85894 | طلاق کے احکام | تحریری طلاق دینے کا بیان |
سوال
ایک آدمی نے اپنے بیوی کو الگ الگ مجالس میں آپس میں گھریلو بدمزگی کے دوران درج ذیل جملے کہے:
(1) میں تجھے طلاق دوں گا، ایک دو تین اور اس نے یہ کئی بار کہا۔
(2) تو مجھ سے آزاد ہے، دوسرا شوہر کر سکتی ہو۔
(3) تم مجھے چھوڑو میں نےتمہیں چھوڑدیا ہے۔جھگڑے میں کہا۔
(4) میرے اور آپ کے تمام رشتے ختم۔
(5) میری اور آپ کی بات ختم ہو چکی ہے، صرف بچہ باقی ہے۔
یہ سب کچھ کہنے کے بعد بیوی کا بیان ہے کہ شوہر نے فون کرکے بیوی کو بتایا کہ "اگر چہ میں نے یہ سب کچھ کہہ کر اپنے آپ کو گناہ میں مبتلا کیا ہے، لہذا آپ بھی گناہ کی پرواہ کئے بغیر ان باتوں کاانکار کریں" جبکہ بیوی کا کہنا ہےکہ شوہر نے مجھے ان الفاظ کے ساتھ یقینی طور پر مخاطب کیا ہےاور اب وہ ان باتوں سے بظاہر انکار کی کوشش کررہا ہے،لہذا مہربانی فرماکر رہنمائی فرمائیں کہ مذکورہ صورتِ حال میں طلاق واقع ہوچکی یا نہیں؟ اگر واقع ہوچکی ہے تو کتنی طلاقیں ہوئی؟نیز شوہر کا ان باتوں کو بیوی کے سامنے تسلیم کرنے کے باوجود انکار کرنے کی صورت میں میاں بیوی کے لیے کیا حکم ہے، جبکہ بیوی اس آدمی کے ساتھ دوبارہ رہنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
وضاحت: سائل نے بتایا کہ نمبر۲ سےنمبر۵ تک تمام جملے ایک ہی مجلس میں کہے گئے ہیں، اس سے دو ہفتے قبل شوہر نےاپنی بیوی سے موبائل فون پر کہا کہ"اگر تم اپنے گھر(خاوند کے گھر) پرسوں نہیں آئی توایک دو تین آپ کا قصہ ختم اور تم ہمیشہ کے لیے ماں کے گھر بیٹھی رہو"یہ ایک دو تین کے الفاظ ایک کال پر مختلف طریقوں سے70 بار سے زیادہ بولا اور بیوی اس مقررہ مدت کےاندرعورت خاوند کے گھر نہیں گئی ، اب وضاحت طلب یہ ہے کہ اس سے طلاق واقع ہو جاتی ہے یا نہیں ؟ جبکہ ایک سال کے دوران لڑکی کی عدت بھی مکمل ہو چکی ہے۔
پھر تقریباً ایک سال بعد خاوند نے بیوی سے فون پر کہا کہ میں نے آپ کو جو الفاظ کہے ہیں،آپ ان الفاظ سے مکر جاؤ اور میں جھوٹا قسم کروں گا کہ رشتہ واپس بحال ہو جائے، اگر تم میرے بولی گئی الفاظ سے نہیں مکر گئی اور میں جھوٹا قسم نہ کرو تو پھر "جومیں نے تم کو طلاق دی ہےیہ تم کو بھی پتہ ہے مجھے بھی" تو رشتہ کیسے بحال ہوگا؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
سوال میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق جب شوہر نے عورت کو فون پر متعدد بار یہ الفاظ غصے کی حالت میں کہے کہ "اگر تم اپنے گھر(خاوند کے گھر) پرسوں نہیں آئی توایک دو تین آپ کا قصہ ختم اور تم ہمیشہ کے لیے ماں کے گھر بیٹھی رہو" تو اسی وقت طلاق گھر نہ آنے کے ساتھ معلق ہو گئی تھی، اس کے بعد مقررہ مدت پر جب عورت گھر نہیں آئی تو اس پر تین طلاقیں واقع ہو کر حرمتِ مغلظہ ثابت ہو گئی اور اس کے بعد اسی حالت میں عورت سے رجوع یا بغیر حلالہ کے دوبارہ نکاح کرنا جائز نہیں رہا، نیز اس کے بعد خاوند نے سوال میں مذکورنمبر2تانمبر5 کے تحت جتنے کلمات کہے ہیں ان سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، کیونکہ تین طلاق کے بعد عورت کو کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ اور سوال میں تصریح کے مطابق چونکہ عورت کی عدت بھی ختم ہو چکی ہے، اس لیے اب عورت دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے۔
جہاں تک خاوند کے اپنی باتوں سے پیچھے ہٹنے کا تعلق ہے تو شرعاً اس کا کوئی اعتبار نہیں، اگرچہ وہ اس پر حلفیہ بیان بھی دیدے، کیونکہ عورت شرعی طور پر انہی الفاظ پر عمل کرنے کی پابند ہے جو اس نے شوہر سے سنے ہیں، لہذا مذکورہ صورت میں شوہر کے جھوٹی قسم اٹھانے سے بھی عورت شوہر کے لیے حلال نہیں ہو گی۔
نوٹ: مذکورہ صورت میں تین طلاق کا حکم اس لیے لکھا گیا ہےکہ شوہر کے الفاظ"ایک دو تین آپ کا قصہ ختم اور تم ہمیشہ کے لیے ماں کے گھر بیٹھی رہو" طلاق کے کنائی الفاظ سے تعلق رکھتے ہیں اور کنائی الفاظ میں ایک اور تین طلاق دونوں نیتیں درست ہوتی ہیں اور مذکورہ صورت میں شوہر نے تین کے عدد کی باقاعدہ صراحت کی ہے اور یہ الفاظ اس نے غصے کی حالت میں کہے ہیں، جس سے نیت ِطلاق ظاہر ہوتی ہے، اس لیے جواب میں تین طلاق کا حکم لکھا گیا ہے، چنانچہ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں حضرت مفتی محمود صاحب رحمہ اللہ نے بھی تین طلاق کا جواب صادر فرمایا تھا، عبارت ملاحظہ فرمائیں:
سوال: ایک شخص نے اپنی بیوی کو بحالت ناراضگی تین ڈھیلے اس کی طرف پھینک کر یہ الفاظ کہے کہ" ایک دو تین طلاق جاؤ تم خلاص ہو " اس میں ایک عالم نے یہ توجیہ کی ایک دو تین طلاق کے لفظ میں چوں کہ اضافت طلاق زوجہ کی طرف نہیں کی لہٰذا اس سے طلاق واقع نہیں اور جاؤ تم خلاص ہو مستقل جملہ ہے جس سے فقط ایک طلاق واقع ہوگی بعض کہتے ہیں کہ چوں کہ ڈھیلوں اس کی جانب پھینکنا دلالت قطعیہ ہے اضافت پر نیز خطاب بھی اس سے ہورہاہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ تین طلاق عورت مذکورہ پر ہی واقع کی ہیں، عوام الناس ایسے کلمات بول کر تین طلاق مراد لیتے ہیں اب پوچھنا یہ ہےکہ صورت مذکورہ میں عورت مغلظہ ہو چکی ہے یا کہ توجیہ مذکورہ کی وجہ سے ایک ہی طلاق سے مطلقہ ہوئی ہے۔"
جواب:صورت مسئولہ میں اضافت طلاق صاف اور بین طورپر موجود ہے جاؤ تم خلاص ہو کیا معنی رکھتاہے اسی طلاق کی تفسیر ہی تو ہے، یعنی اول عورت کی طرف ڈھیلے پھینک کر اس مطلب اور حاصل بیان کردیاکہ جاؤ تم خلاص ہو اب اور کیا اضافت چاہیے، پس صورت مسئولہ میں تین طلاقیں واقع ہوگئی بیوی مغلظہ ہوگئی ۔" (فتاوی مفتی محمود ،کتاب الطلاق،ج:6،ص:334،ط:جمعیۃ پبلیکیشنز)
حوالہ جات
الهداية في شرح بداية المبتدي (1/ 235) دار احياء التراث العربي – بيروت:
قال: " وبقية الكنايات إذا نوى بها الطلاق كانت واحدة بائنة وإن نوى ثلاثا كانت بثلاث وإن نوى ثنتين كانت واحدة بائنة وهذا مثل قوله أنت بائن وبتة وبتلة وحرام وحبلك على غلوبك الحقي بأهلك وخلية وبرية ووهبتك لأهلك وسرحتك وفارقتك وأمرك بيدك واختاري وأنت حرة وتقنعي وتخمري واستتري واغربي واخرجي واذهبي وقومي وابتغي الأزواج " لأنها تحتمل الطلاق وغيره فلا بد من النية.
الهداية في شرح بداية المبتدي (1/ 236) دار احياء التراث العربي – بيروت:
تصرف الإبانة صدر من أهله مضافا إلى محله عن ولاية شرعية ولا خفاء في الأهلية والمحلية والدلالة على الولاية أن الحاجة ماسة إلى إثباتها كيلا ينسد عليه باب التدارك ولا يقع في عهدتها بالمراجعة من غير قصد وليست بكنايات على التحقيق لأنها عوامل في حقائقها والشرط تعيين أطلاقحد نوعي البينونة دون الطلاق وانتقاص العدد لثبوت الطلاق بناء على زوال الوصلة وإنما تصح نية الثلاث فيها لتنوع البينونة إلى غليظة وخفيفة وعند انعدام النية يثبت الأدنى " ولا تصح نية الثنتين عندنا.
وفي البزازية قال لها: أنت طالق واحدة فقالت :هزار فقال :هزار فعلى ما نوى وإلا فلا شيء اهـ وهزار بالفارسية ألف، ولا يخالف هذا ما فهمناه؛ لأنها لم تأمره أن يجعله ألفا وإنما تعرضت تعريضا محتملا، وفيما نحن فيه أمر بأن يصيره ثلاثا فأجاب والجواب يتضمن ما في السؤال، كذا بخط شيخ مشايخنا السائحاني.
قلت: والذي يظهر أن قولها له" قل بالثلاث "أمر بإلحاق العدد بأول كلامه فلا يلحق كما لو تكلم بعد سكوته بلا طلب، نعم لو قال لها: أنت طالق فقالت طلقني بالثلاث فقال بالثلاث، فإنه لا شبهة في كونه جعلا وإنشاء لأنه جواب للطلب، وﷲ أعلم".
محمد نعمان خالد
دادالافتاء جامعة الرشیدکراچی
7/جمادی الاخری 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |