85654 | نکاح کا بیان | نسب کے ثبوت کا بیان |
سوال
میری شادی کے چھ مہینے اورچھ دن بعد میرے ہاں بچی پیدا ہوئی،عورت نے خود اقرار بھی کیا کہ یہ بچی آپ کی نہیں ہے، چار جگہوں سے میں نے الٹرا ساؤنڈ بھی کروایا ،چاروں جگہوں سے رپورٹ آئی کہ یہ شادی سے پہلے مہینہ کا حمل ہے، اب وہ بچی ہمارے کھاتے میں ڈال رہے ہیں اور انہوں نے ہم پر کیس بھی کر دیا ہے ،جس میں عورت نےمیرے والد اور بڑے بھائی پر الزام لگایا ہےکہ ان کے تعلقات ان کے ساتھ ٹھیک نہیں تھے، حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں،اب وہ اپنی جان بچانے کے لیے ہم پر الٹا کیس کر رہے ہیں، لڑکی نے اقرار میں یہ بھی کہا تھا کہ میرے ساتھ یہ معاملہ یعنی غلط کام میرے سگے بھائی نے کیا اور اس کا بھائی پہلے سے ہی اس طرح کے کیس کی وجہ سے جیل میں ہے،اس نے کسی لڑکے کے ساتھ غلط کام کیا تھا تو اس کیس کی وجہ سے جیل میں ہے،انھوں نے 3 لاکھ روپے حق مہر لکھوایا تھا اور لڑکی کے والد نے پہلے سے کچھ پیسے ایڈوانس ہم سے قرض بھی لیاہواہے، اب وہ مکر رہے ہیں کہ ہم نے آپ کو دے دیئے ہیں ،حالانکہ انہوں نے یہ رقم نہیں دی ہے۔
اب اس میں میرے لئے نکاح کا کیا حکم ہے؟حق مہر کا کیا حکم ہے؟ بچی کے نسب کا کیا حکم ہے؟میرے والدین یہ کہتے ہیں کہ اگر آپ نے اس عورت کو رکھناہے تو اپنے خرچہ پر رکھو، جہاں بھی جاؤ، مکان بناؤ، کہیں بھی رکھو ،مگر ہمارے اس گھر میں نہیں رکھ سکتے،اب ہمارے لئے کیا حکم ہے؟ لڑکی نے یہ بھی کہا تھا کہ شادی سے جو پچھلا مہینہ تھا اس میں مجھے حیض وغیرہ نہیں آیاتھا،اور ابھی جب بچی پیدا ہو گئی تولڑکی اپنی بات سے مکرگئی کہ میں نے ایساکچھ کہاہے،کہتی ہے میں نے گھربچانے کے لئے جھوٹ بولاتھا،آپ نے مجھےڈرایاتھااورطلاق کی دھمکی دی تھی،حالانکہ یہ سب غلط بیانی ہے،ایساکچھ بھی نہیں تھا،میں نے نارمل حالت میں اس سے معلوم کیاتھاکہ رپوٹ اس طرح آئی ہیں،اس وقت اس نے اقرارکیاتھا۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
نکاحِ صحیح کے بعد اگر کوئی بچہ یابچی پیدا ہو تو اس کا نسب شوہر سے ہی ثابت ہوتا ہے، اگر کسی صورت میں یقین بھی ہو کہ بچہ یابچی شوہر کے نطفہ سے نہیں ہے،بلکہ زنا سے پیدا شدہ ہےپھر بھی اس کا نسب شوہر سے ہی ثابت ہوگا؛ جیسا کہ حدیث میں ہے "بچہ صاحب فراش کی طرف منسوب ہوتا ہےاور زانی کے لیے (نسب و میراث سے) محرومی ہے"البتہ اگر نکاح صحیح کے بعد پیدا ہونے والا بچہ شوہر کے نطفہ سے نہ ہواور شوہر اس کے نسب کا انکار کرتے ہوئےعدالت میں لعان کامطالبہ کرے اورقاضی لعان کے طریقہ کارکےمطابق فیصلہ کردے تو اس صورت میں بچہ یابچی کا نسب اس کی ماں سے ثابت کیا جاتا ہے،صورت مسؤلہ میں جب دونوں کے درمیان نکاح برقرارہے اوربچی کی ولادت چھ مہینہ اورچھ دن کے بعد ہوئی ہے اورآپ نے عدالت کے ذریعہ بچی کے نسب کی نفی نہیں کی ہے تویہ بچی آپ کی طرف ہی منسوب ہوگی اوراگر آپ عدالت میں جاکر بچی کی نفی کریں اورعدالت سےلعان کامطالبہ کرتے ہیں ،پھرعدالت لعان کروادیتی ہے تواس صورت میں بچی کانسب لڑکی سے ثابت ہوگا،دونوں صورتوں میں طے شدہ مہر کی ادائیگی آپ کے ذمہ لازم ہے،یہ عورت آپ کے نکاح میں ہے،الایہ کہ لعان کے بعد عدالت تفریق کاحکم دیدے یاآپ خود طلاق دیدیں توپھر نکاح ختم ہوجائے گا۔
عدالت کی تفریق اورآپ کے طلاق دینے سے پہلے اگر وہ عورت صحیح معنی میں تائب ہوگئی ہے،عفت اورپاک دامنی کے ساتھ زندگی گزارنے کی خواہش مندہے تواس صورت میں اس کوموقع دیاجائے،اس کی نگرانی کی جائے،اس کوسمجھایاجائےتاکہ وہ آئندہ اس گناہ میں مبتلا نہ ہوسکے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ تمام بنی آدم خطا کار ہیں اور بہترین خطا کار وہ ہیں جو توبہ کرنے والے ہیں، لیکن اگربیوی اس گناہ کونہ چھوڑے توپھرطلاق دینابہتر ہے حدیث میں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ میری بیوی کسی چھونے والے ہاتھ کو جھٹکتی نہیں(یعنی اس کے غیرمردوں سے تعلقات ہیں)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے طلاق دے دو، اس نے عرض کیا یہ ممکن نہیں؛ کیوں کہ میں اس سے بہت محبت کرتا ہوں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر اس کی نگہبانی کرو( تا کہ وہ بدکاری میں مبتلا نہ ہو سکے)۔"
حوالہ جات
فی السنن الكبرى للإمام النسائي (ج 6 / ص 76):
عن بن عباس أن رجلا قال :يا رسول الله إن تحتي امرأة جميلة لا ترد يد لامس قال: طلقها، قال: إني لا أصبر عنها ،قال: فأمسكها ۔
وفی مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (ج 10 / ص 296):
عن ابن عباس قال: جاء رجل إلى النبي صلی اللہ علیہ وسلم فقال: إن لي۔ بفتح الياء وسكونها۔ امرأة ۔بالنصب على اسم۔ أن لا ترديد لامس أي لا تمنع نفسها عمن يقصدها بفاحشة فقال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: طلقها ،فقال :إني أحبها، قال :فامسكها إذا أي فاحفظها لئلا تفعل فاحشة وهذا الحديث يدل على أن تطليق مثل هذه المرأة أولى، لأنه عليه الصلاة والسلام قدم الطلاق على الإمساك فلو لم يتيسر تطليقها بأن يكون يحبها أو يكون له منها ولد يشق مفارقة الولد الأم أو يكون لها عليه دين ولم يتيسر له قضاؤه فحينئذ يجوز أن لا يطلقها ولكن بشرط أن يمنعها عن الفاحشة فإذا لم يمكنه أن يمنعها عن الفاحشة يعصى بترك تطليقها۔
وفی عمدة القاري شرح صحيح البخاري (ج 30 / ص 230):
وقال الطحاوي ذهب قوم إلى أن الرجل إذا نفى ولد امرأته لم ينتف به ولم يلاعن به واحتجوا في ذلك بقوله: الولد للفراش وللعاهد الحجر قلت: أخرجه الجماعة من حديث عائشة غير الترمذي قالوا الفراش يوجب حق الولد في إثبات نسبه من الزوج والمرأة فليس لهما إخراجه بلعان ولا غيره قلت أراد الطحاوي بالقوم هؤلاء عامر الشعبي ومحمد بن أبي ذئب وبعض أهل المدينة وخالفهم الآخرون وهم جمهور الفقهاء من التابعين ومن بعدهم منهم الأئمة الأربعة وأصحابهم فإنهم قالوا إذا نفى الرجل ولد امرأته يلاعن وينتفي نسبه منه ويلزم أمه۔
وفی البحر الرائق شرح كنز الدقائق للنسفي (ج 8 / ص 467):
يثبت نسب ولد المنكوحة حقيقة إذا جاءت به لستة أشهر أو أكثر من وقت التزوج بأحد الشيئين: إما بالسكوت من غير اعتراف ولا نفي له، وإمابشهادة القابلة عند إنكار الولادة لان الفراش قائم والمدة تامةفوجب القول بثبوته، اعترف بهاأو سكت أو أنكر، حتى لو نفاه لا ينتفي إلا باللعان. وفي التحقيق شهادة القابلة لم يثبت بها النسب لانه ثابت بقيام الفراش وإنمايثبت بها تعيين الولد.
وفی الفتاوى الهندية (ج 11 / ص 124):
ولو نفى ولد زوجته الحرة فصدقته فلا حد ولا لعان وهو ابنهما لا يصدقان على نفيه كذا في الاختيار شرح المختار .
وفی رد المحتار (ج 13 / ص 2):
مطلب : الفراش على أربع مراتب .
( قوله : على أربع مراتب ) ؛ ضعيف : وهو فراش الأمة لا يثبت النسب فيه إلا بالدعوة .
ومتوسط : وهو فراش أم الولد ، فإنه يثبت فيه بلا دعوة ، لكنه ينتفي بالنفي .
وقوي : وهو فراش المنكوحة ومعتدة الرجعي فإنه فيه لا ينتفي إلا باللعان .
وأقوى : كفراش معتدة البائن ، فإن الولد لا ينتفي فيه أصلا ، لأن نفيه متوقف على اللعان وشرط اللعان الزوجية۔
وفی الفتاوى الهندية (ج 11 / ص 281):
قال أصحابنا : لثبوت النسب ثلاث مراتب ( الأولى ) النكاح الصحيح وما هو في معناه من النكاح الفاسد : والحكم فيه أنه يثبت النسب من غير عودة ولا ينتفي بمجرد النفي وإنما ينتفي باللعان ، فإن كانا ممن لا لعان بينهما لا ينتفي نسب الولد كذا في المحيط .
محمد اویس
دارالافتاء جامعة الرشید کراچی
۲۵/جمادی الاولی ۱۴۴۶ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد اویس صاحب | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |