85768 | ہبہ اور صدقہ کے مسائل | ہبہ کےمتفرق مسائل |
سوال
ہمارے والد صاحب نے اپنی زندگی میں اپنے مال اور جائیداد کے پانچ حصے کیے چار حصے اپنے چار بیٹوں کو دیے اور پانچواں حصہ خود لیا اور بعد میں اپنا حصہ اپنی دو نابالغ بیٹیوں(جوکہ دوسری بیوی سے ہیں اور ان کا سگا بھائی نہیں ہے)کو دیا اور ثبوت کے لیے خط لکھے اور خط گاؤں کے مسجد لےکر گئے ان پر گاؤں کے مفتی صاحب کے دستخط اور ایک خاندان کے شخص کا دستخط ہے اور کئی لوگوں کے سامنے بھی اقرار کیا اور والد صاحب خود آمدنی وصول کرتے رہے اور ان پر خرچ کر تے اور بیٹیوں کے بالغ ہونے سے پہلے ہی انتقال کر گئے اور والد کے بعد بچیوں کی والدہ آمدنی وصول کرتی اور ان پر تقریباً بیس بائیس سال تک خرچ کر تی رہی اب زمین بیچنے کی بات ہے تو دو سوتیلے بھائیوں کا مطالبہ ہے کہ اس میں بھی ہم سب کا حصہ ہے کیا ان کا یہ مطالبہ صحیح ہے۔ یہ سوال بلقیس اور ان کی والدہ کی طرف سے ہیں۔ خط درج ذیل ہے:
میں حاجی شہر یار خان ولد غلام صدیق خان مرحوم بحواس خمسہ اقرار واعتراف شرعی کرکے لکھتا ہوں کہ میں نے اپنی اولاد پر تقسیم شرعی کرکے ان سے پانچواں حصہ برابر لے لیا۔ میری دو لڑکیاں مسمیان بی بی سہارہ اور بی بی بلقیس ہےاگر بیٹوں سے ان کا حصہ طلب کرتاہوں تو وہ ناراض ہوجاتے ہیں اس لیے میں نے اپنا پانچواں حصہ مذکورہ بیٹیوں کودے دیا جو کہ شرعی طور پر ان کا حصہ بن جاتاہے۔لہذا میں نے اپنا پانچواں حصہ بی بی سہارہ اور بی بی بلقیس کو بآیۃ "للذکر مثل حظ الانثیین" بطریق ملکیت دے دیا ہے۔زمین کی تفصیل درج ذیل ہے:
- ادھ میرے شالیزارہ اننگو ڑ میں ہے جس کی حدودات درج ذیل ہے:
شمالا : زمین شاہ واللہ خان مرحوم۔
جنوبا: زمین سلطان زیب ومحمد زیب۔
شرقا: جواردارہ زمین خود ودربارک بخت خان۔
غربا: غنی زمین گل خان۔
- محمد زیب کے ساتھ سپر ہائی میں آدھا حصہ جن کی حدودات درج ذیل ہے:
شمالا:راہ عام۔
جنوبا: زمین عزیز الرحمان خان۔
شرقا: زمین شیر زمان خان۔
غربا: جواردار زمین غلام حیدر خان۔
تحریر ہوگیا کہ اس پر میرا اور اولاد کا کوئی دعوی نہیں ہوگا۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
سوال میں فراہم کی گئی معلومات حقیقت پر مبنی ہونے کی صورت میں سوتیلے بھائیوں کا بہنوں کی زمین میں حصے کا مطالبہ جائز نہیں۔
حوالہ جات
لا تجوز الهبة إلا محوزة مقسومة مقبوضة يستوي فيها الأجنبي والولد إذا كان بالغاً، وقوله لا يجوز: لا يتم الحكم، فالجواز ثابت قبل القبض باتفاق الصحابة، والقبض الذي يتعلق به تمام الهبة . )البحر الرائق:(238/6
وهبة الأب لطفله تتم بالعقد ولا فرق في ذلك بينما إذا كان في يده أو في يد مودعه بخلاف ما إذا كان في يد الغاصب أو في يد المرتهن أو في يد المستأجر حيث لا تجوز الهبة لعدم قبضه، وكذا لو وهبته أمه وهو في يدها والأب ميت وليس له وصي، وكذا كل من يعوله.(الفتاوى الهندية:(391/4
(وهبة من له ولاية على الطفل في الجملة وهو كل من يعوله فدخل الأخ والعم عند عدم الأب لو في عيالهم تتم بالعقد لو الموهوب معلوما وكان في يده أو يد مودعه، لأن قبض الولي ينوب عنه، والأصل أن كل عقد يتولاه الواحد يكتفى فيه بالإيجاب) قوله: على الطفل. فلو بالغا يشترط قبضه، ولو في عياله ...قوله: معلوما.قال محمد رحمه الله : كل شيء وهبه لابنه الصغير، وأشهد عليه، وذلك الشيء معلوم في نفسه فهو جائز، والقصد أن يعلم ما وهبه له، والإشهاد ليس بشرط لازم لأن الهبة تتم بالإعلام. (الدر المختار مع رد المحتار694/5:)
انس رشید ولد ہارون رشید
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
/5جمادی الثانیۃ1446 ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | انس رشید ولد ہارون رشید | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |