85617 | اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائل | کرایہ داری کے جدید مسائل |
سوال
- میں ایک کمپنی میں کام کرتا ہوں جو کہ امریکہ میں ٹرانسپورٹیشن کا کام کرتی ہے، اور ان کے پاس اپنے ٹرک بھی ہیں۔ وہاں پر یہ اصول ہے کہ جب بھی آپ کسی بروکر کے ساتھ لوڈ بک کرتے ہیں یعنی کہ سامان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پر لے کر جاتے ہیں۔ وہاں پہ آپ ڈائریکٹ شپر کے ساتھ جو سامان بھیج رہا ہوتا ہے اس کے ساتھ کام بہت کم کرتے ہیں زیادہ تر آپ کو بروکر کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے تو زیادہ تر بروکر 30 دن کے بعد یاکم و بیش میں پیمنٹ کرتے ہیں۔ تو وہاں پر فیکٹرنگ کمپنی کے نام سے کچھ کمپنیز ہیں جوآپ کی اس لوڈ کی رسید کو خرید لیتی ہیں اور اس کے اوپر اپنی پرسنٹیج رکھتی ہیں ،اور اپنی پرسنٹیج رکھ کر آپ کو پیسے ایک یا دو دن کے اندر دے دیتے ہیں اور اگر ان کمپنیز کو استعمال نہ کیا جائے تو آپ کو پیسے کے لیے کافی دنوں تک انتظار کرنا پڑتا ہے جو کہ بہت مشکل کام ہے ۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے کہ کیا ایسا کرنا جائز ہے ،یعنی فیکٹرنگ کمپنی کو استعمال کرنا ؟نیز ان فیکٹرنگ کمپنیز کا آفس بھی ہوتا ہے اور ان کے پاس کام کرنے والے لوگ بھی ہوتے ہیں جو ہمارے لیے بروکر سے بات بھی کرتے ہیں۔ مطلب اس سے کنفرمیشن لیتے ہیں اور پیمنٹ کو ٹریک بھی کرتے ہیں، اور ان کو خود کم و بیش 30 دن کے اندر پیمنٹ ملتی ہے، لیکن وہ ہمیں اپنی پرسنٹیج رکھ کے جلدی ادا کر دیتے ہیں تو ہمارے لیے ایسا کرنا کیا جائز ہے ؟
- اگر کوئی شخص کسی کمپنی کے لیے صرف فیکٹرنگ کی ہی جاب کرے، یعنی اس کمپنی کے ڈاکومنٹس کو فیکٹرنگ میں بھیجے یعنی ان سب کو ہینڈل کرے اور اس کا معاوضہ وصول کرے تو کیا وہ بھی اس کے لیے جائز ہوگا؟ برائے مہربانی تفصیلاً جواب ارشاد فرمائیں۔
- اگر کمپنی سے ہٹ کر میرے پاس کوئی اپنا کلائنٹ ہو اور اس سے میں یہ کنٹریکٹ کرلوں کہ اس کے سامان کو بھیجنے سے لے کر فیکٹرنگ کمپنی سے پیمنٹ لینے تک،تمام معاملات میں ہینڈل کروں گا، تو کیا یہ بھی جائز ہوگا؟
سائل کی طرف سے تنقیح کے بعد یہ امور واضح ہوئے:
- فیکٹرنگ کی ملازمت کا مطلب یہ ہےکوئی شخص فیکٹرنگ کمپنی سے یہ معاملہ طے کرلے کہ ایک یا دولوگ آپ کو لاکر دے گا اور اس پر اپنا کمیشن وصول کرے گا۔
- فیکٹرنگ کی ملازمت کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص ایک کمپنی کے لیے ٹریکنگ انڈسٹری میں کام کرتا ہے
اور اس کے تمام معاملات کو دیکھتا ہے،لیکن ٹریکنگ کمپنی پیسے لینے کے لیے فیکٹرنگ کمپنی کو بھی استعمال کرتی ہے اور وہ بندہ کمپنی کو فیکٹرنگ کا انوائس بنا کے ان کے پورٹر پر اپلوڈ بھی کرتا ہے۔ وہ حقیقت میں کام تو ٹرکنگ کمپنی کے لیے ہی کرے گا ،لیکن فیکٹرنگ کمپنی پہ اس لیے وہ ڈاکومنٹس اپلوڈ کرے گا تاکہ ٹرکنگ کمپنی کو پیمنٹ مل جائے تو کیا ایسا بھی کرنا ٹھیک ہے یا نہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
- اس معاملہ کو" بل آف ایکسچینج کی ڈسکاؤنٹنگ "کہا جاتا ہے۔ چونکہ اس میں فیکٹرنگ کمپنی کا صرف پیمنٹ جلدی ادا کرنے کی وجہ سے اپنی پرسنٹیج رکھنا سود ہے،لہذا یہ معاملہ ناجائز ہے۔
- چونکہ فیکٹرنگ کمپنی کا کام سودی ہے ، جس طرح سود کی لین دین حرام ہے اسی طرح سود کی لین دین میں معاونت کرنا بھی جائز نہیں ۔لہذا فیکٹرنگ کمپنی میں ملازمت کرنا جائز نہیں ہے۔ اسی طرح ٹریکنگ کمپنی بھی چونکہ فیکٹرنگ کمپنی سے معاملات کرتی ہے تو ٹریکنگ کمپنی میں بھی ایسے معاملات میں ملاز مت کرنا جو سود پر مشتمل ہوں،جائز نہیں۔جلد از جلد اس ملازمت کو چھوڑنا ضروری ہے۔تاہم اگر ملازمت کوچھوڑنے میں ناقابل برداشت تنگی کا اندیشہ ہو، تو اس ملازمت کو حرام سمجھتے ہوئے دوسری ملازمت حاصل کرنے کے لیے پوری کوشش کریں ، جب تک نہ ملے ، دعا،توبہ اور استغفار کرتے رہیں ، اور دوسری ملازمت ملتے ہی یہ ملازمت چھوڑدیں، پھراس ملاز مت سے کمائی ہوئی رقم جلدازجلد صدقہ کردیں۔
- آپ کا کسی کلائنٹ سے ایسا معاہدہ کرنا جس میں فیکٹرنگ کمپنی سے پیمنٹ وصول کرنے میں آپ معاون اور وکیل بن رہے ہوں جائز نہیں ہے۔
حوالہ جات
وإن حسم الكمبيالة في هذه الحالة بيع للدين بمبلغ أقل من الدين.وبيع الدين، وإن کا ن بمبلغ مساوللدین، فإنه لا يجوز عند جمهور العلماء کما قدمنا فی مبحث بیع الدین، فضلاً أن یقع البیع بمبلغ اقل، فان الحسم یجعل ھذہ العملیۃ ربویۃ لا تجوز شرعاً .(فقه البيوع:2/1121)
لا يختلف الفقهاء في عدم جواز بيع الدين من غير من عليه الدين.
(الموسوعة الفقهية الكويتية: 9/ 176)
أخرج الإمام مسلم في "صحيحه "(3/1219)(الحديث رقم:1598)من حديث جابر،
وعلى هذا يخرج الاستئجار على المعاصي أنه لا يصح لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الاستيفاء شرعا كاستئجار الإنسان للعب واللهو، وكاستئجار المغنية، والنائحة للغناء، والنوح بخلاف الاستئجار لكتابة الغناء والنوح أنه جائز؛ لأن الممنوع عنه نفس الغناء، والنوح لا كتابتهما وكذا لو استأجر رجلا ليقتل له رجلا أو ليسجنه أو ليضربه ظلما .وكذا كل إجارة وقعت لمظلمة؛ لأنه استئجار لفعل المعصية فلا يكون المعقود عليه مقدور الاستيفاء شرعا. (بدائع الصنائع:4/ 189)
الخبيث التصدق. (رد المحتار :6/ 385)
(تبویب،فتویٰ نمبر:84103)
محمد علی
دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی
28/جمادی الاولیٰ1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد علی ولد محمد عبداللہ | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |