85664 | نکاح کا بیان | نکاح صحیح اور فاسد کا بیان |
سوال
صورت مسئولہ متنازعہ فیہ میں واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک لڑکی جس کا نام ریحانہ خاتون دختر شیر خان ہے،اس کا نکاح اس کے والدین نے گواہوں کی موجودگی میں ظہیر عباس ولد اللہ بخش کے ساتھ منعقد کر دیا اور رخصتی بھی کر دی اور اس لڑکی نے وہاں ایک ماہ بھی گزارا، اس کے بعد مسماۃ ریحانہ خاتون دختر شیر خان وہاں سے ایک اورآدمی خالق داد ولد محمد حیات کے ساتھ چلی گئی اور بذریعہ عدالت اس کے ساتھ نکاح کر لیا، کیونکہ اس طرح ایک منکوحہ کا کسی غیر مرد کے ساتھ پہلے جانا جس طرح خلاف شریعت ہے اس طرح علاقے کی روایات کے بھی خلاف ہے، اس واقعہ کی وجہ سے علاقے میں بے چینی و نفرت اور قطع تعلقی کی فضا خالق داد ولد محمد حیات کے گھرانے سے عوام الناس کی طرف سے روا ر کھی گئی ہے۔ اب آپ کے سامنے ہر دو فریقین کا موقف وضاحت کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے اور چونکہ عدالت میں مسماۃ ریحانہ خاتون مدعیہ ہے، اس لیے عدالت میں دائر کیس کی طرز پر مدعی اور مد عاعلیہ کابیان پیشِ خدمت ہے، تا کہ سمجھنے میں آسانی ہو۔
مدعیہ کابیان: مسماۃ ریحانہ خاتون کے دو موقف ہیں: ایک موقف یہ ہے کہ میں حلفا بیان کرتی ہوں کہ میں ظہیر عباس ولد اللہ بخش کے ساتھ شادی پر رضامند نہیں تھی، میرے والدین اور دیگر رشتہ دادوں نے جبرا قتل کی دھمکیاں دے کر مجھ سے زبردستی انگوٹھا لگوایا، جو کہ نکاح فارم پر دیکھا جاسکتا ہے اور انگوٹھے کا نشان پھیلا ہوا ہے، جو کہ زبر دستی انگوٹھالگوانے کی نشانی ہے ،حالانکہ میں پڑھی لکھی خاتون ہوں اور ہر جگہ میں اپنی نمائندگی بذریعہ دستخط کرتی ہوں، لیکن نکاح نامہ پر مجھ سے زبر دستی انگوٹھا لگوایا گیا اور جو انگوٹھا میں نے عدالت میں کیس دائر کرتے ہوئے اپنے دعوی پر لگایا ہے وہاں بھی انھوٹھے کے نشان دیکھے جاسکتے ہیں جو کہ اصل ہیں اور نکاح فارم پر جو زبر دستی لگوایا گیا ہے ان میں موازنہ کیا جاسکتا ہے۔پھر زبر دستی رخصتی کر دی گئی اور وہاں میں نے ایک ماہ گزارا ، لیکن میں نے کسی قسم کا حقِ زوجیت ادا نہیں کیا اور اس کے بعد جب میں خالق دادولد محمد حیات کے ساتھ چلی گئی تو میں نے بذریعہ عدالت ایک کیس دعوی تکذیبِ نکاح بصورت دیگر تنسیخ نکاح بنام ظہیر عباس ولد اللہ بخش دائر کیا، جو کہ بعد ازاں عدالت نے میرے حق میں جاری کر دیا اور کمرہٴ عدالت میں خادند کی موجودگی میں بینچ نے فیصلہ سنا کر میرے خاوند سے اس فیصلے پر دستخط بھی کر وائے ، یہ کیس بحیثیتِ تکذیب نکاح میرے حق میں ہونےکے بعد عدت گزر جانے پر میں نے بذریعہ عدالت گواہوں کی موجودگی میں خالق داد ولد محمد حیات سے نکاح کر لیا اور اب اسی کے ساتھ زندگی بسر کر رہی ہوں۔
مسماۃ ریحانہ خاتون کا دوسرا موقف حلفاً یہ ہے کہ جب مجھے اندازہ ہو گیا کہ میرے والدین زبر دستی ظہیر عباس ولد اللہ بخش سے نکاح کر دیں گے تو میں نے ظہیر عباس ولد اللہ بخش کے ساتھ نکاح سے قبل اپنے والدین سے چھپ کر خفیہ طور پر خالق داد ولد محمد حیات سے دو گواہوں کی موجودگی میں (بغیر قانونی دستاویز مثلا نکاح فارم رجسٹر وغیرہ کے) نکاح کر لیا، جس کا علم خالق داد ولد محمد حیات اور دو گواہوں اور میرے (مسماۃ ریحانہ خاتون) علاوہ کسی کونہ تھا، چنانچہ میرا نکاحِ اول شرعی خالق داد ولد محمد حیات سے ہے، جو کہ کسی مجبوری کے تحت خفیہ رکھا گیا اور جو نکاح عوام کی موجودگی میں ظہیر عباس ولد اللہ بخش سے ہواوہ نکاح ثانی ہے، لیکن جو میرا پہلا نکاح ( خفیہ ) ہے اس کے جو گواہ ہیں وہ کسی وجہ سے گواہی نہیں دے سکتے اور میرے پاس اس کی کوئی قانونی دستاویز مثلا نکاح فارم بھی موجود نہیں ہے،اس بابت خالق داد ولد محمد حیات کا بھی حلفا یہی کہنا ہے کہ میں نے مسماۃ ریحانہ خاتون دختر شیر خان سے خفیہ طور پر دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح کر لیا تھا بغیر قانونی دستاویز نکاح فارم وغیرہ کے اور یہ نکاح میں نے مسماۃ ریحانہ خاتون دختر شیر خان کے ساتھ، ظہیر عباس ولد اللہ بخش کے ساتھ مسماۃ ریحانہ خاتون کے نکاح سے پہلے کر لیا تھا، لہذا یہ میر انکاح اول ہے اور ظہیر عباس کےساتھ نکاح، نکاح ثانی۔ لیکن میرے نکاح کے جو گواہ میں وہ کسی مجبوری کے تحت گواہی نہیں دے سکتے، لہذا میں (مسماۃ ریحانہ خاتون دختر شیر خان) کا جب نکاح اول خالق داد ولد محمد حیات کے ساتھ ہے تو نکاح ثانی ہوا ہی نہیں۔ لہذا میر انکاح اول خالق داد ولد محمد حیات کے ساتھ شرعی ہے۔
مدعی علیہ کا بیان: میر انکاح ریحانہ خاتون دختر شیر خان کے ساتھ مجمع کثیر کے سامنے گواہوں کی موجودگی میں منعقد ہوا اور میں مسماۃ ریحانہ خاتون کو رخصتی کر کے اپنے گھر دلہن بنا کر ہمراہ لایا اور اس پر کسی قسم کی زبر دستی اور تشدد نہیں ہوا اور اس کے بعد مسمی ریحانہ خاتون جو کہ میری منکوحہ تھی ایک غیر آدمی خالق داد ولد محمد حیات کے ساتھ چلی گئی جو کہ خلاف شریعت ہے اور جب مسماۃ ریحانہ خاتون نے عدالت میں مجھ پر دعوی دائر کیا تو میں نے وہاں بھی کسی قسم کی طلاق نہیں دی اور نہ عدالت کے باہر کسی قسم کی طلاق دی ہے، آج بھی اس کو اپنی منکوحہ سمجھتا ہوں اور جو میری منکوحہ مسماة ریحانہ خاتون کا میرےساتھ نکاح سے قبل، خفیہ نکاح والا ( خالق داد ولد محمد حیات کے ساتھ خفیہ نکاح کے انعقاد کا موقف ہے، وہ سراسر غلط اور بے سر و پا ہے اور ایک فرضی کہانی ہےحقیقت سے اس کا کچھ تعلق نہیں۔
مدعیہ کے دوسرے موقف پرخاوندکابیان حلفی:
میں خالق داد ولد محمد حیات ساکن اوچھالی ضلع خوشاب کا رہائشی ہوں، میں حلفاً بیان کرتا ہوں کہ میرا شرعی نکاح ہمراہ ریحانہ خاتون دختر شیر خان سے روبرو دو گواہان کے منعقد ہوا، جو کہ ہم نے کسی مجبوری کے تحت خفیہ رکھا،لیکن میری عدم موجودگی میں دوران ملازمت پاک فوج چھ ماہ بعد جبراً ریحانہ خاتون مذکورہ کا نکاح ظہیر عباس ولد اللہ بخش سے کردیا گیا، میرا دعوی ہے کہ میرا نکاح اول شرعی ہے ۔ لیکن میرے پاس تحریری قانونی نکاح رجسڑ کا ثبوت نہیں ہے۔
دوسرے موقف پرزوجہ کا بیان حلفی:
میں ریحانہ خاتون دختر شیر خان ساکن اوچھالی ضلع خوشاب کی رہائشی ہوں، میں حلفاً ہمراه خالق داد ولد محمد حیات سے روبرو دو گواہان اقرار کرتی ہوں کہ میرا شرعی نکاح اول ہوا، جس کو ہم دونوں نے اپنے والدین سے کی مجبوری کے تحت خفیہ رکھا، لیکن تحریری ثبوت نہیں ہے۔ چھ ماہ بعد میرا نکاح ثانی میرے انکار کے باوجود جبراً ظہیر عباس ولد اللہ بخش سکنہ اوچھالی کے ساتھ کر دیا گیا اور زبردستی میرا ہاتھ پکڑ کر نکاح کےرجسڑ پر انگوٹھا لگوایا گیا ۔ اور اس وقت بھی میری اجازت نہ تھی اور میں ہر جگہ اپنی وکالت انگوٹھے کی بجائے بذریعہ دستخط کرتی ہوں، میرے والدین نے مجھے زبر دستی ظہیر عباس کے ساتھ رخصت کر دیا، لیکن میں نے ظہیر عباس سے کسی قسم ازدواجی تعلق قائم نہ کیا ہے، میرا دعوی ہے کہ میرا نکاحِ اول شرعی ہے اور نکاحِ ثانی زبردستی اور غلط ہوا ہے۔ میرے پہلے نکاح کے گواہ کسی مجبوری کی وجہ سے گواہی نہیں دے سکتے۔
معزز و محترم علمائے کرام و مفتیان عظام یہ تفصیلی واقعہ بیان کرنے کے بعد اور فریقین کا موقف پیش کرنے کے بعد سوالات درج ذیل ہیں:
1۔پہلا سوال یہ ہے کہ مسماۃ ریحانہ خاتون کا جو خفیہ نکاح والا موقف اور دعوی ہے کیا اس طرح خفیہ طور پر نکاح منعقد ہو جاتا ہے جبکہ گواہ گواہی بھی نہیں دے رہے؟
2۔دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا مسماة ریحانہ خاتون کا جو موقف اول ہےکہ میرا انکاح زبر دستی منعقد کر دیا گیا اور زبردستی میرا انگوٹھا پکڑ کے لگوایا گیا، کیا اس طرح نکاح درست ہے ؟ اور عدالت میں مسماۃ ریحانہ خاتون نے جو کیس یا دعوی بحیثیتِ تکذیب نکاح بصورت دیگر تنسیخ نکاح کے عنوان سے دائر کیا اور بینچ نے جو اس (مسماۃ ریحانہ خاتون) کے حق میں ڈگری جاری کی اور اس کے اوپر مسماۃ ریحانہ خاتون کے خاوند ظہیر عباس ولد اللہ بخش جو کہ مدعی علیہ بھی ہے اس نے دستخط بھی کیے، کیا اس طریقے سے تنسیخ نکاح ہو جاتی ہے۔ شرعا جائز اور صحیح ہے ؟
3۔تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا فریق ثانی مد عاعلیہ ظہیر عباس ولد اللہ بخش کا جو موقف ہے کیا اس کی تناظر میں مسماۃ ریحانہ خاتون اب بھی اس کی منکوحہ ہے یا نہیں ؟ یعنی جس وقت مسماة ریحانہ خاتون خالق داد ولد محمد حیات کے ساتھ چلی گئی تھی اس وقت اس (ظہیر عباس) کی منکوحہ تھی یا نہیں ؟ اب کون سا نکاح درست مانا جائےگا ؟
وضاحت:سائل نے بتایا کہ عورت نے دوسرے نکاح کی زبانی اور تحریری کسی طرح بھی اجازت نہیں دی، نہ کسی کو وکیل بنایا اور حق مہر بھی قبول نہیں کیا، بلکہ لڑکے کی طرف سے دیے گئے ہدایا بھی واپس کر دیے تھے اور ہم نے تحقیق کی تو علم ہوا کہ عورت نے دوسرے شوہر کو ازدواجی تعلقات بھی قائم نہیں کرنے دیے، باقی پہلی رات ہی ان کا جھگڑا ہو گیا تھا، باقی دوسرےشوہر نے جوابِ دعوی میں جوتعلقات قائم کرنے کا لکھا ہے، وہ وکیل سے لکھوایا گیا ہے، کیونکہ ان کی آپس میں دشمنی چل رہی تھی۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
- صورتِ مسئولہ میں دیانت (اللہ تعالی اور بندے کے درمیان شرعی حکم) اور قضاء (عدالت کاظاہری صورتِ حال کے مطابق کوئی شرعی فیصلہ کرنا) کا علیحدہ علیحدہ حکم ہے، دیانت کے اعتبار سے اگر واقعتاً مذکورہ خاتون اور خالق داد نے شرعی گواہوں کی موجودگی میں نکاح کیا ہے تو ان کا نکاح شرعاً درست ہو چکا ہے، اس کے بعد عورت کا پہلے نکاح کو ختم کیے بغیر دوسری جگہ نکاح کرنا شرعا ناجائز اور گناہ ہے، جہاں تک قضاء کا تعلق ہے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر یہ مسئلہ عدالت میں چلا جائے اور عدالت عورت سے اس نکاح پر گواہ طلب کرے اور عورت گواہ نہ پیش کر سکے تو عدالت مدعی علیہ یعنی پہلے نکاح کا انکار کرنے والے شخص سے قسم کا مطالبہ کرے گی، اگر مدعی علیہ نے قسم اٹھا دی تو عدالت اس کے حق میں فیصلہ کر دے گی، نیز ایسی صورت میں بھی عورت کا پہلے شوہر سے طلاق یا خلع لیے بغیر دوسرے شخص کو دیانتاً اپنے اوپر قدرت دینا جائز نہیں، کیونکہ عورت اس صورت میں دیانت کے مطابق عمل کرنے کی پابند ہے، اگرچہ شوہر نے اگر اپنے علم کے مطابق سچی قسم اٹھائی ہو تو اس صورت میں وہ ازدواجی تعلقات قائم کرنے سے گناہ گار نہیں ہو گا۔
- بطورِ تمہید جاننا چاہیے کہ والدین کا عاقلہ بالغہ لڑکی کو کسی شخص کے ساتھ نکاح پر مجبور کرنا شرعاً ہرگز جائز نہیں، حدیثِ پاک میں واضح طور پر نکاح سے قبل والدین کو لڑکی کی اجازت اور رضامندی معلوم کرنے کاحکم دیا گیا ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں لڑکی کے والدین کا اس کودھمکیاں دے کر نکاح کے کاغذات پر انگوٹھے لگوانا جائز نہیں تھا، لہذا سوال میں ذکر کی گئی صورتِ حال کے مطابق اگر واقعتاً لڑکی نے صراحتاً یا دلالتاً والدین کو نکاح کا وکیل بنایا نہ نکاح کی اجازت دی اور اس کے بعد حق مہر بھی قبول نہیں کیا اور نہ اس شخص کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم کیے تو ایسی صورت میں زبردستی صرف انگوٹھا لگوانے سے نکاح منعقد نہیں ہوا۔
- سوال نمبر1اور2کے جواب میں یہ بات تفصیل سے گزر چکی ہے کہ اگرعورت نے شرعی گواہوں کی موجودگی میں پہلا نکاح کیا ہے تو اس کے حق میں دیانتاً یہ نکاح معتبر اور نافذ ہے، اس کےبعد اس کےوالدین کا زبردستی دوسرا نکاح کرنا ہرگزجائز نہیں تھا اور اگر اس نے بالفرض پہلے نکاح نہیں کیا تھا، بلکہ جھوٹ اور غلط بیانی سے کام لیا تھا تو بھی دوسرا نکاح عورت کی صراحتا اور دلالتا رضامندی کے بغیر ہونے کی وجہ سے منعقد نہیں ہوا۔ اس لیے بہر صورت عورت کا دوسرے شخص کے ساتھ نکاح قائم نہیں ہے، باقی پہلے شخص کے ساتھ اگر عورت نے اپنی رضامندی سے نکاح کر لیا تھا یا ابھی جا کر اس کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں نکاح کر لیا ہے تو عورت کا اس کے ساتھ رہنا شرعاً جائز ہے۔
حوالہ جات
صحيح البخاري (9/ 21،الرقم:6946) الناشر: دار طوق النجاة:
عن عائشة رضي الله عنها، قالت: قلت: يا رسول الله، يستأمر النساء في أبضاعهن؟ قال: «نعم» قلت: فإن البكر تستأمر فتستحيي فتسكت؟ قال: «سكاتها إذنها»
سنن أبي داود ت الأرنؤوط (3/ 438،الرقم: 2098) الناشر: دار الرسالة العالمية:
حدثنا أحمد بن يونس وعبد الله بن مسلمة، قالا: حدثنا مالك، عن عبد الله بن الفضل، عن نافع بن جبيرعن ابن عباس قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "الأيم أحق بنفسها من وليها، والبكر تستأمر في نفسها، وإذنها صماتها"
الدر المختار مع رد المحتار: (12/3، ط: دار الفکر):
(فلا ينعقد) بقبول بالفعل كقبض مهر ولابتعاط ولا بكتابة حاضر بل غائب بشرط إعلام الشهود بما في الكتاب.
مطلب التزوج بإرسال كتاب قوله (ولا بكتابة حاضر) فلو كتب تزوجتك فكتبت قبلت لم ينعقد بحر والأظهر أن يقول فقالت قبلت الخ إذ الكتابة من الطرفين بلا قول لا تكفي
ولو في الغيبة تأمل.
الفتاوی الھندیۃ: (270/1، ط: دار الفکر):
ولا ينعقد بالكتابة من الحاضرين فلو كتب تزوجتك فكتبت قبلت لم ينعقد.
الفقہ الاسلامی و ادلتہ: (6531/9، ط: دار الفکر):
إن كان العاقدان حاضرين معاً في مجلس العقد وكانا قادرين على النطق فلا يصح بالاتفاق الزواج بينهما بالكتابة أو الإشارة.
الفتاوى الهندية:كتاب النكاح، الباب الرابع في الأولياء،1/ 287، ط: رشيدية:
"لايجوز نكاح أحد على بالغة صحيحة العقل من أب أو سلطان بغير إذنها بكرا كانت أو ثيبا فإن فعل ذلك فالنكاح موقوف على إجازتها فإن أجازته؛ جاز، و إن ردته بطل.كذا في السراج الوهاج."
جامع الفصولين (1/ 86):
ولو ادعى نكاحها وادعت أنها منكوحة فلان الغائب لا تندفع ومر في فصل القضاء على الغائب "حكم" لا تندفع إلا أن يكون نكاح الغائب معروفا.
الفتاوى الهندية (4/ 58) الناشر: دار الفكر،بيروت:
ولو ادعى نكاح امرأة وادعت هي أنها منكوحة فلان الغائب فهذا ليس بدفع.
المحيط البرهاني في الفقه النعماني (9/ 252) دار الكتب العلمية، بيروت:
وإذا ادعى نكاح امرأة، وادعت أنها منكوحة فلان الغائب فهذا ليس بدفع.
بداية المجتهد ونهاية المقتصد (3/ 90) الناشر: دار الحديث – القاهرة:
المسألة الثالثة: وأما ما يرجع إلى الحال التي يجوز فيها الخلع من التي لا يجوز: فإن الجمهور على أن الخلع جائز مع التراضي إذا لم يكن سبب رضاها بما تعطيه إضراره بها.
محمد نعمان خالد
دادالافتاء جامعة الرشیدکراچی
27/جمادی الاولیٰ 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |