85648 | طلاق کے احکام | طلاق کو کسی شرط پر معلق کرنے کا بیان |
سوال
ایک آدمی حلفتا کہے اور ساتھ میں لفظ طلاق کو استعمال کرے،اور کہے کہ ان صلح کرانے والے جرگہ صاحبان کی بات میں مانوں گا،پھر متعین دن میں وہ حاضر نہ ہوتو اس کی قسم کھانے اور طلاق کا شریعت کی رو سے کیا حکم ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
سوال کے ساتھ لف حلفنامہ کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تعلیق طلاق کی ایک صورت ہے ،یعنی جرگہ والے انصاف کے ساتھ زمین تقسیم کرکے حوالے کریں گےتو میں قبول کروں گا،اگر ایسی صورت میں یہ تقسیم قبول نہیں کی تو طلاق واقع ہو۔ البتہ حلفنامہ کے اندر مجلس میں حاضری کی کوئی بات نہیں ہوئی ہے،نیز اس فیصلے کو قبول کرنے کے بارے میں وقت کا بھی کوئی تذکرہ موجود نہیں ہے،فقط اتنی بات کی گئی ہے کہ اگر جرگہ والے ہر قسم کی کمی بیشی کو دور کریں گے تو میں یہ فیصلہ قبول کروں گا،لہذا محض غیر حاضر ہونے سے طلاق واقع نہیں ہوگی،بلکہ یہ ضروری ہے کہ جرگہ والوں کا فیصلہ بالکل انصاف پر مبنی ہو اور وہ قبول کرنے سے انکار کردے تو ایک طلاق رجعی واقعی ہوگی۔اگر فیصلہ میں انصاف نہ ہویا اس نے فیصلہ ماننے سے انکار نہیں کیا ہے تو محض غیر حاضر ہونے کی بناء پر طلاق واقع نہیں ہوگی۔
حوالہ جات
وفی الھندیة(3/397):
"تفسيره تصيير غيره حاكمًا فيكون الحكم فيما بين الخصمين كالقاضي في حق كافة الناس وفي حق غيرهما بمنزلة المصلح."
سید نوید اللہ
دارالافتاء،جامعۃ الرشید
25/ جمادی الاولی 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید نوید اللہ | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |