03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
چودہ سال پہلے لی گئی رقم کس قیمت کے حساب سے واپس کی جائے گی؟
85614میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

ہمارے والد صاحب کا انتقال ہوا، انہوں نے ترکہ میں ایک مکان چھوڑا، وارثین میں سات بیٹے، ایک بیٹی اور ایک بیوی تھی، 2004ء میں ایک بیٹے محمد انعام کو پیسوں کی ضرورت پیش آئی تو مکان کی قیمت لگوائی گئی اور گواہوں کی موجودگی میں ان کو مکان میں موجود شرعی حصہ رقم کی صورت میں ڈیڑھ لاکھ روپیہ ان کے سپرد کر دیا گیا، پھر والدہ کا بھی انتقال ہو گیا، 2010ء میں اس مکان کو بیچنے کی ضرورت پیش آئی تو حصے لینے والے بیٹے کے دستخط بھی ضروری تھے، اس نے کہا میں ساڑھے چھ لاکھ روپیہ لوں گا، کیونکہ میں اتنا عرصہ کرایہ کے مکان میں رہتا رہا ہوں اور ان چھ سالوں کے کرایہ کی رقم ساڑھے چھ لاکھ روپیہ بنتی ہے، آخرکارسب ورثاء نےمجبورا ان کو یہ رقم ادا کر دی، اب ان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ میں نے خلافِ شرع مجبور کر کے رقم لی ہے، اس لیے اب وہ یہ رقم واپس کرناچاہتے ہیں، سوال یہ ہے کہ وہ چودہ سال پہلے وصول کی گئی ساڑھے چھ لاکھ روپیہ ہی واپس کریں گے یا آج کی قیمت کے حساب سے دیں گے؟ کیونکہ اب روپیہ کی قیمت بہت کم ہو چکی ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں چونکہ مرحوم کے بیٹے محمد انعام نے پاکستانی کرنسی میں ساڑھے چھ لاکھ روپیہ وصول کیا تھا اور یہ رقم اس کے ذمہ دَین یعنی قرض کی صورت میں واجب الاداء تھی اور شریعت کا اصول یہ ہے کہ "الدیون تقضی بأمثالھا" یعنی قرض کی رقم اسی جنس اور اتنی ہی مقدار میں واپس لوٹائی جاتی ہے جس جنس اور جتنی مقدار میں قرض لیا گیا ہو، لہذا مذکورہ صورت میں محمد انعام کے ذمہ پاکستانی کرنسی میں ساڑھے چھ لاکھ روپیہ ہی واپس لوٹانا ضروری ہے، اس سے زائد رقم ادا کرنا اس کے ذمہ لازم نہیں۔

البتہ چونکہ اس نے چودہ سال تک دیگر بہن بھائیوں کی رقم ناجائز استعمال کی ہے اس لیے بہتر یہ ہے کہ اگر محمد انعام کے اندر استطاعت ہے تو وہ اپنی مرضی سے کچھ زائد رقم (جس میں صراحت بھی کر دے کہ یہ میری طرف سےآپ لوگوں کے لیے ہدیہ ہے)بھی ادا کردے، اس سے دیگر بہن بھائی بھی خوش ہو جائیں گے اور محمدانعام کو بھی اللہ کے ہاں اس کا بہت بڑا اجروثواب ملے گا۔

حوالہ جات

فتح القدير للكمال ابن الهمام (8/ 110) الناشر: دار الفكر،بيروت:

(أن الديون تقضى بأمثالها) لا بأعيانها (إذ قبض الدين نفسه) أي قبض نفس الدين (لا يتصور) لأنه وصف ثابت في ذمة من عليه (إلا أنه جعل استيفاء العين حقه من وجه) استثناء من قوله لأن الديون تقضى بأمثالها: يعني أن الديون وإن كانت تقضى بأمثالها لا بأعيانها لما ذكرنا آنفا، إلا أن قبض المثل جعل استيفاء لعين حق الدائن من وجه ولهذا يجبر المديون على الأداء.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

25/جمادی الاولیٰ 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب