03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
منگنی کےوقت سےہی لڑکی رشتہ پرراضی نہ ہوتوشادی پرزبردستی کرناجائزنہیں
85670نکاح کا بیاننکاح کے منعقد ہونے اور نہ ہونے کی صورتیں

سوال

سوال:کیافرماتےہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ زبیدہ بنت خدائےنورکانکاح محبوب شاہ والدمحمدنورسےہوا،نکاح کےوقت لڑکی نےاجازت نہیں دی،رشتہ طےہونےکےبعدتقریباآٹھ سال ہوگئے،لڑکےنےشادی کاکوئی پیغام نہیں بھیجا،جب لڑکےسےکوئی شادی کاکہتاتوجواب میں خاموشی یابہانےبناتا،اب آٹھ سال کےبعد لڑکاشادی کاپیغام بھیج رہاہے،لیکن لڑکی انکارکررہی ہےکہ میں ان سےشادی نہیں کروں گی،اب لڑکی خلع یافسخ نکاح چاہ رہی ہے،اس صورت  میں شریعت کی کیاتعلیمات ہیں ؟ وضاحت فرمائیں۔

تنقیح:لڑکی بالغہ تھی،باقاعدہ نکاح نہیں ہوا،صرف منگنی کی مجلس تھی،جس میں والدصاحب نےزبردستی لڑکےوالوں سےرشتہ کاکہاہے،لڑکی اس وقت سےاس رشتہ پرتیارنہیں،ابھی تک باقاعدہ نکاح نہیں ہوا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سائل کی وضاحت کےمطابق صورت مسئولہ میں چونکہ باقاعدہ نکاح(جس میں باقاعدہ مہر متعین کرکےدوگواہوں کی موجودگی میں نکاح کی مجلس میں  ایجاب وقبول کیاجاتاہے) نہیں ہواتھا،صرف منگنی کی مجلس تھی،اورمنگنی شرعانکاح شمارنہیں ہوتی،لہذاشرعانکاح منعقدنہیں ہوا،اس وقت اگرلڑکی تیارنہیں تھی توبعدمیں لڑکی کومجبورکرناجائزنہیں ،اگرمجبورکرکےباقاعدہ نکاح بھی کردیاگیاتب بھی  شرعا یہ نکاح لڑکی کی اجازت پر موقوف ہوگا۔

موجودہ صورت میں چونکہ  صرف منگنی ہوئی ہے(جس کی حیثیت صرف وعدہ کی ہوتی ہےاوراس کی خلا ف ورزی کی صورت میں شرعا وعدہ خلافی کاگنا ہ ہوتاہے)اور منگنی کےبعد ابھی تک باقاعدہ نکاح  نہیں ہوا،لہذا خلع یافسخ نکاح کی شرعا ضرورت نہیں ،والدین لڑکی کی  پسند کاخیال رکھتےہوئےجہاں چاہیں نکاح کرسکتےہیں۔

حوالہ جات

"الدر المختار للحصفكي"3 / 11:

والثاني المضارع المبدوء بهمزة أو نون أو تاء كتزوجيني نفسك إذا لم ينو الاستقبال، وكذا أنا متزوجك، أو جئتك خاطبا لعدم جريان المساومة في النكاح، أو هل أعطيتنيها أن المجلس للنكاح وإن للوعد فوعد۔

"حاشية رد المحتار" 3 / 10:

وينعقد أي النكاح: أي يثبت ويحصل انعقاده بالايجاب والقبول۔

"رد المحتار "9 / 187:

ویندب اعلانہ  وتقدیم خطبۃ وکونہ فی مسجد ۔۔۔۔

"الفتاوى الهندية" 7 / 40:

لا يجوز نكاح أحد على بالغة صحيحة العقل من أب أو سلطان بغير إذنها بكرا كانت أو ثيبا فإن فعل ذلك فالنكاح موقوف على إجازتها فإن أجازته ؛ جاز ، وإن ردته بطل ، كذا في السراج الوهاج۔

"الدر المختار للحصفكي" 3 / 64:

(ولا تجبر البالغة البكر على النكاح)لانقطاع الولاية بالبلوغ (فإن استأذنها هو)أي الولي وهوالسنة (أو وكيله أو رسوله أو زوجها) وليها وأخبرها رسوله أو فضولي عدل (فسكتت) عن رده مختارة (أو ضحكت غير مستهزئة أو تبسمت أو بكت بلا صوت) فلو بصوت لم يكن إذنا ولا ردا حتى لو رضيت بعده انعقد.معراج وغيره فما في الوقاية والملتقى فيه نظر (فهو إذن)۔

قال ابن عابدين رحمه الله:"(قوله وهو السنة) بأن يقول لها قبل النكاح:فلان يخطبك أويذكرك فسكتت، وإن زوجها بغير استئمار فقد أخطأ السنة وتوقف على رضاها،بحر عن المحيط"۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

26/جمادی الاولی 1446ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب