85672 | اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائل | دلال اور ایجنٹ کے احکام |
سوال
سوال ہے کیا ایپ سے ویڈیوز دیکھ کر پیسے کمانا جائز ہے جس میں ہے کہ ایپ سے پہلے ڈیجیٹل چیز خریدی جاتی ہے پھر وہ ایپ ہمیں ٹائم دیتی ہے کہ اتنے ٹائم میں اپ نے ویڈیوز دیکھنی ہے اور ویڈیوز دیکھنے کے عوض وہاں ہمیں پیسے دیتی ہے اور ویڈیوز ایسی ہیں کہ اس میں کوئی فحش یا دوسری چیز نہیں ہے؟
وضاحت: سائل نے استفسار پر بتایاکہ اس ایپ کا نام Cheelee App ہے اور تحقیق کے بعد یہ واضح ہوا کہ اس میں ڈیجیٹل چیزوں کی ٹوکن کی شکل میں خریداری کی جاتی ہے جو خریدار کے والٹ میں آجاتے ہیں ، اور اس کے بعد اس ٹوکن کے بدلے میں ایک مخصوص وقت تک خریدار کو ویڈیوز دیکھنے کے لئے دی جاتی ہیں جس پر پیسے ملتے ہیں، اور مخصوص وقت ختم ہونے پر ٹوکن ختم ہوجاتا ہے ۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
سوال میں ذکر کردہ صورت میں مندرجہ ذیل مفاسد پائے جاتے ہیں:
1۔ ویڈیوز وغیرہ دیکھنے کا کام اجارہ (ملازمت) کا فعل ہے جس میں دیکھنےوالے کو ویڈیو یا تصویر دیکھنے کی اجرت دی جاتی ہے۔ یہ کوئی ایسی منفعت نہیں جو اصلاً مقصود ہو اور شرعاً اس کی اجرت لی جا سکے۔ اس کے برعکس یہ کام جعل سازی کے لیے اکثر استعمال ہوتا ہے، مثلاً فیس بک اور یوٹیوب چینل پر غلط طریقے سے ویورز لا کر یو ٹیوب، گوگل ایڈسینس اور اشتہار دینے والی کمپنیوں کو بھی دھوکہ دیا جاتا ہے۔ لہذا شرعاً یہ کام کرنا اور اس کی اجرت لینا درست نہیں ہے۔
2۔ یہ ویڈیوز، تصاویر وغیرہ دیکھنے کے کام کے لیے ڈیجیٹل ٹوکن کی خریداری کی صورت میں ایک انویسٹمنٹ کی جاتی ہے جو حقیقتاً اجارے (ملازمت) کے حق کو خریدنا ہے۔ یہ حق مجرد کی بیع ہے یعنی بلا کسی عوض ادائیگی کی ایک صورت ہے اور اکل بالباطل اور رشوت کے زمرے میں آتی ہے۔ یہ جائز نہیں ہے ۔
مندرجہ بالا تفصیل کی روشنی میں ان ویڈیوز کے لیے انویسٹمنٹ کرنا اور انہیں دیکھنا درست نہیں ہے اوراس کی اجرت بھی شرعاً درست نہیں ہے۔(ماخوذ از فتویٰ نمبر 81583/62))
یوٹیوب کی ویڈیوز لائک کرنے کے ذریعہ پیسہ کمانے کا حکم
https://almuftionline.com/2023/11/23/11425/
حوالہ جات
مجلة مجمع الفقه الإسلامي، مقالة الشيخ محمد تقي العثماني، (5/1931)
ومقتضى هذين التعريفين أن المال مقصور على الأعيان المادية، فلا يشمل المنافع والحقوق المجردة،
ولذلك صرح الفقهاء الحنفية بعدم جواز بيع المنافع والحقوق المجردة، وقد صرحوا بأن بيع حق التعلي لا يجوز.
الدر المختار و حاشية ابن عابدين، ط: دار الفكر 6)/(4
قال الحصكفي ؒ: "وشرعا (تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض) حتى لو استأجر ثيابا أو أواني ليتجمل بها أو دابة ليجنبها بين يديه أو دارا لا ليسكنها أو عبدا أو دراهم أو غير ذلك لا ليستعمله بل ليظن الناس أنه له فالإجارة فاسدة في الكل، ولا أجر له لأنها منفعة غير مقصودة من العين بزازية."
علق عليه ابن عابدين ؒ: "(قوله مقصود من العين) أي في الشرع ونظر العقلاء، بخلاف ما سيذكره فإنه وإن كان مقصودا للمستأجر لكنه لا نفع فيه وليس من المقاصد الشرعية، وشمل ما يقصد ولو لغيره لما سيأتي عن البحر من جواز استئجار الأرض مقيلا ومراحا، فإن مقصوده الاستئجار للزراعة مثلا، ويذكر ذلك حيلة للزومها إذا لم يمكن زرعها تأمل."
منیب الرحمنٰ
دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی
25/جمادی الاولی /1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | منیب الرحمن ولد عبد المالک | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب |