03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بڑے بیٹے کو دیئے گئے زیورات کے حوالے سے ورثا میں اختلاف کا حکم
85677میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

میری والدہ مرحومہ کا انتقال 1جون 2024 میں ہوا،ہم چھ بھائی اور چار بہنیں ہیں،بڑے بھائی کا انتقال 7مارچ 2023 میں ہوا،ایک عرصہ قبل والدہ مرحومہ نے بڑے بھائی کو اپنا سونا (زیورات) دینے کا ارادہ کیا،مجھ سے پوچھا تو میں نے کہا: آپ کا اختیار ہے،جسے چاہیں دے دیں ۔

بڑے بھائی کو جو اب وفات پاچکے ہیں،نانا نانی نے 2 ماہ کی عمر میں گود لیا،اُن کے انتقال کے بعد ماموں نے کفالت کی،شادی کے چند ماہ بعد انہیں نکال دیا،بھائی والد صاحب مرحوم کے پاس آگئے،بھابھی اور بھائی سے والد صاحب نے کہا تھا کہ جب دوسرے  بھائی کی شادی ہوگی تو تمھیں بھی ویسے سونے کے زیورات دیئے جائیں گے،والد مرحوم کا انتقال 1985 میں ہوگیا،سب بھائیوں بہنوں کی شادیاں ہو گئیں،مگر بڑے بھائی کو سونا نہیں دیا گیا،والد کے انتقال کے بعد مرحوم بھائی فیملی کے ہمراہ بیرون ملک چلے گئے ،والدہ مرحومہ نے جب بڑے  بھائی کو سونے کے زیورات دینے کا ارادہ کیا تو دوسرے نمبر والے بھائی نے والدہ مرحومہ اور سب کے سامنے  زیورات توڑ مروڑ دیئے،مرحوم بھائی نے والدہ کو منع کردیا اور کہا کہ زیورات آپ اپنے پاس رکھیں۔

 مرحوم بھائی سال میں ایک دو بار چکر ضرور لگاتے تھے، والدہ مرحومہ نے دوسرے نمبر والے بھائی سے پوچھا: میرے زیورات کی زکوۃ نکال رہے ہو؟ جواب ملا کہ یہ سب زکوة ہوگئے ہیں،یعنی ان پر اتنی زکوة جمع ہوگئی ہے کہ یہ سب اس میں ادا کرنے پڑیں گے،دکان سے میں نہیں نکال سکتا،والدہ مرحومہ نے چوتھے اور چھٹے نمبر والے بھائیوں سے کہا:تم ان زیورات کو کسی کام میں لگاؤ اور زکواۃ ادا کرو،لیکن انہوں نے منع کر دیا،کیونکہ وہ دونوں دوسرے نمبر والے بھائی کے ساتھ ہماری  مشترکہ دوکان پر بیٹھا کرتے تھے ۔( والد مرحوم کی میراث تا حال تقسیم نہیں ہوئی)

 والدہ مرحومہ جب مجبوراً بہن کے گھر منتقل ہوئیں (تین بچے بوڑھی ماں کو نہ کھانا دینے پر تیار تھے،نہ رات گزارنے کے لئے جگہ دینے پر آمادہ،جبکہ رہائش ایک بلڈنگ میں تھی) تو انہوں نے وہ سونا بڑے بھائی کو دیا ،اس بھائی نے تمام زیورات کی لکھ کر دو نقول بنائیں،ایک اپنے پاس رکھی اور ایک والدہ مرحومہ کو دے دی،سونا اس وقت بڑے مرحوم بھائی کے بیٹے کے پاس ہے،درج ذیل باتوں کو مد نظر رکھ کر اس سونے کے بارے میں وضاحت فرمائیں کہ یہ سونا والدہ کے ترکہ(میراث) میں شامل ہوگا یا نہیں؟

 1۔مرحوم بھائی نے بیٹے کے سامنے وضاحت نہیں کہ سونا اُن کا ہے یا والدہ مرحومہ کا؟

 2۔ انتقال سے ایک ماہ قبل مرحوم بھائی سے (بیوہ)بھابی نے کہا:آپ سونا والدہ کو دے دیں،اس پر انہوں نے کہا:یہ میرا ہے،ماں نے مجھے دیا ہے ۔ ( بھائی نیک،شریف اور دیندار انسان تھے)

3۔مجھ  سے مرحوم بھائی نے تذکرہ کیا تو میں نے کہا وہ آپ کو والدہ نے دے دیا وہ آپ کا ہے انہوں نے کہا:یہ ہم سب کا ہے زکوۃ ادا ہورہی ہے اور اضافہ بھی ہو رہا ہے   ۔  

4۔ دیگر بہن بھائیوں کا موقف ہے کہ والدہ مرحومہ جب عمان گئیں تھیں تو دوسرے نمبر والے بھائی نے تین بہنوں کی موجودگی میں والدہ سے پوچھا کہ آپ نے بڑے بھائی کو سونا كیوں دیا؟انہوں نے کہا:تاکہ وہ اسے کسی کام میں لگادیں،جس کے نتیجے میں اس میں اضافہ ہو اور زکوة کی ادائیگی ممکن ہوسکے،واضح رہے کہ اس وقت کئی سالوں کی زکوة ادا نہیں ہوئی تھی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر یہ زیورات آپ کی والدہ نے بڑے بھائی کو ہبہ کی نیت سے دیئے تھے تو پھر تو وہ اس کے مالک بن گئے تھے اور ان کی وفات کے بعد ان کی میراث کا حصہ ہوں گے،لیکن اگر والدہ نے ہبہ کی نیت سے نہیں دیئے تھے،بلکہ کاروبار میں لگاکر زکوة کی ادائیگی اور اضافے کی نیت سے دیئے تھے تو پھر یہ والدہ کے ترکہ میں شامل ہوں گے اور ان کی وفات کے وقت زندہ ورثا میں تقسیم ہوں گے۔

مذکورہ صورت میں چونکہ والدہ اور بڑے بھائی کے ورثا میں ان زیورات کے حوالے سے اختلاف پایا جارہا ہے،اس لئے بھائی کے ورثا کے ذمے لازم ہے کہ وہ اپنی بات کو دو نیک و صالح مردوں یا انہیں صفات کے حامل ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی سے ثابت کریں،اگر انہوں نے گواہوں کے ذریعے اپنے دعوی کو ثابت کردیا تو فیصلہ ان کے حق میں ہوگا،لیکن اگر وہ اپنے دعوی کو گواہوں سے ثابت نہ کرسکے تو والدہ کے ورثا سے یوں قسم لی جائے گی کہ انہیں اس بات کا علم نہیں کہ ان کی مرحوم والدہ نے یہ زیورات مرحوم بھائی ہبہ کردیئے تھے،اگر وہ اس طرح قسم اٹھالیں تو یہ زیورات بھی والدہ کے ترکہ( انتقال کے وقت جو بھی چھوٹا بڑا سامان سونا،چاندی،نقدی اور جائیداد وغیرہ کی صورت میں ان  کی ملکیت تھا)میں شامل ہوکر ان کی وفات کے وقت موجود ورثہ میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوں گے۔

اور چونکہ بڑے بھائی کا انتقال والدہ سے پہلے ہوچکا تھا،اس لئے والدہ کی میراث میں تو انہیں حصہ نہیں ملے گا،لیکن والد کے ترکہ میں ان کا حق ہے،جو ان کی وفات کے بعد اب ان کے ورثا کے حوالے کرنا لازم ہے۔

حوالہ جات

"البحر الرائق " (7/ 217):

"(قوله: وعلى العلم لو ورث عبدا فادعاه آخر) ؛ لأنه لا علم له بما صنع المورث فلا يحلف على البتات أطلقه فشمل ما إذا ادعاه ملكا مطلقا أو بسبب من المورث".

"البحر الرائق " (8/ 577):

قال – رحمهﷲ - (ولا توارث بين الغرقى والحرقى إلا إذا علم ترتيب الموت) أي إذا مات جماعة في الغرق أو الحرق ولا يدرى أيهم مات أولا جعلوا كأنهم ماتوا جميعا فيكون مال كل واحد منهم لورثته ولا يرث بعضهم بعضا إلا إذا عرف ترتيب موتهم فيرث المتأخر من المتقدم وهو قول أبي بكر وعمر وزيد وأحد الروايتين عن علي - رضي ﷲ عنه - وإنما كان كذلك؛ لأن الإرث يبنى على اليقين بسبب الاستحقاق وشرطه وهو حياة الوارث بعد موت المورث ولم يثبت ذلك فلا يرث بالشك".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

27/جمادی الاولی1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب