قرض کی اقسام اور حکم:
قرض کی تین قسمیں ہیں:
1۔دَین قوی:جیسے کسی کو نقد رقم قرض دی ہے یا کسی کو مالِ تجارت یا وہ مواشی جن میں زکوٰۃ فرض ہو فروخت کیے ہیںاور قیمت وصول نہیں کی، اس قسم کے دین میں وصول ہونے سے پہلے گزرے ہوئے تمام سالوں کی زکوٰۃ فرض ہے،اس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر اس کے پاس اس قرض کے علاوہ مالِ زکوٰۃ بقدر نصاب موجود ہے توجتنی رقم بھی قرض سے وصول ہوتی جائے اس کو نصاب کے ساتھ ملا کر ہر سال کی زکوٰۃ ساتھ ساتھ اداء کرنا ضروری ہے، اگر کسی سال زکوٰۃ کی مقرر تاریخ تک کچھ وصول نہ ہو تو آیندہ سال وصول ہونے والی مقدار کی دو سال کی زکوٰۃ اداء کرے، اگر اس کے پاس قرض کے علاوہ نصاب نہ ہو جبکہ یہ قرض بقدرِ نصاب ہوتوجب نصاب (35ء612 گرام چاندی کی قیمت)کے پانچویںحصہ کے بقدر قرض وصول ہو جائے تواس کی گزشتہ تمام سالوں کی زکوٰۃ اداء کرے۔ اس میں تأخیر کرنے سے گناہ ہو گا۔اگر قرض وصول ہونے سے پہلے زکوٰۃ دی تو بھی حرج نہیں ا ور آسانی بھی اسی میں ہے۔
2۔دَین متوسط:جو نقدی کی شکل میں دوسرے کو قرض نہ دیا ہو، نہ مالِ تجارت فروخت کرنے کے عوض دوسرے پر لازم ہوا ہو بلکہ دوسرے اموال اور چیزیں فروخت کرنے کی صورت میں خریدار کے ذمہ واجب الاداء رقم ہو، مثلاً غیر تجارتی اور غیر قابلِ زکوٰۃ اموال یا گھر پر چارہ کھانے والے جانور فروخت کیے تو اس صورت میں بھی وصول ہونے سے پہلے کے گزشتہ تمام سالوں کی زکوٰۃ لازم ہے،جس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر اس قرض کے علاوہ اس کے پاس بقدرِ نصاب مالِ زکوٰۃ موجود ہو تو اس قرض کا جتنا بھی حصہ وصول ہو تا جائے اس نصاب کے ساتھ ملا کر اس کا حساب لگانا اور مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق زکوٰۃ دینا لازم ہے، اگر ایسا نہیں اور یہ قرض بقدرِ نصاب ہوتو پھر قرض کی رقم سے جب بقدرِ نصاب رقم وصول ہو جا ئے تو گزشتہ تمام سالوں کی زکوٰۃ اداء کرنا لازم ہے، اس سے کم وصول ہونے کی صورت میں ادائیگی لازم نہیں، اگر قرض وصول ہونے سے پہلے پہلے زکوٰۃ دے تو بھی حرج نہیں۔
البتہ ایک قول دین متوسط جس قسم کا بھی ہو، اس پر گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ لازم نہ ہونے کا بھی ہے،اس پر عمل کرنے کی بھی گنجائش ہے، لیکن ظاہر ہے احتیاط زکوٰۃ اداء کرنے میں ہے۔
میراث میں ملنے والا قرض (یعنی مورث نے جو قرض دوسروں کو دیا ہوا تھا) جس بھی نوعیت کا ہو وہ بھی دین متوسط کے حکم میں ہے، لیکن فرق یہ ہے کہ اس میں مورث کی وفات سے پہلے کے سالوں کی زکوۃ وارث پر لازم نہیں بلکہ جس وقت وہ وارث کی طر ف منتقل ہوایعنی مورث کے مرنے کے بعد جتنے سال گزرے ہوں ان کی زکوٰۃ لازم ہوگی۔
صاحب ِ بدائع نے اس کی تصریح کی ہے:
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اﷲ: ’’ قلت: لکن قال في البدائع: إن روایۃ ابن سماعۃ أنہ لا زکوٰۃ فیہ حتی بقبض المأتین، ویحول الحول من وقت القبض، ھی الاصح من الروایتین عن أبی حنیفۃ۔ ومثلہ في غایۃ البیان۔ وعلیہ فحکمہ حکم الدین الضعیف الآتي۔ (قولہ: ومثلہ ما لوورث دینا علی رجل) أي مثل الدین المتوسط فیما مر، ونصابہ من حین ورثہ۔‘‘ (شامیہ: ۲/۳۰۶)
3۔دَین ضعیف:جو کسی مال کے بدلے میں لازم نہ ہو مثلاًمہر،دیۃ، خلع کی رقم وغیرہ،اس کا حکم یہ ہے کہ گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ لازم نہیں، اگر پہلے سے نصاب موجود ہے تو اس قرض کا جتنا بھی حصہ وصول ہوتا جائے اس کو نصاب کے ساتھ ملا کر صرف اسی سال کی زکوٰۃ دینا لازم ہے، اگر اس کے علاوہ کوئی نصاب نہیں تو پھر اس میں زکوٰۃ جب واجب ہو گی جب بقدرِ نصاب رقم وصول ہو جائے اور اس پر سال بھی گزر جائے اور سال کے آخر میں بھی بقدرِ نصاب رقم موجود ہو،اگر ان تین شرطوں میں سے کوئی ایک شرط بھی نہ پائی جائے تو زکوٰۃ لازم نہیں۔
في الدر: ’’واعلم أن الدیون عند الإمام ثلاثۃ: قوی، ومتوسط، وضعیف، فتجب زکاتھا إذا تم نصابا، وحال الحول، لکن لا فورا بل (عند قبض أربعین درھما من الدین القوي) کقرض (وبدل مال تجارۃ) فکلما قبض أربعین درھما یلزمہ درھم، (و) عند (قبض مأتین منہ لغیرھا) أي من بدل مال لغیر تجارۃ، وھو المتوسط کثمن سائمۃ وعبید خدمتہ، ویعتبر ما مضی من الحول قبل القبض في الأصح (وفي الحاشیۃ: قد علمت أنہ ظاھر الروایۃ وعبارۃ الفتح والبحر في صحیح الروایۃ۔) [وفیہ الاحتیاط أیضًا] (و)عند قبض (مأتین مع حولان الحول بعدہ) أي بعد القبض من دین ضعیف وھو (بدل غیر مال) کمھر ودیۃ وبدل کتابۃ وخلع إلا إذا کان عندہ ما یضم إلی الدین الضعیف۔‘‘
وفي الحاشیۃ: ’’أن التقیید بالضعیف عزاہ في البحر إلی الولوالجیۃ، والظاھر أنہ اتفا قي، إذ لا فرق یظھر بینہ و بین غیرہ … ‘‘ (ردالمحتار مع الدر: ۲/۳۰۵ ۔ ۳۰۷)
قرض وصول ہونے کی امید نہ ہو تو اس پر زکوٰۃ نہیں:
سوال: زید کا لوگوں پر قرض ہے، تقریباً تین سال سے مقروض لوگ صرف وعدے کرتے ہیں کہ ہم قرض اداء کریں گے لیکن اب تک کسی نے کچھ بھی اداء نہیں کیا، قرضداروں کی ظاہری حالت سے معلوم ہوتا ہے کہ قرض اداء نہیں کریں گے، ایسی صورت میں اس رقم کی زکوٰۃ زید پر واجب ہے یا نہیں؟ (گل شہزاد۔ ہری پور، ہزارہ)
جواب:جو قرض وصول ہونے کی امید نہ ہو اس پر زکوٰۃ فرض نہیں، اگرایسا قرض وصول ہوجائے تو گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ بھی فرض نہ ہوگی،وصول ہونے کے بعد نئے حساب و نصاب کے ساتھ سال پورا ہونے پر زکوٰۃ لازم ہو گی، البتہ اگر کوئی ادائیگی کا وعدہ کرتا ہے اور پھر وہ تنگدستی کی وجہ سے ادائیگی نہیں کر پاتا اور اس کے حال سے ظاہر یہ ہو کہ وہ نیک نیتی سے کہہ رہا ہے اور استطاعت ہونے پر قرض اداء کردے گا تو اس صورت میں اس قرض پر زکوٰۃ لازم ہے۔
وقال في الشامیۃ: ’’ لو کان لہ دین علی وال، وھو مقر بہ إلا أنہ لا یعطیہ،وقد طالبہ بباب الخلیفۃ، فلم یعطہ فلا زکاۃ فیہ۔‘‘ (۲/۲۶۶)
وقال فیھا: ’’ولو کان الدین علی مقر ملیء أومعسر… فوصل إلی ملکہ لزم زکاۃ ما مضی۔‘‘ (۲/۲۶۷)
’’ ولا(زکاۃ) في مال مفقود و مغصوب، لا بینۃ علیہ، ودین جحدہ المدیون سنین، ثم أقر بعدھا عند قوم، وما أخذ مصادرۃً، ثم وصل إلیہ (أي المال في جمیع ہذہ الصور۔ حاشیۃ) بعد سنین، لعدم النمو، والأصل فیہ حدیث علي رضی اﷲ تعالی عنہ: ’’لازکاۃ في مال الضمار، وھو مالا یمکن الانتفاع بہ مع بقاء الملک۔‘‘ (درمختار: ۲/۲۶۹)
سرِعام انکار کرنے والا اگرقرض کا خفیہ طور پر اقرار کرے:
اگر مقروض ایسا ہو کہ جب لوگ حاضر نہ ہوں تو قرض کا اقرار کرتا ہو لیکن لوگوں کے سامنے قرض سے انکار کرتا ہو تو وصول ہونے سے پہلے قرض خواہ پر اس کی زکوٰۃ لازم نہیں۔
’’ وإن کان المدیون یقرفي السر ویجحد في العلانیۃ فلا زکاۃ فیہ، کذا روي عن أبی یوسف، لأنہ لا ینتفع بإقرارہ في السر فکان بمنزلۃ الجاحد سراً و علانیۃ۔‘‘(بدائع:۲/۳۹۱)
دخول سے پہلے طلاق کی صورت میں واپس کردہ نصف مہر کی زکوٰۃ کا حکم:
جب شوہر بیوی کو دخول سے پہلے طلاق دے تو بیوی اگر پورا مہر وصول کر چکی تھی تو اس پر آدھے مہر کی واپسی لازم ہے، لیکن اگر بیوی کے ہاںاس مالِ مہر پر(بشرطیکہ نقدی یا سونا چاندی ہو) سال گزرچکا ہو تو اس پورے مال کی زکوٰۃ بیوی پر دینا لاز م ہے، اس کی بھی جو اس کے پاس رہ گیا اور اس کی بھی جو شوہر کو واپس کیا ہے، شوہر کو جو آدھا مہر واپس مل گیا اس پر اس کی زکوٰۃ لازم نہیں،اگر چہ بقدرِ نصاب ہو،جب تک اس پر مستقل سال نہ گزر جائے،سال گزرنے کے بعد زکوٰۃ لازم ہو گی، البتہ اگر وہ پہلے سے صاحب ِ نصاب ہو تو پھر سال گزرنا ضروری نہیں، بلکہ زکوٰۃ کی مقرر تاریخ میں دوسرے اموال کی طرح اس کی زکوٰۃ دینا بھی لازم ہے، خواہ یہ مہر بقدر نصاب ہو یا اس سے کم۔
یہ اس صورت میں ہے کہ نکاح کے بعد اور طلاق دینے سے پہلے مہر بیوی کے حوالے کیا گیا ہو اور اس پر بیوی کے ہاں سال بھی گزر گیا ہو، اگرمہر بیوی کے حوالے نہ کیا گیا ہو، بلکہ شوہر کے قبضہ ہی میں رہا تو اس کی زکوٰۃ نہ شوہر کے ذمہ لازم ہے، نہ بیوی کے ذمہ، شوہر کے ذمہ تو اس لیے نہیں کہ وہ مہر کا مقروض ہے اور واجب الاداء قرض پر زکوٰۃ لازم نہیں ہوتی اور بیوی پر اس لیے زکوٰۃ لازم نہیں کہ یہ دین ضعیف ہے جو ابھی تک بیوی کے قبضہ میں نہیں آیا اور دین ضعیف پر جب تک قبضہ حاصل نہ ہو اس کی زکوٰۃ لازم نہیں ہوتی۔ اب دخول سے پہلے طلاق کی صورت میں شوہر پر بیوی کا آدھا مہر دینا لازم ہے۔جب تک شوہر یہ آدھا مہر اداء نہ کے اس وقت تک اس آدھے مہر کی زکوٰۃ بیوی پر لازم نہیں،بلکہ بیوی پراس کی زکوٰۃ جب لازم ہو گی جب اس کے قبضہ میں آنے کے بعد اس پر سال گزر جائے، البتہ اگر بیوی پہلے سے صاحب نصاب ہو تو پھر سال گزرنا ضروری نہیں، بلکہ زکوٰۃ کی مقرر تاریخ پر دوسرے اموال کے ساتھ مہر کی رقم کی زکوٰۃ دینا بھی لازم ہوگا۔ اور بقیہ آدھا مہر چونکہ اب واجب الاداء نہیں رہا، اس لیے شوہر اپنے اموال کی زکوٰۃ اداء کرتے وقت اسے منہا (منفی، مستثنیٰ) نہیں کر سکتا، بلکہ دوسرے امول زکوٰۃ کے ساتھ شامل کرکے اس کی بھی زکوٰۃ ادا کرے گا۔
في الدر: ’’ویجب علیھا أی المرأۃ زکاۃ نصف مھر من نقد مردود بعد مضی الحول من ألف، کانت قبضتہ مھرا، ثم ردت النصف للطلاق قبل الدخول بھا، فتزکی الکل لما تقرر أن النقود لا تتعین في العقود ولا الفسوخ۔‘‘
وفي الشامیۃ: ’’بقی ما إذا لم تقبض المرأۃ شیئاً، وحال الحول علیہ في ید الزوج، ثم طلقھا قبل الدخول، ولم أرمن صرح بہ، والظاھر أن لازکاۃ علی أحد…‘‘ (۲/۳۰۷،۳۰۸)
پراویڈنٹ فنڈ پر زکوٰۃ کا حکم:
گورنمنٹ کے ہاں موجود پراویڈنٹ فنڈ میں زکوٰۃ نہیں، جب وصول ہو جائے تو بھی گزشتہ زمانے کی زکوٰۃ لازم نہیں، وصول ہونے کے بعد اگر بقدرِ نصاب ہو اور اس پر سال گزر جائے تو زکوٰۃ لازم ہوگی، بشرطیکہ ملازم دوسرے اموال کی وجہ سے پہلے سے صاحب نصاب نہ ہو، ورنہ سال گزرنا ضروری نہیں، مقرر تاریخ پر اس کی زکوٰۃ دینا بھی لازم ہے۔ البتہ اگر یہ فنڈ گورنمنٹ کے قبضہ سے نکال کر انشورنس کمپنی یا کسی اور کمپنی کی طرف منتقل کر دیاگیا ہو تو پھر اس میںمنتقل ہونے کے وقت سے سال گزرنے پر زکوٰۃ لاز م ہے، سال گزرنا اس وقت ضروری ہے کہ پہلے سے صاحب نصاب نہ ہو، اس سے پہلے سالوںکی زکوٰۃ لازم نہیں، اسی طرح پرائیویٹ کمپنیوں کے پراویڈنٹ فنڈ میں بھی وصول ہونے کے بعد گزشتہ مدت کی زکوٰۃ لازم ہے کیونکہ پرائیویٹ کمپنیوں میں یہ فنڈ ایک مستقل کمپنی کی تحویل میں دیدیا جاتا ہے، یہ کمپنی ملازمین کی طرف سے فنڈ وصول کرنے کی وکیل ہوتی ہے، اس کا قبضہ ملازمین کا قبضہ ہے، لہٰذا اس کمپنی کی تحویل میں دئیے جانے کے بعد اس میں زکوٰۃلازم ہوگی۔لأن قبض الوکیل کقبض المؤکل۔
البتہ اگر کسی پرائیویٹ کمپنی میں پراویڈنٹ فنڈ مستقل کمپنی(ملازمین کی نمائندہ کمپنی) کی تحویل میں نہ دیاجاتا ہو تو پھر اس میں بھی جی پی فنڈ کی طرح گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ نہیں۔
لأنہ دین ضعیف کدین المھر لأن خدمۃ الحرلیس بمال۔ (أحسن الفتاویٰ: ۴/۲۷۰)
تنخواہ وصول ہونے سے پہلے نصاب میں شمار نہ ہوگی:
ملازم جو تنخواہ کسی ادارہ یا فرد سے وصول کرنے کا حق دار ہو گیا ہو اس کا حکم یہ ہے کہ وصول ہونے سے پہلے اس میں زکوٰۃ لازم نہیں، لہٰذا وصول ہونے کے بعد گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ دینا لازم نہیں، البتہ وصول ہونے کے بعد حکم یہ ہے کہ اگر پہلے سے بقدرِ نصاب مالِ زکوٰۃ موجود ہو تو تنخواہ کی رقم اس کے ساتھ ملا کر زکوٰۃ اداء کرنا لازم ہے، تنخواہ کی رقم بقدرِ نصاب ہو یا اس سے کم، نیز اس پر سال گزر جائے یا نہ گزرے، سب صورتیں برابر ہیں۔
البتہ اگر پہلے سے نصاب موجود نہیں تو اگر بقدرِ نصاب تنخواہ وصول ہو جائے اور اس پر سال بھی گزر جائے تو عام قاعدے کے مطابق زکوٰۃ لازم ہے، ورنہ نہیں۔
في التنویر وشرحہ: ’’ وعند قبض مأتین مع حولان الحول بعد القبض من دین ضعیف، وھو بدل غیر مال … إلا إذا کان عندہ ما یضم إلی الدین الضعیف۔‘‘ (۲/۳۰۶)
وفي الحاشیۃ: ’’ وقال الکرخي: ھذا إذا لم یکن لہ مال سوی الدین وإلا فما قبض منہ فھو بمنزلۃ المستفاد، فیضم إلی ما عندہ۔‘‘ (۲/۳۰۷)
حج کے لیے جمع کی ہوئی رقم پر سال گزرنے سے زکوٰۃ:
زید نے حج کے لیے رقم الگ کر کے حکومت کے ہاں جمع کرادی، حج پر جانے سے پہلے پہلے اس پر وہاں سال پورا ہو گیا، یعنی جمع کرانے والے کی زکوٰۃ کے لیے مقرر تاریخ آگئی تو اس پر زکوٰۃ لاز م ہے، کیونکہ اس طرح جمع کرانے سے یہ مال زید کی ملک سے نکلا نہیں۔کیونکہ حکومت کے ساتھ اس صورت میںاجارۃ مضافہ الی المستقبل ہوتا ہے اور ایسے اجارہ میںتعجیل اجرت صحیح نہیں، اگر اجرت معجلاً دی جائے تو بھی مستأجر کی ملک سے خارج اور اجیر کی ملک میں داخل نہ ہو گی،نیز دین حج بھی مانع وجوبِ زکوٰۃ نہیں۔ یعنی کسی پر حج فرض ہوچکا ہو تو حج کے مصارف کے بقدر رقم زکوٰۃ سے مستثنیٰ نہیں ہوگی، بلکہ کل مال کی زکوٰۃ دینا لازم ہے۔
في تنقیح الحامدیۃ:’’ سئل في رجل، خرج من بلدۃ، واصطحب معہ من المال نصبا کثیرۃ لم یخرج زکاتھا،ویزعم أنہ لا تلزمہ زکاتھاإذا حال علیھا الحول لکونہ یرید الحج، فھل تلزمہ زکاتھا؟
الجواب: نعم تلزمہ زکاۃ الفاضل معہ (أي الذي لم ینفقہ إلی الحال قبل حولان الحول) حیث حال علیہ الحول، ولم یخرج زکاتہ، ولا عبرۃ بزعمہ المذکور، لأن ما لیس لہ مطالب من جھۃ العباد لا یمنع وجوب الزکاۃ کدین النذر والکفارۃ ووجوب الحج وصدقۃ الفطر وھدی ومتعۃ وأضحیۃ ولقطۃ بعد التعریف۔ کذا في شرح الملتقی للباقانی، وکذا في البحر والنھر وغیرھما۔ وافراز المال المذکور لأجل الحج لا یخرجہ عن ملکہ۔ واﷲ اعلم۔‘‘ (۱/۸)
وفي الدر: ’’ وأما المضافۃ(کما في صورۃ الحج) فلا تملک فیھا الأجرۃ بشرط التعجیل إجماعا۔‘‘
وفي الحاشیۃ: قولہ: ’’وأما المضافۃ‘‘: ’’ فیکون الشرط باطلاً، ولا یلزم للحال شيء۔‘‘ (رد المحتار مع الدر:۶/۱۰)
نیوتہ کی رقم میں زکوٰۃ کا حکم:
نیوتہ کی رقم بعض جگہوں میں بطورِ قرض دی جاتی ہے یعنی دوسرے موقع پر واپس وصول کرنے کا عام دستور اور رواج ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ نیوتہ دینے والے پر اس کی زکوٰۃ فرض ہو، بعض جگہوں میں حقیقۃًہبہ ہوتا ہے، اس صورت میں دینے والے پر اس کی زکوٰۃ فرض نہیں، لیکن قواعد سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں بطور قرض دی جاتی ہے وہاں بھی دینے والے پر اس کی زکوٰۃ لازم نہیں، کیونکہ اس کا وصول کرنا یقینی نہیں، ہاں! اگر وصول ہوجائے تو وصول ہونے کے بعد حسبِ ضابطہ اگر قابلِ زکوٰۃ ہے تو زکوٰۃ لازم ہوگی۔
في البدائع: ’’ وکذا الدیۃ علی العاقلۃ ملک ولی القتیل فیھا متزلزل بدلیل أنہ لومات واحد من العاقلۃ سقط ما علیہ، فلم یکن ملکا مطلقا ووجوب الزکوٰۃ وظیفۃ الملک المطلق۔‘‘ (۲/۳۹۱)
’’وکذا لووھب لرجل ألفا، ثم رجع في الھبۃ بعد الحول بقضاء أوبغیر قضاء، واسترد الألف، لازکاۃ علی واحد منھما۔‘‘ (ھندیۃ: ۱/۱۸۲)
اس عبارت سے معلوم ہوا کہ دیت میں مقتول کے اولیاء کی ملک متزلزل ہے یقینی نہیں، اس لیے اس میں زکوٰۃ لازم نہیں۔
نیوتہ کی رقم بھی ایسی ہی ہے جس میں ملک (اگر قرض کی صورت ہو تو بھی) متزلزل ہے کیونکہ یہ رقم خاص اسی قسم کے رشتہ پر واپس کی جائے گی اور معطین کے ہاں اس قسم کے رشتہ کا ہونا نہ ہونا یقینی نہیں، دونوں احتمالات ہیں۔نیز ایسا رشتہ ہونے کی صورت میں بھی واپسی سو فیصد یقینی نہیں۔
قرض میں غلہ یا زمین یا کوئی دوسری چیز وصول ہوتو زکوٰۃ کا حکم:
مقروض سے قرض کی ادائیگی میں رقم کی بجائے زمین یا غلہ یا کوئی دوسری چیز لی جائے تو بھی عام قاعدے کے تحت گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ لازم ہے۔
في التنویر: ’’ولو کان الدین علی معترف، فوصل إلی ملکہ لزم زکاۃ ما مضی۔‘‘ (درمختار: ۲/۲۶۷)
قرض خواہ فوت ہوجائے تو زکوٰۃ کا حکم:
اسلم کا جاویدپر قرض تھا، اس میں ابھی کچھ مقدار بھی واپس وصول نہیں ہوئی تھی کہ اسلم فوت ہو گیا تواس پر اس مال کی زکوٰۃ لازم نہ تھی، اس لیے کہ دین اگر قوی ہو تو بھی فرضیت زکوٰۃ کے لیے اس کا کچھ حصہ وصول ہونا ضروری ہے۔ نیز جب اس پر زکوٰۃ لازم ہی نہ تھی تو اس پر اس کی ادائیگی کی وصیت کرنا بھی لازم نہ تھا اور نہ ورثہ پر زکوٰۃ اداء کرنا لاز م ہے، کیونکہ ورثہ مورث (اسلم) کی موت سے پہلے اس کے مالک ہی نہ تھے، لہٰذا ورثہ پر بھی گزشتہ زمانے کی زکوٰۃ لازم نہیں، بلکہ مورث کی موت کے وقت سے سال گزرنے پر زکوٰۃ لاز م ہو گی۔ البتہ ورثہ دوسرے امول کی وجہ سے صاحب نصابہوں تو سال گزرنا ضروری نہیں، کمامر غیرمرۃ۔
في الشامیۃ: تنبیہ:مقتضیٰ ما مر من أن الدین القوی والمتوسط لا یجب أداء زکاتہ إلا بعد القبض،أن المورث لو مات بعد سنین قبل قبضہ لا یلزمہ الإیصاء؛ بإخراج زکاۃ عند قبضہ، لأنہ لم یجب علیہ الأداء في حیاتہ ولا علی الوارث أیضا لأنہ لم یملکہ إلا بعد موت مورثہ، فإبتداء حولہ من وقت الموت۔‘‘ (شامیۃ: ۲/۳۰۶)
زمین و مکان وغیرہ کے کرایہ کا دَین:
زمین و مکان اگر تجارت کے لیے ہو اور اسے کرایہ پر دیا جائے تو احتیاط اسی میں ہے کہ اس کی اجرت میں گزشتہ زمانے (وصول ہونے سے پہلے اس پر جتنے سال گزرے ہوں) کی زکوٰۃ دی جائے۔ (أحسن الفتاویٰ: ۴/۲۷۲)
البتہ اگر غیر تجارتی چیزوں کو کرایہ پر دیا جائے تو ان سے جو اجرت حاصل ہو گی اس میں اختلاف ہے کہ دین متوسط ہے یا دین ضعیف؟ پہلی صورت میں زکوٰۃ لازم ہو گی دوسری میں نہیں۔احتیاط اسی میں ہے کہ اس کو دین متوسط قرار دیا جائے،جس میں ظاہر الراویۃ کے مطابق اورفتح القدیر و صاحبِ علائیہ کی تصریح کے مطابق زکوٰۃ لازم ہے۔ (ردالمحتار: ۲/۳۰۵)
دیت کی رقم میں زکوٰۃ کا حکم:
دیت کی رقم جب تک وصول نہ ہو جائے اس میں زکوٰۃ نہیں، لہٰذا وصول ہونے کے بعد گزشتہ عرصہ کی زکوٰۃ لازم نہیں،بلکہ وصول ہونے کے بعد سال گزرنے پر جب بقدرِ نصاب باقی ہو تو پھر اس میں زکوٰۃ لازم ہے۔
’’ وکذا الدیۃ علی العاقلۃ ملک ولی القتیل فیھا متزلزل بدلیل أنہ لو مات واحد من العاقلۃ سقط ما علیہ فلم یکن ملکا مطلقا ووجوب الزکوٰۃ وظیفۃ الملک المطلق۔‘‘ (بدائع: ۲/۳۹۱)
سالہائے گزشتہ کی زکوٰۃ میں کون سے دن کی قیمت کا اعتبار ہوگا؟
کسی شخص نے سونے، چاندی، مالِ تجارت کی کئی سال تک زکوٰۃ اداء نہیں کی، اب اداء کرنے کا ارادہ ہے تو اب کس دن کی قیمت کے اعتبار سے زکوٰۃ اداء کرے گا؟ ایک قول یہ ہے کہ جس دن اس پر زکوٰۃ لازم ہوئی تھی اس دن کی قیمت کے اعتبار سے زکوٰۃ دینا لازم ہے، دوسرا قول یہ ہے کہ جس دن زکوٰۃ دے رہا ہے اس دن کی قیمت کے اعتبار سے اداء کرے، قیمت بڑھ جانے کی صورت میں احتیاط بھی اسی میں ہے۔
في الشامیۃ: ’’وتعتبر القیمتہ یوم الوجوب، وقالا: یوم الأداء۔‘‘(۲/۲۸۶)
صاحب ِ نصاب کا درمیان سال میں مقروض ہونا:
اگر کسی کے پاس بقدرِ نصاب مال آیا لیکن کچھ مدت گزرنے کے بعد اتنا مقروض ہوگیا کہ قرض نصاب کے بقدرہو گیا یا نصاب سے بھی بڑھ گیا، پھر آخر سال میں قرض سب اداء ہو گیا یا اتنا باقی رہ گیا کہ اسے منہا کرنے کے باوجود صاحب ِ نصاب ہے تو ایسے شخص پر سال کے آخر میں زکوٰۃ دینا لازم ہے، یہ نہیں کہا جا ئے گا کہ چونکہ درمیان سال میں یہ بقدرِ نصاب یا اس سے زیادہ مقروض ہوگیا تھا، لہٰذا سال کی ابتداء قرض کی ادائیگی کے بعد سے ہو گی، کیونکہ قرض اگر چہ مستغرق ہویعنی اتنا زیادہ ہو کہ اگر قرض اداء کرے تو اس کے پاس کچھ بھی مال نہ بچے تو بھی اس سے نصاب پر کوئی اثر نہیں پڑتا،اگر سال کی ابتداء و انتہاء میں نصاب پورا ہو تو زکوٰۃ لازم ہوتی ہے۔
’’ وأماالدین فلا یقطع ولو مستغرقا۔‘‘وفي الحاشیۃ: ’’وقد مر ھناک ترجیح ما ھنا، فراجعہ۔‘‘ (رد المحتار: ۲/۳۰۲)
اکاؤنٹ کی رقم سے قرض کس طرح منہا کریں؟
بعض اوقات آدمی مقروض ہوتا ہے، جبکہ بینک تو تاریخ آنے پر پوری رقم کی زکوٰۃ کاٹ لیتا ہے اور اس سے قرضے منہا نہیں ہوتے۔اس کا ایک حل تو یہ ہے کہ بینک جس تاریخ کو زکوٰۃ کاٹتا ہے اس کے آنے سے پہلے اپنی رقم بینک سے نکال لے یا کرنٹ اکائونٹ میں منتقل کروا لے، کیونکہ اس میں زکوٰۃ نہیں کٹتی اور اپنے طور پر قرضے منہا کر کے زکوٰۃ اداء کر لی جائے۔
دوسرا حل یہ ہے کہ بینک کو لکھ کر دیا جائے کہ میں صاحب ِ نصاب نہیں ہوں یا اتنی رقم کے بقدر مقروض ہوں۔پھر بینک اس کے مطابق عمل کرتا ہے۔
دین ِمؤجل مانع زکوٰۃ نہیں:
اگر کسی کے مالِ تجارت یا نقدی رقم پر سال گزر گیا لیکن اس کے ذمہ تجارتی لین دین میں کوئی قرض ہے، جس کی ادائیگی کے لیے آیندہ کی کوئی تاریخ مقرر ہے تو اس مؤجل قرض کی بناء پر اس سے زکوٰۃ ساقط نہیں ہوتی بلکہ زکوٰۃ دینا لازم ہے۔
’’ زادالقھستانی عن الجواھر: والصحیح أنہ (الدین المؤجل) غیر مانع۔‘‘ (شامیہ: ۲/۲۹۱)
دین مہر مانع وجوب ِزکوٰۃ ہے یا نہیں؟
اگر شوہر کا ارادہ اور عزم مہر اداء کرنے کا ہے تو پھر یہ دین ِ مہر شوہر پروجوب زکوٰۃ سے مانع ہے بشرطیکہ اس کو منہا کرنے کے بعد بقدرِ نصاب مال نہ بچے، اگر دینے کا عزم نہیں ہے تو پھر مانع نہیں ہے، لہٰذا مہر کی واجب الاداء رقم منہا کیے بغیر زکوٰۃ اداء کرنا لازم ہے۔
في البدائع: وقال بعضہم إن کان الزوج علی عزم من قضائہ یمنع، وإن لم یکن علی عزم القضاء لا یمنع، لأنہ لا یعدہ دینا، وإنما یؤاخذ المرء بماعندہ في حق الأحکام۔‘‘ (۲/۳۸۴)
امداد الفتاویٰ: ۲/۹ میں بھی اس کو راجح قرار دیا ہے۔
اپنے پراویڈنٹ فنڈ سے لئے گئے قرض کی زکو ۃ کا حکم:
اپنے پراویڈنٹ فنڈ سے قرض لیا جائے تواگرچہ وہ حکومت یا کمپنی کو واپس کرناپڑتا ہے، مگر زکوٰۃ اداء کرتے وقت اس قرض کو منہا نہیں کیا جائے گا، کیونکہ یہ تو اس کی اپنی رقم ہے، اسے بطورِ قرض لینے کے بعد اگر اس پر سال گزر گیا تو اس کی زکوٰۃ لازم ہے اور اگر دوبارہ کمپنی کو اداء کیا تو بھی اس کی زکوٰۃ لازم ہے کیونکہ اس صورت میں یہ ’’ دین قوی‘‘ بن گیا جس کا حکم یہ ہے کہ جتنا حصہ اس کا وصول ہوتا جائے اس کو باقی رقم کے ساتھ ملا کر گزشتہ تمام سالوں کی زکوۃ ادا کی جائے۔علی قول الصاحبین کما في أحسن الفتاویٰ:۴/۲۷۳
عدالتی فیصلہ یا شوہر بیوی کی رضا مندی سے لازم شدہ نفقہ بحکم قرض ہے:
اگرشوہر بیوی نے باہمی رضا مندی سے ماہانہ یا سالانہ نفقہ کی خاص مقدار طے کی ہوجو شوہر کے ذمہ واجب الاداء ہو یا عدالتی چارہ جوئی کے نتیجے میں شوہر پر عدالت کی طرف سے ایک خاص مقدار بطورِ نفقہ مقرر کی گئی ہو، پھر شوہر نے کچھ عرصہ وہ مقرر شدہ یا عدالت کی طرف سے لازم کردہ خرچ بیوی کو نہ دیا ہو تو یہ اس کے ذمہ قرض بن جائے گا، لہٰذا اس کو بھی مالِ زکوٰۃ سے منہا کیا جائے گا، منہا کرنے کے بعد اگر بقدرِ نصاب مال بچ جاتا ہو تو زکوٰۃ لازم ہے ورنہ نہیں، نیز ان دو صورتوں کے علاوہ نفقہ کی رقم منہا نہیں کی جا سکتی۔
في الدر: ’’و(دین) نفقۃ، لزمتہ بقضاء أورضا۔‘‘
وفي الحاشیہ: ’’أي بقضاء القاضي بھا أوتر اضیھما علی قدر معین؛ لأنھا بدون ذلک تسقط بمضی المدۃ،وإنما تصیر دینا بأحدھما…‘‘ (رد المحتار: ۲/۲۶۱)
مالِ زکوٰۃ سے قربانی، صدقۃ الفطر کی رقم منہا کرنے کا حکم:
مالِ زکوٰۃ کا سال اگر صدقۃ الفطریاقربانی کے دنو ںمیں پورا ہو جائے تو پہلے زکوٰۃ ادا ء کی جائے گی،اس کے بعد باقی ماندہ مالِ زکوٰۃ اکیلا یا ضرورت سے زائد سامان (جس کی تفصیل صدقۃ الفطر کے بیان میں آئے گی)کے ساتھ مل کر اگر بقدرِ نصاب ہے تو اضحیہ اور صدقۃ الفطر لازم ہے، ورنہ نہیں۔خلاصہ یہ کہ کل مالِ زکوٰۃ کی زکوٰۃ اداء کی جائے گی، قربانی اور صدقۃ الفطر کے بقدر رقم منہا نہیں کی جائے گی۔
في الشامیۃ: ’’ وکذا لا یمنع دین صدقۃ الفطر وھدی المتعۃ والأضحیۃ، بحر۔‘‘ (۲/۲۶۱)
مفتی محمد
رئیس دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی
11نومبر 2024