی کا نام مجبوری رکھ لیا گیا ہے۔ بعض لوگوں کو عذر ہوتا ہے مگر وہ اختیاری اور خود ساختہ قسم کا ہوتا ہے، مثلاً شرعی سفر کے دوران روزہ نہ رکھنے کی رخصت ہے مگر اسے سفر کی ضرورت در پیش نہیں،یونہی گھر سے نکل پڑا۔ غرض کسی مفتی سے پوچھے بغیر عذر کا فیصلہ جائز نہیں۔
2 :۔غیرمعذور کا فدیہ دینا:
بعض بے باک قسم کے لوگ اس گھمنڈ میں روزہ ضائع کرتے رہتے ہیں کہ ہم فدیہ دے دیں گے۔ حالانکہ زندگی میں فدیہ اداء کرنا صرف ایسے شخص کے لیے جائز ہے جو روزہ رکھنے سے بالکل معذور اور آیندہ کے لیے بھی مایوس ہو، اگر مرنے سے پہلے کسی وقت بھی روزہ رکھنے کی قوت آگئی تو یہ فدیہ معتبر نہ رہے گا۔الہندیۃ (۱/۲۰۷)
3 :۔قریب البلوغ صحت مند بچوں کو روزہ سے روکنا:
بعض دیندار لوگ بھی بچوں سے روزہ نہیں رکھواتے، حالانکہ بعض بچوں کی عمر اور قوت و صحت ایسی ہوتی ہے کہ وہ بآسانی روزہ رکھ سکتے ہیں، بلوغ سے پہلے اگرچہ بچوں پر روزہ واجب نہیں، مگر ان کے سرپرستوں پر لازم ہے کہ جب قریب البلوغ ہوں اور روزہ کا تحمل کرسکیں تو ان سے روزہ رکھوائیں، دس سال کی عمر ہونے کے بعد تو روزہ نہ رکھنے پر مارنے کا حکم بھی موجود ہے، بچہ جب عبادت کا خوگر ہوگا تو بلوغ کے بعد اعمال کی پابندی میں اسے کوئی دشواری نہ ہوگی۔(درمختار: ۲/۴۰۹)
4:۔ معذور کا رخصت پر عمل نہ کرنا:
بعض لوگ افراط اور غلو کا شکار ہو کر شریعت کی دی ہوئی رخصت سے بھی فائدہ نہیں اٹھاتے۔ مثلاً پر مشقت سفر یا تکلیف دہ بیماری میں بھی روزہ نہیں چھوڑتے۔
بعض حاملہ یا دودھ پلانے والی عورتیں اپنی جان اور بچے کو ضرر پہنچا کر بھی روزہ رکھتی ہیں اوربعض غلط اندیش کمسن معصوم بچوں سے بھی روزہ رکھواتے ہیں حالانکہ انہیں روزہ کا تحمل نہیں ہوتا، یہ سب علماء وصلحاء کی صحبت سے دور رہنے اور مقصد شریعت نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ اپنے آپ کو یا بچوں کو ناقابل تحمل مشقت میں ڈالنا جائز نہیں، ایسے مواقع پر رخصت پر عمل کرنا ہی اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ اور شرعاً افضل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’إن اللّٰہ یحب أن تؤتی رخصہ کما یحب أن توتی عزائمہ۔‘‘ (مصنف ابن ابی شیبۃ: ۴۴۵))الشامیۃ (۱/۲۶۴)
5 :۔سحری میں عجلت یا تاخیر:
سحری بعض لوگ بہت جلد آدھی رات کو کھا کر فارغ ہو جاتے ہیں، ایسی تعجیل بھی گو جائز ہے، مگر سحری کی اصل حکمت (کہ روزہ میں ضعف لاحق نہ ہو اور قوت برقرار رہے) کے خلاف ہے اور بعض جگہ عوام یہ غلط اعتقاد بھی رکھتے ہیں کہ جب ایک بار سحری کھا کر نیت کرلی یا سوگئے تو اب کوئی چیز کھانا پینا جائز نہیں،اگرچہ رات باقی ہو۔اس غلط اعتقاد سے توبہ کرنا واجب ہے۔ بعض اس کے برعکس سحری اتنی تاخیر سے کرتے ہیں کہ روزہ ہی مشتبہ ہو جاتا ہے، ان کی نظر نقشوں اور گھڑیوں پر ٹکی رہتی ہے، حالانکہ دونوں میں غلطی کا امکان ہے۔ پس احتیاط اسی میں ہے کہ نقشوں اور گھڑیوں کے وقت سے بھی کچھ دیر پہلے آدمی فارغ ہو جائے یا کم از کم گھڑی کا وقت معیاری وقت کے مطابق رکھنے کا اہتمام کرے اور نقشے میں دیے گئے وقت سے تین منٹ پہلے سحری سے فارغ ہوجائے۔
کچھ حضرات یہ سوچ کر کہ لوگ سحری چھوڑ دیں فجر کی اذان وقت سے کچھ پہلے دیتے ہیں، اس میں بھی بہت سی قباحتیں ہیں، اس لیے اذان اپنے وقت پر ضروری ہے۔ (ردالمحتار مع الدر: صـ ۴۱۹)
6 :۔افطار میں عجلت یا تاخیر:
افطار میں بعض لوگ بہت عجلت سے کام لیتے ہیں جس سے روزہ مشتبہ ہو جاتا ہے۔ نقشوں میں تو اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔ پھر سحر و افطار کے نقشوں میں دیئے گئے اوقات یقینی نہیں ہوتے بلکہ حسابی اعتبار سے تقریبی ہوتے ہیں۔ بعض نا سمجھ ریڈیو کی اذان (خواہ وہ کسی دوسرے شہر کی ہی ہو) سن کر افطار کردیتے ہیں، پھر ریڈیو کی اذان اور سائرن وغیرہ عموماً نقشوں کے مطابق بجائے جاتے ہیں، اور کبھی اذان دینے والے وقت دیکھنے میں غلطی کرجاتے ہیں اور غلط وقت پر اذان دے دیتے ہیں، لہٰذا ان پر مکمل اعتماد رکرنا صحیح نہیں، خصوصاً جبکہ کئی ایسے واقعات ہو بھی چکے ہیں کہ سائرن یا اذان کے وقت آفتاب کو آنکھوں سے دیکھا گیا ہے، ۱۳ رمضان ۱۳۹۷ھ کو ریڈیو پاکستان نے چار پانچ منٹ قبل ہی اذان دینا شروع کردی، جو ابھی مکمل نہ ہونے پائی تھی کہ اس کے بعد صحیح وقت پر اذان نشر کی، لاکھوں افراد نے پہلی اذان پر روزہ افطار کر کے اپنا روزہ خراب کیا، اس لیے اپنی گھڑیوں کو معیاری وقت پر رکھیں اور افطار کسی ماہر کے بنائے ہوئے نقشے میں دیئے گئے وقت کے ۳ منٹ بعد کریں، جہاں اتنے گھنٹے صبر کرلیا وہاں دو تین منٹ کا انتظار کیا مشکل ہے؟
بعض وہمی لوگ وقت ہو جانے کے باوجود افطار میں تاخیر کرتے ہیں، ایسی تاخیر حدیث کی رو سے ممنوع ہے۔
افطار میں مشغول ہو کر ترکِ جماعت یا تأخیر:
کئی لوگ افطارکے بعد کھانے پینے میں اتنی دیر تک مشغول رہتے ہیں کہ مغرب کی جماعت بالکل فوت ہو جاتی ہے یا ایک دو رکعت نکل جاتی ہیں۔
مسجد کی جماعت نکل جانے پر کچھ حضرات گھر میں اپنی جماعت کرلیتے ہیں جو اکیلے نماز پڑھنے سے تو بہتر ہے مگر مسجد کی جماعت کا کسی طرح بدل نہیں۔
اس مسئلہ کا آسان حل یہ ہے کہ افطاری گھر کی بجائے مسجد میں کی جائے،لیکن اس میں مسجد کے آداب کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ کھانے کی کوئی چیز مسجد میں گرنے نہ پائے، اس میں شور و غل بلکہ بلا ضرورت گفتگو بھی نہ ہو اور کوئی ایسا کام بھی نہ کیا جائے جس سے مسجد میں آنے والے نمازیوں کو تشویش ہو۔
اگر گھر مسجد کے قریب ہو تو گھر میں بھی مختصر افطاری کے بعد تکبیرئہ تحریم کے ساتھ نماز پڑھنے کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔(ردالمحتار مع الدر: ۲/۴۲۰)
مفتی محمد
رئیس دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی