03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق ثلاثہ کو معلق کرنے کا حکم
85691طلاق کے احکامطلاق کو کسی شرط پر معلق کرنے کا بیان

سوال

میں اپنے والد کے ساتھ مل کر ایک دوکان میں کاروبار کررہا ہوں۔مجھے والد نے بہت تنگ کیا ،کاروبار میں تنگ آکر کاروبار سے باہر نکل کر دوسری  دوکان میں گیا اور یہ  الفاظ بولے کہ" اگر میں نے والد کے ساتھ مل کر اس دوکان میں کاروبار کیا تو مجھ پر میری بیوی ثلاثہ طلاق ہوں۔اس صورت میں شرعی حکم  کیاہے؟

سائل کی مزید وضاحت: سائل نےکہا کہ الفاظ تو میرے وہی ہیں جوسوال میں مذکور ہیں یعنی" اگر میں نے والد کے ساتھ مل کر اس دوکان  میں کاروبار کیا تو مجھ پر میری بیوی ثلاثہ طلاق ہوں "   تاھم میری نیت یہ تھی کہ والد صاحب اس دوکان  میں  کاروبار سے کام نہ رکھیں ،اس میں رائےدہی نہ کریں ، کاروبار میں خریدوفروخت سب کچھ میں کروں گا۔باقی والد صاحب کا خرچہ میرے ذمہّ ہے،میں ان کو پہنچاوں گا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 صورتِ مسئولہ میں  آپ کے الفاظ یعنی" اگر میں نے والد کے ساتھ مل کر اس دوکان  میں کاروبار کیا تو مجھ پر میری بیوی ثلاثہ طلاق ہوں " مطلق ہیں ،کسی نیت سے مقید نہیں ہیں،اور نہ ہی کوئی قرینہ حال موجود ہے جو   آپ کی  نیت  پر دلالت کریں ، لہذا آپ کی نیت مذکورہ الفاظ سے زائد ہونے کی وجہ سے معتبر نہیں،چنانچہ  اگر آپ  والد صاحب کی موجودگی میں اس دوکان میں کاروباری سرگرمیاں کریں گے  تو آپ کی بیوی  کو تین طلاق واقع جائیں گی۔ والد صاحب کی  رائےدہی کے بغیران کی غیرموجودگی میں  اس دوکان میں کاروبار کرنے سےطلاق واقع نہیں ہوگی،لہذااگرآپ اسی دوکان میں کاروبار کرناچاہتے ہیں تو والد صاحب کی  موجودگی میں نہ کریں اور والد صاحب بھی  کاروبار سے کام نہ رکھیں،ورنہ تین طلاق واقع ہوجائیں گی۔

حوالہ جات

قال العلامۃ الحصکفي رحمہ اللہ:(حلفه وال ليعلمنه بكل داعر) بمهملتين أي مفسد (دخل البلدة تقيد) حلفه (بقيام ولايته) بيان لكون اليمين المطلقة تصير مقيدة بدلالة الحال.وقال في الرد:( قوله تقيد حلفه بقيام ولايته) هذا التخصيص بالزمان ثبت بدلالة الحال، وهو العلم بأن المقصود من هذا الاستحلاف زجره بما يدفع شره أو شر غيره بزجره ؛لأنه إذا زجر داعرا انزجر آخر، وهذا لا يتحقق إلا في حال ولايته؛ لأنها حال قدرته على ذلك، فلا يفيد فائدته بعد زوال سلطنته، والزوال بالموت.(الدرالمختار مع الرد:(844/3

قال العلامۃ الحصکفي رحمہ اللہ:(وإن كان) الحالف (ذا سلطان) كقاضي وشريف (لا يباشر هذه الأشياء) بنفسه حنث بالمباشرة (وبالأمر أيضا) لتقيد اليمين بالعرف وبمقصود الحالف.وقال في الرد: (قوله لتقيد اليمين بالعرف) فإن العرف انعقاد يمينه على الأعم من فعله بنفسه، أو مأموره كما مر (قوله وبمقصود الحالف) الأولى إسقاطه؛ لإغناء ما قبله عنه ولأن القصد إنما يعتبر إذا لم يخالف الظاهر لا مطلقا ولعله أشار إلى أنه إنما يحنث إذا قصد الأعم أما لو قصد فعل نفسه الذي هو حقيقة كلامه، لا يحنث كما ذكرناه آنفا.(الدرالمختارمع الرد:(814/3

قال العلامۃ  عثمان الزیلغي رحمہ اللہ تعالٰی:إنما يصح في الملك، كقوله لمنكوحته: إن زرت فأنت طالق...فيقع    بعده أي يقع الطلاق بعد وجود الشرط.

( تبيين الحقائق(231/2:

قال العلامۃ برھان الدین البخاري رحمہ اللہ تعالیٰ :إذا علّق طلاق امرأته بفعل، إن حصل التعليق بكلمة إن وإذا وإذا ما ومتى ومهما، فهذا على مرّة واحدة، حتّى لو فعلت ذاك الفعل مرّة، وقع الطلاق.(المحیط البرھاني:(364/3

قال العلامۃ الشیخ نظام و جماعۃ من علماء الھند رحمھم اللہ تعالٰی:وإذا أضافه إلى الشرط، وقع عقيب الشرط اتفاقا، مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار، فأنت طالق.(الفتاویٰ العالمگیریہ:(420/1

قال العلامۃ الحصکفي رحمہ اللہ تعالیٰ:(علق )العتاق أو الطلاق ولو (الثلاث بشيئين حقيقة بتكرر الشرط أو لا) كإن جاء زيد وبكر فأنت كذا (يقع) المعلق (إن وجد) الشرط (الثاني في الملك وإلا لا).(الدرالمختار مع الرد:363,364/3)

جمیل الرحمٰن بن محمدہاشم

    دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی

28  جمادی الاولٰی1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

جمیل الرحمٰن ولدِ محمد ہاشم

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / شہبازعلی صاحب