03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
امام کا پست آواز سے سلام پھیرنے کا حکم
85652نماز کا بیاننماز کی سنتیں،آداب اورپڑھنے کا طریقہ

سوال

اگر امام آخری رکعت میں بیٹھا ہو، اور اس نے سلام آہستہ آواز میں پھیرا، لیکن مقتدیوں کو اس کا علم نہ ہو کہ امام نے سلام پھیر دیا ہے، اور امام کو سلام پھیرنے کے بعد یاد آیا کہ پیچھے مقتدی بھی ہیں، تو اس نے انہیں آگاہ کرنے کے لیے بلند آواز سے دوبارہ سلام کیا۔ اب سوال یہ ہے کہ امام اور مقتدیوں کی نماز کا کیا حکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

امام کا بلند آواز میں سلام کہنا واجب نہیں، تاہم مسنون طریقہ یہ ہے کہ دائیں جانب سلام بلند آواز سے اور بائیں جانب قدرے پست آواز سے کہا جائے۔ صورتِ مسئولہ میں اگر امام نے آہستہ آواز میں دونوں طرف سلام پھیر دیا تھا تو نماز درست ہوگئی، اور مقتدیوں کو آگاہ کرنے کے لیے امام کو دوبارہ بلند آواز سے سلام کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ ایسی صورت میں بہتر یہ ہے کہ مؤذن یا کوئی اور مقتدی بلند آواز سے سلام کہہ دے تاکہ مقتدی متنبہ ہو جائیں۔تاہم، اگر امام نے مقتدیوں کو مطلع کرنے کے لیے دوبارہ بلند آواز سے سلام کہہ دیا، تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی۔

حوالہ جات

والسنة في السلام أن تكون التسليمة الثانية أخفض من الأولى، وهو الأحسن.(الھندیۃ: 1/76)

الجهر بالتسليم للخروج من الصلاة: لا خلاف بين الفقهاء في سنية الجهر بالتسليمة الأولى في حق الإمام، واختلفوا فيما سوى ذلك. (الموسوعة الفقہیہ الکویتیة:184/16)

ويسن خفض صوته بالتسليمة الثانية ، خصه الحلبي بالإمام وذكره السيد وهو في متن منية المصلي لأن السنة في حقه الجهر بأذكار الإنتقالات لأن الجميع للإعلام بحالة. (الطحطاوي على مراقي الفلاح: 176)

حتى لو امتثل أمر غيره فقال له تقدم فتقدم أو دخل فرجة الصف أحد فوسع له فسدت فليمكث ساعة ثم يتقدم برأيه إلخ.  )الدرالمختار علی ھامش ردالمحتار: 1/581(

محمد ادریس

دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی

25 ٖجماد الاولی1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد ادریس بن محمدغیاث

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب