03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
حرام چیزیں فروخت کرنے والے اسٹور میں ملازمت کا حکم
85784اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلملازمت کے احکام

سوال

میں انگلینڈ میں ایک ا سٹور پر ملازمت کرتا ہوں ۔یہاں 95 فیصد حلال چیزیں فروخت کی جاتی ہیں مثلا روزمرہ کی خورونوش کی اشیاء، چاکلیٹس، سافٹ ڈرنکس وغیرہ۔اس کے ساتھ یہاں لاٹری ٹکٹ اور اسکریچ کارڈ(scratch card) بھی فروخت کیے جاتے ہیں۔اور کچھ ایسی چیزیں جس میں سور کا گوشت بھی شامل ہوتا ہیں۔                                              
1.           کیا میرے لیے یہاں ملازمت جائز ہے؟

 2.           کیا لاٹری ٹکٹ اور سکریچ کارڈ بیچنے کی اجرت جائز ہے؟

تنقیح: سائل نے بتایا  کہ ملازمت کے دوران مجھے حلال وحرام دونوں طرح کی چیزیں  بیچنی پڑتی ہیں اور حرام چیزیں  بیچنے سے   بچنا میرے لیے ممکن نہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسؤلہ میں چونکہ   حلال وحرام دونوں  طرح کی چیزیں بیچنے کی نوبت آتی ہے اس لیے موجودہ حالت میں یہ ملازمت جائز نہیں ،تاہم اگر ممکن ہوتو اپنی ملازمت کو صرف حلال اشیاء کی فروخت تک محدود کروالیں ،ممکن نہ ہو تو  ایسی صورت میں کسی مکمل حلال کام کی ملازمت کےلیے کوشش کریں ،جب تک دوسری نوکری نہ ملے اس کو حرام سمجھ کرکرے اور بقدرِ حرام اُجرت صدقہ  کردیں ۔

یادرہے کہ جن چیزوں کی خرید وفروخت ناجائز ہو ،ان کے بیچنے پر ملنےوالی اجرت بھی جائز نہیں ہوگی۔لہذا جس طرح لاٹری ٹکٹ اور اسکریچ  کارڈ کی خرید وفروخت قمار ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے، اسی طرح ان کے بیچنے کی اجرت بھی جائز نہیں اور اس کا صدقہ کرنا لازم ہے۔آسانی کے لیے جتنا  وقت حرام خریدوفروخت میں صرف ہو،اتنی تنخواہ کی مقدار صدقہ کیا کریں۔

حوالہ جات

قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ : (والثاني) وهو الأجير (الخاص) ويسمى أجير وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة ،أو) شهرا (لرعي الغنم) المسمى بأجر مسمى. ( رد المحتار :6/ 69)

قال العلامة الكاساني رحمه اللہ:  ‌الاستئجار على المعاصي أنه لا يصح ؛لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الاستيفاء شرعاً. (بدائع الصنائع :4/ 189)

و في الفتاوى الهندية:وأما شرائط الصحة. . .ومنها أن يكون مقدور الاستيفاء حقيقة أو شرعا ،فلا يجوز استئجار الآبق ولا الاستئجار على المعاصي؛ لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الاستيفاء شرعا. (الفتاوى الهندية:4/ 411)

قال العلامة ابن عابدين رحمه اللہ: قوله: (لأنه يصير قمارا)؛لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه ،وهو حرام بالنص. (رد المحتار :6/ 403)

وقال الشیخ المفتی محمد تقی العثماني حفظ اللہ: العمل في مطاعم الكفار إنما يجوز بشرط أن لا يباشر المسلم سقي الخمر، أو تقديم الخنزير، أو المحرمات الأخرى.  (بحوث في قضايا فقهية معاصرة،ص:341)

وقال الشیخ حفظ اللہ في موضع آخر:والحاصل أن الإجارة في الخدمة المباحة إنما تصح إذا كانت أجرتها معلومة بانفرادها. ولا تصح فيما إذا لم تكن أجرتها معلومة. فإن كان كذلك في خدمات الفنادق والمطاعم والبنوك وشركات التأمين، صارت أجرة الموظف فيها مركبة من الحلال والحرام... أما إذالم تعرف أجرة الخدمة المباحة على حدتها، فالإجارة فاسدة، ولكن الأجير يستحق أجر المثل في الإجارات الفاسدة وعلى هذا ، فإن ما يُقابل أجر المثل للخدمة المباحة فى راتبه ينبغى أن يكون حلالاً.(فقہ البیوع:2/1058)

محمدشوکت

دارالافتاءجامعۃ الرشید،کراچی

04/جمادی الثانیۃ1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمدشوکت بن محمدوہاب

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب