85608 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
میرے شوہر طارق فوت ہوگئے ہیں،ورثہ میں صرف بیوہ ماریہ اورطارق کے والد جاویدفاروقی حیات ہیں،اولاد کوئی نہیں ہے،متوفی کےترکہ میں ایک مکان ہے اورایک والد کے ساتھ جوائنٹ اکاؤنٹ ہے،جس میں 27لاکھ روپے ہیں،بیوہ کااس میں کتناحصہ ہوگا؟
وضاحت:مرحوم کاجومکان ہے وہ ان کے والد جاوید فاروقی نے ان کوگفٹ کیاتھا یعنی کاغذات میں مکان والد نے اپنے بیٹے طارق کے نام کیاتھا،لیکن والد اوراس کے بیٹے دونوں ہی اس میں رہائش پذیرتھے،والدنے اپنی ملکیت سے الگ کرکے بیٹے کے قبضہ میں نہیں دیاتھا۔
2.جوائنٹ اکاؤنٹ میں تمام رقم مرحوم کے والد کی ہے۔
3.مرحوم کے والد نے مرحوم بیٹے کی بیوہ کو دوتولہ سوناصرف استعمال کے لئے دیاتھا،مالک بناکرنہیں دیاتھا۔
پھرمرحوم کے والد جاویدفاروقی کاانتقال ہوگیا،ورثہ میں ایک بھائی اورتین بہنیں تھیں،جن میں سے ایک بھائی اورایک بہن کاانتقال جاویدفاروقی کی حیات میں ہی ہوگیاتھا،مرحوم بھائی کے4 بیٹے اور4بیٹیاں ہیں،مرحومہ بہن کے 2 بیٹے اور5 بیٹیاں ہیں،معلوم یہ کرناہے کہ جاوید فاروقی کی میراث ان کے ورثہ میں کیسے تقسیم ہوگی؟واضح رہےکہ جاویدفاروقی کی بیوی اوروالدین کاانتقال جاوید فاروقی سے پہلے ہوچکاہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگرمرحوم طارق کے والد جاوید فاروقی نے مذکورہ مکان کےکاغذات نام کرانے کے ساتھ مرحوم طارق کو مالکانہ تصرف کااختیار بھی دیدیاتھا تو ایسی صورت میں اس مکان کے مالک مرحوم طارق تھے اوریہ مکان ان کے ترکہ میں شامل ہوگا، اوراگرصرف کاغذات کی حدتک نام کرایاتھا،مالکانہ حقوق اورتصرف کااختیارنہیں دیاتھاتواس صورت میں یہ مکان جاویدفاروقی کی ملکیت ہے،مرحوم طارق کے ترکہ میں شامل نہیں۔
ترکہ تقسیم کرنے کاطریقہ یہ ہے مرحوم نے انتقال کے وقت مکان سمیت(اگرمکان مالکانہ حقوق اورتصرف کےساتھ دیاگیاتھا) جومنقولہ اورغیرمنقولہ سامان اورنقدرقم چھوڑی ہے،اس میں سب سے پہلے ان کے کفن دفن کے متوسط اخراجات اداکئے جائیں، اگریہ اخراجات کسی وارث نےاحسان کے طورپراداکردئیے ہیں تواس صورت میں بھی یہ اخراجات ترکہ سے نہیں نکالے جائیں گے، اس کے بعددیکھیں اگر ان کے ذمہ کسی کےقرض کی ادائیگی باقی ہوتواس کواداکریں،اس کے بعددیکھیں اگرمرحوم نے کسی غیروارث کے حق میں کوئی جائز وصیت کی ہوتو بقیہ مال میں سے ایک تہائی کی حدتک اس پرعمل کریں،اس کے بعد باقی مال میں سے 25فیصد بیوہ ماریہ اور75فیصدمرحوم جاوید فاروقی کودیدیں،جومرحوم جاوید فاروقی کے ترکہ میں شامل ہوکران کےورثہ میں تقسیم ہوگا۔
نوٹ:جوائنٹ اکاؤنٹ میں جورقم ہےاس میں مرحوم طارق کی بیوہ ماریہ کاکوئی حصہ نہیں،کیونکہ اس کے مالک مرحوم طارق نہیں تھے،مرحوم جاویدفاروقی تھے،اس لیے یہ رقم مرحوم طارق کے ترکہ میں شامل ہونے کے بجائےجاویدفاروقی کے ترکہ میں شامل ہوکران کےورثہ میں تقسیم ہوگی،اسی طرح جوزیوربیوہ کواستعمال کے لئے دیاگیاتھاوہ بھی مرحوم طارق کے ترکہ میں شامل نہیں،مرحوم جاویدفاروقی کے ترکہ میں شامل ہوگا۔
مرحوم جاویدفاروقی کے ترکہ کو تقسیم کرنے کاطریقہ یہ ہے کہ مرحوم نے انتقال کے وقت جائیداد سمیت جومنقولہ اورغیرمنقولہ سامان اورنقدرقم چھوڑی ہے،اس میں سب سے پہلے ان کے کفن دفن کے متوسط اخراجات اداکئے جائیں، اگریہ اخراجات کسی وارث نےاحسان کے طورپراداکردئیے ہیں تواس صورت میں بھی یہ اخراجات ترکہ سے نہیں نکالے جائیں گے، اس کے بعددیکھیں اگر ان کے ذمہ کسی کےقرض کی ادائیگی باقی ہوتواس کواداکریں۔اس کے بعددیکھیں اگرمرحوم نے کسی غیروارث کے حق میں کوئی جائز وصیت کی ہوتو بقیہ مال میں سے ایک تہائی کی حدتک اس پرعمل کریں،اس کے بعد باقی مال کودرج ذیل طریقہ کارکے مطابق تقسیم کردیں:
ورثہ کی تفصیل |
عددی حصہ |
فیصدی حصہ |
مجموعہ |
بہن |
4/12 |
33.333 |
33.333 |
بہن |
4/12 |
33.333 |
66.666 |
بھتیجا |
1/12 |
8.333 |
74.999 |
بھتیجا |
1/12 |
8.333 |
83.332 |
بھتیجا |
1/12 |
8.333 |
91.665 |
بھتیجا |
1/12 |
8.333 |
100 |
واضح رہے کہ جس بھائی اوربہن کاانتقال مرحوم جاویدفاروقی کے زندگی میں ہواتھاان کاترکہ میں کوئی حصہ نہیں،اسی طرح مرحوم بہن کی اولاد اوربھائی کی بیٹیوں(بھتیجیوں) کابھی ترکہ میں حصہ نہیں،صرف بھتیجوں کاحصہ ہے۔
حوالہ جات
الدر المختار للحصفكي (ج 5 / ص 259):
"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل."
العناية شرح الهداية (ج 12 / ص 264):
"ولنا قوله عليه الصلاة والسلام { لا تجوز الهبة إلا مقبوضة } والمراد نفي الملك ، لأن الجواز بدونه ثابت ، ولأنه عقد تبرع ، وفي إثبات الملك قبل القبض إلزام المتبرع شيئا لم يتبرع به ، وهو التسليم فلا يصح."
الجوهرة النيرة شرح مختصر القدوري (ج 3 / ص 173):
"لو قال الرجل : جميع مالي ، أو جميع ما أملكه لفلان فهذا إقرار بالهبة لا يجوز إلا مقبوضة ، وإن امتنع من التسليم لم يجبر عليه."
محمد اویس
دارالافتاء جامعة الرشید کراچی
۲۷/جمادی الاولی ۱۴۴۶ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد اویس صاحب | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |