خراج کا حکم:
خراجی زمینوں کا خراج ادا کرنا عشر یا زکوۃ کی طرح اگرچہ خالص عبادت نہیں،لیکن ان زمینوں کا ایک شرعی حق ہے،جس کی ادائیگی عشر کی ادائیگی کی طرح لازم ہے۔
خراج کی اقسام:
خراج کی بھی دو قسمیں ہیں: (ا)خراج مؤظف (۲) خراج مقاسمہ
خراج مؤظف :وہ خراج ہے جس کا تعلق پیداوار سے نہ ہو،بلکہ پیداوار جتنی بھی ہو،حکومت کی طرف سے خراج کی ایک لگی بندھی مقدار مقرر کرلی جائے،مثلا ایک من ،دو من وغیرہ۔
خراج مقاسمہ:وہ خراج ہے جس کا تعلق پیداوار سے ہو ،مثلا کل پیداوار کا چوتھائی حصہ وغیرہ۔"رد المحتار" (2/ 325)
خراج مؤظف کی مقدار:
عراق فتح ہونے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ نے وہاں کی زمین کا سروے کروایا اور ایک جریب زمین پر ایک درہم (3.402گرام چاندی)نقد،جبکہ ایک صاع(5.88لیٹر) وہ چیز لازم فرمائی جو اس میں کاشت کی جائے،یعنی گندم،جو وغیرہ،جبکہ ایسی سبزیوں میں جن کے پودے طویل مدت تک پھل دیتے رہتے ہیں،مثلاً ککڑی،خربوزہ،بینگن وغیرہ ایک جریب پر پانچ درہم اور انگورو کھجور کے ایسے گنجان باغات جن میں زراعت نہ ہوسکے فی جریب دس درہم مقرر فرمائے۔
ان کے علاوہ دیگر پھلوں کے باغات ،چاہے وہ ایسے گنجان ہوں کہ زراعت کے قابل نہ ہوں یا متفرق ہوں،اسی طرح انگور وکھجور کے وہ باغ جن میں زراعت ممکن ہواور دیگر ایسی قابل کاشت چیزیں جن کا خراج حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مقرر نہیں فرمایا ان میں زمین کی پیداوار کے مطابق خراج متعین کیا جائے گا،جس کی کم ازکم حد پانچواں حصہ ہے اور زیادہ سے زیادہ نصف،اگر اندازے کے بعد تجربہ سے ثابت ہو کہ پیداوار اندازےسے کم ہوئی ہے تو اس کے مطابق کمی کی جائے گی۔"الدر المختار " (4/ 186)
فائدہ:
ایک جریب1225 مربع گز کا تھا،جس کی مقدار ہمارے ملک میں مروج بیگہ سے کم ہے،بیگہ 1620 مربع گز کا ہوتا ہے،جبکہ ایک ایکڑ4840 مربع گز کا۔
ناقابل کاشت خراجی زمین کا حکم:
اگر خراجی زمین کسی وجہ سے کاشت کاری کے قابل نہ رہے تو ایسی زمین کا خراج معاف ہوجائے گا۔
"فتاوى قاضيخان" (1/ 135)
قابل کاشت زمین کو بیکار چھوڑنے کی صورت میں خراج کا حکم:
اگر خراجی زمین قابل کاشت تھی،لیکن محض غفلت اور کوتاہی کی وجہ سےاس میں کاشت نہیں کی گئی تو خراج مؤظف وصول کیا جائے گا،البتہ خراج مقاسمہ معاف ہوجائے گا،کیونکہ خراج مقاسمہ کا تعلق پیداوار سے ہے۔"الدر المختار " (4/ 191):
خراجی زمین کا مسلمان کی ملکیت میں آجانا:
ایک بار جس زمین کا وظیفہ خراج متعین ہوگیا،اس کے بعد اگر وہ کسی مسلمان کی ملکیت میں بھی آجائے تب بھی وہ زمین خراجی رہے گی،مسلمان کی ملکیت کی وجہ سے عشری نہیں بنے گی۔"الدر المختار " (4/ 191)
خراجی زمین خریدنا:
خراجی زمین خریدنے میں کوئی حرج نہیں،بہت سے صحابہ کرام کے حوالے سے یہ بات ثابت ہے کہ انہوں نے خراجی زمینیں خریدیں اور پھر ان کا خراج ادا کرتے رہے۔"الهداية " (2/ 400)
خراجی زمین کرایہ یا عاریت پر دینا:
اگر کوئی شخص اپنی خراجی زمین کسی کو کرایہ یا عاریت پر دے دے توخراج مؤظف کی صورت میں اس کا خراج بالاتفاق زمین کے مالک کے ذمے لازم ہوگا،نہ کہ کرایہ یا عاریت پر لینے والے کے ذمے،جبکہ خراج مقاسمہ کی صورت میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک مالک کے ذمے ہوگا،جبکہ صاحبین کے نزدیک عاریت یا کرایہ پر لینے والے کے ذمے ہوگا۔"الدر المختار " (2/ 334)
اگر سال میں ایک سے زیادہ مرتبہ فصل لگے تو کیا حکم ہے؟
عشری زمین سے سال میں جتنی دفعہ پیداوار حاصل ہو اتنی مرتبہ عشر کی ادائیگی لازم ہوگی،کیونکہ عشر کا تعلق پیداوار سے ہے،یہی حکم خراج مقاسمہ کا بھی ہے،البتہ خراج مؤظف سال میں صرف ایک بار ہی وصول کیا جائے گا۔"بدائع الصنائع " (2/ 62)
خراج کے مصارف:
خراج کا مصرف ملکی مصالح ہیں،مثلاً سرحدات کی حفاظت،فوج اور حکومتی ارکان کے اخراجات،علماء،طلبہ،مفتیوں اور قاضیوں کی ضروریات ،اسی طرح سڑکوں اور پلوں کی تعمیر ومرمت پر اسے خرچ کیا جاسکتا ہے۔"فتح القدير للكمال ابن الهمام" (6/ 66)
خراج معاف کرنے کا حکم:
اگر بادشاہ یا اس کا نائب کسی شخص کی زمین کا خراج معاف کردے تو اس کے لئے اسے اپنے استعمال میں لانا تب جائز ہوگا جب وہ ان لوگوں میں سے ہوجو خراج کا مصرف ہیں،اگر وہ خراج کا مصرف نہ ہو تو اس کے ذمے مقدار خراج کا تصدق لازم ہوگا۔"الدر المختار " (4/ 193)
خراج کی نیت سے ٹیکس دینا:
حکومت زمین پر جو رقم وصول کرتی ہے،اس کی دو قسمیں ہیں ایک پانی کی قیمت جسے آبیانہ کہاجاتا ہے،دوسری رقم محصول یا ٹیکس کے نام سے وصول کی جاتی ہے،پہلی قسم کی رقم کو خراج میں شمار نہیں کیا جاسکتا،جبکہ دوسری قسم کی رقم اگر خراج کی نیت سے دی جائے تو خراج ادا ہوجائے گا،کیونکہ حکومتِ پاکستان اگرچہ اس رقم کو شرعی خراج کی حیثیت سے وصول نہیں کرتی،لیکن یہ رقوم کثیر مقدار میں سرحدات کی حفاظت اور فوجی ضروریا ت میں خرچ کرتی ہے، جو شرعا خراج کا مصرف ہے،اس لیے یہ رقم حکومت پاکستان کو خراج کی نیت سے دینےسے خراج ادا ہوجائے گا،بشرطیکہ یہ ٹیکس کل پیداوار کے خمس کے برابر یا اس سے زیادہ ہو،اگر اس سے کم ہو تو بقیہ ماندہ خراج کی ادائیگی از خود لازم ہوگی۔
البتہ ہندوستان میں حکومتی ٹیکس خراج کی نیت سے ادا کرنے سے خراج ادا نہیں ہوگا،کیونکہ ہندوستان کی حکومت ٹیکس کی رقم کو جن مصارف پر خرچ کرتی ہے وہ شرعا خراج کے مصارف میں سے نہیں،،اس لیے وہاں کے مسلمانوں پر علیحدہ سےخراج نکال کر اس کے شرعی مصارف مثلا وہاں کے دینی مدارس ،مدرسین،فتوی اور تبلیغ کا کام کرنے والے علماءپر خرچ کرنا ازخود لازم ہے۔"الهداية في شرح بداية المبتدي" (1/ 101):
پاکستان کی خراجی زمینوں کا خراج مقاسمہ دیا جائےگا یا مؤظف؟
پاکستان کی خراجی زمینوں میں کس قسم کا خراج عائد ہے،مقاسمہ یا مؤظف،اس کا مدار اس وظیفے کے معلوم ہونے پر ہے جو مسلمان فاتحین نے اول فتح کے وقت متعین کیا تھا،اراضی سند ھ سے متعلق تو مستند علماء کی تصریحات سے ثابت ہے کہ خراج مقاسمہ مقرر ہےجو محمد بن قاسم نے غیر مسلموں کی زمینوں پر عائد کیا تھا اور وہ خراج مقاسمہ خمس یعنی پیداوار کا پانچواں حصہ ہے،چنانچہ سندھ کے علماء میں سے ایک شیخ ابوالحسن دہری ہیں،جو راجہ داہر کی اولاد میں ہونے کے سبب دہری کہلاتے ہیں اور سنا گیا ہےکہ اب تک بھی سندھ میں ایک قوم دہری کے نام سے موسوم ہےجس کو عموماً لوگ ڈیری کہنے لگے ہیں،یہ راجہ داہر قدیم ہندو والی سندھ کی طرف منسوب ہے،کیونکہ راجہ داہر کا بیٹا جیسیہ مسلمان ہوگیا تھا ،ممکن ہے کہ یہ لوگ اسی کی اولاد میں ہوں۔
انہیں شیخ ابوالحسن دہری نے اپنے رسالہ رفع الفریہ میں لکھا ہے:ان خراج السند ھو الخمس ای ضعف العشر۔
اسی طرح مخدوم محمدعارف سندھی نے اپنی بیاض میں مخدوم ہاشم ٹھٹوی نے جو تحقیق اراضی سندھ کے متعلق لکھی ہے،اس سے بھی یہی خمس معلوم ہوتا ہے۔
نیز اس زمانے میں ملتان،بہاولپوراور پنجاب کے سب علاقے سند ھ میں شامل تھے،لہذا ان کا بھی یہی حکم ہوگا،بلکہ صوبہ گجرات اور راجپوتانہ کو بھی محمد بن قاسم کی فتوحات میں داخل سندھ قرار دیا گیا تھا۔(جواہرالفقہ:3/382)
خراجی زمین میں عشر کا حکم:
احناف کے نزدیک عشر اور خراج دونوں جمع نہیں ہوسکتے،اس لیے خراجی زمین سے حاصل ہونے والی پیداوار میں احناف کے نزدیک عشر لازم نہیں ہوگا۔’’الدر المختار ‘‘ (4/ 192)
قبل از وقت عشروخراج نکالنا:
خراج موظف قبل ازوقت نکالنا درست ہے،جبکہ عشر اور خراج مقاسمہ کے حوالے سے درج ذیل تفصیل ہے:
فصل بونے سے پہلے عشر نکالنا درست نہیں،فصل اگنے کے بعد بالاتفاق درست ہے اور اگر فصل بونے کے بعد اگنے سے پہلے نکالا تو امام ابویوسف رحمہ اللہ کے نزدیک ادا ہوجائے گا،جبکہ امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک اداء نہیں ہوگا،راجح امام محمد رحمہ اللہ کا قول ہے۔
اسی طرح باغ میں پھول آنے کے بعد عشر نکالنا درست ہے،جبکہ اس سے پہلے نکالنا درست نہیں۔"بدائع الصنائع " (2/ 54)
پیداوار کی بجائے اس کی قیمت دینا:
عشروخراج دونوں میں مالک کو اختیار ہے،چاہے تو پیداوار کی جنس میں سےدے اور چاہے تو اس کی قیمت دے۔"رد المحتار" (2/ 332)
رہائشی مکان کے باغ میں عشر وخراج:
اگر رہائشی پلاٹ کو مستقل باغ بنالیا تو اس میں عشر وخراج لازم ہوگا،اگر اس کے قریب عشری زمینیں ہوں تو عشر لازم ہوگا،اگر خراجی ہوں تو خراج لازم ہوگا اور اگر دونوں سے فاصلہ برابر ہو تو پھر بھی عشر لازم ہوگا،لیکن اگر باقاعدہ باغ میں تبدیل نہیں کیا،بلکہ رہائش رکھتے ہوئے صحن میں باغ لگایا تو اس میں عشر یا خراج لازم نہیں ہوگا۔"رد المحتار" (4/ 185)
مغصوبہ زمین میں خراج کا حکم:
غصب کی گئی خراجی زمین کا خراج کس پر لازم ہے ؟اس کے حوالے سے تفصیل درج ذیل ہے:
اگر غاصب غصب سے انکاری ہو اور مالک کے پاس غصب پر شرعی شہادت یعنی دو مردوں یا ایک مرد اور دوعورتوں کی گواہی بھی نہ ہو اور مالک نے پورے سال میں اس زمین سے ایک بار بھی فصل حاصل نہ کی ہو،تو مالک پر خراج نہیں ہوگا،اگر غاصب نے کاشت کی ہو تو اس پرخراج لازم ہوگا ،ورنہ اس پر بھی نہیں ہوگا۔
اگر غاصب غصب کو تسلیم کرتا ہو،یا وہ منکر ہو،لیکن مالک کے پاس شرعی شہادت موجود ہو تواس صورت میں مالک کے ذمے خراج لازم ہونے میں اختلاف ہے،بعض کے نزدیک مالک پر ،جبکہ بعض کے نزدیک غاصب پرلازم ہوگا۔
حضرت مفتی رشید احمد رحمہ اللہ نے دونوں اقوال میں یوں تطبیق بیان فرمائی ہے کہ اگر مالک نے محض اپنی غفلت اور لاپروائی کی وجہ سے زمین حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی تو اس پر خراج لازم ہوگا اور اگر اس نے پوری کوشش کی ،لیکن عدالت کی لاپروائی کی وجہ سے زمین واپس اس کے قبضے میں نہیں آسکی تو پھر مالک پر خراج لازم نہیں ہوگا،کیونکہ کسی انسان کا کاشت سے روکنا مسقط خراج ہے تو غصب کی وجہ سے کاشت سے عاجز ہونا بطریق اولی مسقط خراج ہوگا۔(احسن الفتاوی:3/368)"رد المحتار" (2/ 333)
مغصوبہ زمین میں خراج مقاسمہ اور عشر کا حکم:
عشر اور خراج مقاسمہ کا مدار چونکہ پیداوار پر ہوتا ہے،اس لیے زمین کے مالک پر یہ لازم نہیں ہوں گے،بلکہ غاصب نے اگر کاشتکاری کی ہو تو اس پر لازم ہوں گے ،بشرطیکہ غاصب مسلمان ہو،اگر کافر ہو تو خراج مقاسمہ تو اس پرلازم ہوگا،لیکن عشر ایسی صورت میں ساقط ہوجائے گا۔
واضح رہے کہ یہ حکم اس صورت میں ہے کہ جب غاصب کے کاشت کرنے سے زمین کو کوئی نقصان نہ پہنچاہو،اگر کاشت کی وجہ سے زمین کو نقصان پہنچا ہو تو مالک اس سے اس کا ضمان وصول کرے گا اور یہ ضمان امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اس زمین کے کرایہ کے بمنزلہ ہوگا،لہذا عشر وخراج مالک کے ذمے لازم ہوگا،لیکن اجارے کی صورت میں عشر اور خراج کس کے ذمے لازم ہوگا،اس حوالے سے مسئلہ پہلے لکھاجاچکا،اس کے مطابق بہر صورت عشر وخراج غاصب پر ہی لازم ہوگا،اگرچہ مالک نقصان کا ضمان وصول کرلے۔"رد المحتار "(2/ 333)۔"المحيط البرهاني في الفقه النعماني "(2/ 331)
عشر نکالنے کے بعد پیداوار فروخت کی تو اس رقم پر زکوۃ کا حکم:
پیداوا کا عشر الگ فرض ہے اور پیداوار فروخت کرنے کے نتیجے میں حاصل ہونے والی رقم پر زکوۃالگ سے فرض ہے،اس لیے پیداوار فروخت کرنے کے نتیجے میں حاصل ہونے والی رقم کا بھی سال گزرنے کے بعد دیگر اموال زکوۃ کے ساتھ حساب کیا جائے گا ۔"الفتاوى الهندية "(1/ 175):
تجارت کی نیت سے خریدی گئی عشری یاخراجی زمین کا حکم:
ایسی زمین پر زکوۃ لازم نہیں ہوگی،بلکہ اس کی پیداوار میں عشریا خراج لازم ہوگا۔"البحر الرائق " (2/ 225)۔
مفتی محمد
رئیس دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی