03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عشروخراج کےاحکام(پہلاحصہ)

عشر وخراج کی تعریف:

عشر وخراج دراصل دو اصطلاحات ہیں،دونوں میں مشترکہ بات یہ ہے کہ ان کا اطلاق اسلامی حکومت کی طرف سے زمین کی پیداوار پر عائد کئے گئے ٹیکس پر ہوتا ہے،البتہ خراج صرف ٹیکس ہے،جبکہ عشر میں عبادت کا پہلو بھی موجود ہے،اسی وجہ سے عشر مسلمانوں کے ساتھ خاص ہے۔

عشری زمین کی تعریف:

درج ذیل دو قسم کی زمینیں متفقہ طور پر عشری کہلاتی ہیں:

1۔وہ ملک جو صلحاً فتح ہواور وہاں کے لوگ بھی مسلمان ہوگئے ہوں ،جیسے مدینہ طیبہ کی زمین۔

2۔وہ ملک جو جہاد کے ذریعے فتح ہوا ہو اور امیرالمؤمنین نےوہاں کی زمین مجاہدین میں تقسیم کردی ہو،جیسے خیبر کی زمین۔"الدر المختار " (4/ 176)

خراجی زمین کی تعریف:

درج ذیل دو قسم کی زمینیں خراجی کہلاتی ہیں:

1۔ اس ملک کی زمین جو صلحاً فتح ہوا ،لیکن وہاں کے لوگ مسلمان نہیں ہوئے،بلکہ صلح اس طور پر ہوئی کہ وہ لوگ اپنے مذہب پر رہیں گے اور وہاں کی زمینیں بھی انہی کی ملکیت میں رہیں گی ۔

2۔ اس ملک کی زمین جو جہاد کے ذریعے فتح ہوا،لیکن فتح کے بعد امام المسلمین نے وہاں کی زمینوں کو بدستور سابقہ مالکان کی ملکیت میں رکھاہو،جیسے  شام،عراق اور مصر کی  زمینوں کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہی معاملہ فرمایا۔

3۔ ایسی زمین جو ملک فتح ہوتے وقت کسی کی ملکیت نہ ہو،نہ قابل زراعت ہو،بلکہ بعد اسلامی امیر کی اجازت سے غیر مسلموں نے اسے زراعت کے قابل بنایا ہو ۔ "الدر المختار " (4/ 176)

مختلف فیہ زمین:

ایسی زمین جو ملک فتح ہوتے وقت کسی کی ملکیت نہ ہو،نہ قابل زراعت ہو،بلکہ بعدمیں امیر کی اجازت سےذمی نے آباد کیا ہو وہ زمین خراجی ہوگی اور اگر مسلمانوں نے  اسے زراعت کے قابل بنایا ہو تو امام ابویوسف رحمہ اللہ کے نزدیک اس کے عشری یا خراجی ہونے کا مدار اس کے آس پاس کی زمینوں پر ہوگا،اگر قرب وجوار کی زمینیں عشری ہیں تو یہ بھی عشری ہوگی اور اگر قرب وجوار کی زمینیں خراجی ہیں تو یہ بھی خراجی ہوگی،اگر دونوں کے درمیان میں ہو تو عشری ہوگی۔

جبکہ امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک اس کا مدار پانی پر ہوگا،یعنی اگر عشری پانی سے سیراب کیا جاتا ہے تو عشری ہوگی اور اگر خراجی پانی سے سیراب کیا جاتا ہے تو خراجی ہوگی۔

علامہ شامی رحمہ اللہ نے امام ابویوسف رحمہ اللہ کے قول کو ترجیح دی ہے۔"الدر المختار " (4/ 184)

مکہ مکرمہ کی سرزمین:

مذکورہ بالا اصولوں کے مطابق مکہ مکرمہ کی زمین خراجی ہونی چاہیے،کیونکہ مکہ مکرمہ قہراً فتح ہوا اور حضور نے مکہ کی سرزمین کو مجاہدین میں تقسیم 111نہیں فرمایا،بلکہ وہاں کے لوگوں کی ملکیت میں برقرار رکھا،لیکن احترام حرم کی وجہ سے حضور نے اسے عشری قراردیا۔"رد المحتار" (4/ 176)

بصرہ کی زمین:

بصرہ کا شہر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں مسلمانوں نے بسایا،اس سے پہلے یہاں کی زمین غیر آباد تھی اور اس قرب وجوار میں خراجی زمینیں تھیں،لہذا امام ابویوسف کے راجح قول کے مطابق یہ زمین خراجی ہونی چاہیے تھی،لیکن باجماع صحابہ اسے عشری قرار دیا گیا۔"رد المحتار" (4/ 176)

عشری وخراجی پانی سے کیا مراد ہے؟

بارش کا پانی،کنوؤں،قدرتی چشموں،بڑے دریاؤں اور ندیوں کا پانی جو قدرتی طور پر جاری ہے،نہ وہ کسی کی ملکیت ہے اور نہ اس کے اجراء میں کسی کا عمل دخل ہے،جیسے عراق میں دجلہ وفرات،مصر میں دریائے نیل،خراسان میں دریائے سیحون وجیحون،ہندوستان میں گنگا اور جمنا اور پنجاب کے تمام بڑے دریا ،ان سب کا پانی عشری ہے،جبکہ ان کے علاوہ ایسی نہریں جن کے اجراء میں حکومت یا کسی اور کا عمل دخل ہوتا ہےاور عام طور پر وہ ان کے جاری کرنے والوں کی ملک ہوتی ہیں،ان کا پانی خراجی پانی کہلاتا ہے۔"رد المحتار" (4/ 185)

اراضی پاکستان میں عشر وخراج:

1۔غیر مسلموں کی متروکہ زمینیں جو حکومت پاکستان نے مسلم مہاجرین میں تقسیم کردی تھیں،سب عشری ہیں،کیونکہ تقسیم کے بعد یہ زمینیں سرکار کی ملکیت بن گئی تھیں،جو مسلمانوں میں تقسیم کی گئیں۔

2۔وہ زمینیں جو قیامِ پاکستان سے پہلے غیر آباد تھیں،پھر انگریزی حکومت نے قابل زراعت بناکر لوگوں میں تقسیم کردیں،ان میں جو اراضی مسلمانوں کے حصے میں بالعوض یا بلاعوض آئیں وہ سب عشری ہیں۔

3۔وہ زمینیں جو قیام پاکستان کے بعد حکومت نےآب رسانی کے ذرائع مہیا  کرکے مسلمانوں کو بالعوض یا بلاعوض دیں اور وہ قدرتی دریاؤں سے سیراب ہوتی ہیں یہ بھی عشری ہیں،کیونکہ ان پر بھی ابتدائی ملکیت مسلمانوں کی آئی۔

4۔وہ زمینیں جو غیر مسلموں کی ملک ہیں وہ خراجی ہوں گی۔

5۔وہ زمینیں جو قیام پاکستان سے پہلے سے مسلمانوں کے پاس ہیں،ان کے عشری یا خراجی ہونے کا مدار اس تحقیق پر ہے کہ مشترکہ ہندوستان کی اسلامی فتوحات کے وقت ان زمینوں کی کیا حیثیت تھی؟جس کی درج ذیل چار صورتیں بنتی ہیں:

(1)اگر اس وقت فتح کے بعد یہ زمین کسی مسلمان کو دی گئی تو عشری ہوگی ۔

(2)اگر فتح کے بعد قدیم ہندو مالک کی ملکیت کو برقرار رکھ کر خراج عائد کیا گیا اور اس کے بعد کسی جائز سبب کی وجہ سے یہ کسی مسلمان کی ملکیت میں آگئی تو خراجی ہوگی۔

(3)اگر فتح کے وقت غیر آباد تھی،پھرکوئی مسلمان حکومت کی اجازت سے اسے قابل کاشت بناکر اس کا مالک بنا تو عشری ہوگی۔

(4)اگر کوئی غیر مسلم اسےقابل کاشت بنا کر اس کا مالک بنا اور اس پر خراج لگایا گیا،پھر بعد میں کسی جائز سبب سے اس کی ملکیت مسلمانوں کی طرف منتقل ہوگئی تو ایسی زمین خراجی ہوگی۔

لیکن ظاہرہے کہ ہر زمین کے بارے میں آج سے  صدیوں پہلے کی صحیح حیثیت معلوم کرنا تقریبا ناممکن ہے،لہذا جن اراضی کے متعلق اس حوالے سے کافی ثبوت موجود نہیں کہ وہ ابتداء میں کسی ہند و کی ملکیت تھی،پھر اس سے خرید کر یا کسی دوسری جائز صورت سے مسلمانوں کی ملکیت میں آئی ہے،انہیں درج ذیل وجوہ کی وجہ سے استصحاب حال کی بنیاد پر اول ہی سے مسلمانوں کی ملکیت قرار دے کر عشری سمجھا جائے گا:

1۔فتح کے وقت بہت سے لوگوں کا مسلمان ہوجانا تاریخ کی معتمد کتابوں سے ثابت ہے۔

2۔اسلامی فتوحات کے بعد بہت سےشہر اور بستیاں اسلامی حکومت کی اجازت سے مسلمانوں نے بسائیں اور انہیں سندھ و پنجاب کے بڑے دریاؤں کے پانی سے سیراب کیا جاتا تھا،جیسا کہ پنجاب میں تھل اور  سندھ میں کوٹری بیراج اور اس کے علاوہ اندرون سندھ وپنجاب کے وہ بہت سے علاقے جو قیام پاکستان کے بعد حکومت نے آباد کیے اور مسلمانوں میں قیمتا یا بلاقیمت تقسیم کردیئے۔

3۔سندھ کا علاقہ پہلی صدی ہجری کے آخر میں فتح ہوا ہے،جس کو اب چودہ سو سال سے زائد ہوگئے ،اس دوران ان زمینوں نے کیا کیا انقلابات دیکھے؟ اس کا حقیقی علم تو اللہ ہی کو ہے،عین ممکن ہے جو زمینیں اس وقت ہندو مالکان کے قبضے میں بدستور رکھی گئی ہوں،کچھ عرصہ بعد یہ زمینیں غیر آباد اور لاوارث ہوکر اسلامی حکومت کے قبضے میں آگئی ہوں اور پھر سرکار نے کسی مسلمان کو مالکانہ حیثیت سے دے دی ہوں۔

حاصل یہ کہ سندھ وپنجاب یا اس کے علاوہ دیگر علاقوں کی جو زمینیں نسل در نسل مسلمانوں کی ملکیت چلی آرہی ہیں،کسی غیر مسلم سے خریدے جانے کو کوئی ثبوت موجود نہیں تو بطور استصحاب حال ان زمینوں کو پہلا مالک مسلمان ہی قرار دیا جائے گا،اگرچہ اس علاقے کی عام زمینوں کے حوالے سے یہ مشہور ہو کہ اس کی زمینیں اول فتح کے وقت غیر مسلم مالکان  کی ملکیت میں رکھی گئیں تھیں،کیونکہ مذکورہ بالا صورتوں کے ذریعے ان علاقوں میں بھی زمین کا ابتداء میں مسلمان کی ملکیت میں آنا ممکن ہے۔

وجوبِ عشر کی شرائط:

1۔مسلمان ہونا،کیونکہ عشر کی ایک حیثیت عبادت کی بھی ہے،جبکہ کافر عبادت کا اہل نہیں۔

2۔زمین کا عشری ہونا،خراجی زمین پر عشر واجب نہیں ہوتا۔

3۔پیداوار کا حصول،لہذا اگر پیداوار نہ ہو تو عشر واجب نہ ہوگا۔

4۔پیداوار کسی ایسی چیز کی ہوجسے کاشت کرکے اس سے نفع اٹھانے کارواج ہو،خودروگھاس یا بیکار قسم کے خودرو درخت اگر کسی زمین میں اگ جائیں تو ان پر عشر واجب نہیں،البتہ اگر ایسی چیزوں کو آمدنی کی غرض سے باقاعدہ اگایا گیا ہو تو پھر ان میں عشر لازم ہوگا۔"الفتاوى الهندية "(1/ 185)

تنبیہ:

عام طور پر دیگر احکام شرعیہ میں عقل اور بلوغت کی شرط ملحوظ ہوتی ہے،لیکن عشر کے وجوب کے  لئےعقل اور بلوغت شرط نہیں،بلکہ نابالغ اورمجنون  کی زمین کی پیداوار پر بھی عشر لازم ہے۔

اسی طرح عشر لازم ہونے کے لیے زمین کا مالک ہونا بھی ضروری نہیں،بلکہ پیداوار کا مالک ہونا کافی ہے،لہذادوسرے کی زمین پر لگائی گئی پیداوار اور وقف زمین کی پیداوار پر بھی عشرلازم ہوگا۔"الفتاوى الهندية" (1/ 185)۔"بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع "(2/ 56)

وجوب ِعشر کا نصاب:

امام اعظم امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مفتی بہ قول کے مطابق وجوب عشر کے لیے کوئی نصاب متعین نہیں،بلکہ زمین سے جتنی بھی پیداوار نکلےاس کا عشر نکالنا لازم ہے۔"بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع "(2/ 59)

مقدارِ واجب:

لفظ عشر کے لغوی معنی دسواں حصہ ہے،لیکن حدیث میں حضور علیہ السلام نے عشری زمین کے حوالے سے جو تفصیل واجباتِ شرعیہ کی ذکر فرمائی ہے اس کے لحاظ سے عشری زمین کی دو قسمیں ہیں:

(1)وہ زمین جو بارش ،دریا یا قدرتی چشموں کے پانی سے خود بخود سیراب ہوتی ہو،اس کی پیداوار میں عشر لازم ہوتا ہے۔

(2)وہ زمین جسے خود سیراب کرنا پڑتا ہو ،اس کی پیداوار میں نصف عشر یعنی بیسواں حصہ لازم ہوتا ہے۔

 (3)اگر کوئی زمین بارش کے پانی سے بھی سیراب ہوتی ہے،لیکن اسے ٹیوب ویل سے بھی سیراب کرنے کی ضرورت پڑتی ہو تو اس میں اکثر کا اعتبار کیا جائے گا،اگرسال کا زیادہ تر عرصہ بارش کے پانی  سےسیراب ہوتی ہو تو عشر لازم ہوگا،ورنہ نصف عشر۔

 (4)اگر دونوں سے برابر سرابر سیراب ہوتی ہوتو پھر نصف عشر لازم ہوگا۔"بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع" (2/ 62)

عشرکی ادئیگی کے جواز کا  وقت:

وقت کے اعتبار سے عشر کی ادائیگی کی تین صورتیں بنتی ہیں:

1۔جب کھیتی اُگ جائے اور باغ میں پھول آجائیں تو وجوبِ عشر کا سبب وجود میں آجاتا ہے،اس صورت میں بالاتفاق عشر دینا جائز ہوجاتا ہے۔

2۔زراعت یعنی بیج بونے سے پہلے سببِ وجوب وجود میں ہی نہیں آتا،اس لئے بالاتفاق عشر نکالنا جائز نہیں ہوتا۔

3۔بیج بودیئے،مگر کھیتی ابھی اگی نہیں تو اس میں اختلاف ہے،راجح یہ ہے کہ عشر نکالنا جائز نہیں،اس لیے فصل بونے سے پہلے یا بونے کے بعد اُگنے سے پہلے عشر نہ دیا جائے،البتہ فصل میں کھیتی اگنے اور باغ میں پھول لگنے کے بعد پیداوار کا اندازہ لگاکر نقدی یا کسی اور جنس سے اس کا عشردینے سے ادا ہوجائےگا۔"بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع" (2/ 54)"الفتاوى الهندية" (1/ 186)

عشر کے وجوبِ اداء کا وقت:

مذکورہ بالا مسئلہ سبب وجوب سے متعلق تھا کہ سبب وجوب کب متحقق ہوگااور اس کی بناء پر عشر اداء کرنا جائز ہوجائے گا؟رہی یہ بات کہ عشر کی ادائیگی کب لازم ہوتی ہے تو اس میں فقہاء احناف  کا اختلاف ہے،چنانچہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک جب پیداوار قابل انتفاع ہوجائے اور آفات سے مامون ہوجائےتو عشر کی ادائیگی لازم ہوجاتی ہے،اگرچہ فصل ابھی پک کر تیار نہ ہوئی ہو،جبکہ امام ابویوسف رحمہ اللہ کے نزدیک جب پیداوار پک کر کاٹنے کے قابل ہوجائے تب عشر کی ادائیگی لازم ہوتی ہے اور امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک جب پیداوار کو کاٹ کرسوکھنے کے پھیلادیا جائے،یا بوریوں میں ڈال دیا جائے اس وقت عشر کی ادائیگی لازم ہوگی،امام صاحب کا قول احوط،جبکہ امام محمد رحمہ اللہ کا قول اوسع ہے۔

مذکورہ اقوال میں سے کسی ایک قول کے مفتی بہ یا راجح ہونے کی تصریح کتب فقہ میں تلاش کے باوجود نہیں مل سکی۔"الدر المختار " (2/ 331)

کاشتکاری کے اخراجات منہاکیے بغیر عشر نکالاجائے:

مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق عشر لازم ہو یا نصف عشر مکمل  پیداوار سے نکالا جائےگا،کاشت کاری پر جو اخراجات آئے ہیں وہ نہیں نکالے جائیں گے۔ "بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع "(2/ 62):

عشر کے مصارف:

عشر کے بھی وہی مصارف ہیں جو زکوۃ کے مصارف ہیں،نیزجس طرح زکوۃ میں کسی مستحق کو مالک بنانا ضروری ہے،اسی طرح عشر میں بھی کسی مستحق کو اس کا مالک بناکر دینا ضروری ہے۔"الدر المختار " (4/ 193)

مفتی محمد 

رئیس دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی