85884 | طلاق کے احکام | طلاق سے رجو ع کا بیان |
سوال
میری بیوی باہمی ناچاقی کی بنا پر اپنے والدین کے گھر چلی گئی، اس کے موبائل فون میں میرے نام کی سم تھی جو میں نے نکلوا کر اپنے موبائل فون میں ڈال لی اور استعمال کرنے لگا، میری بیوی کی سہیلیوں نے جب میری بیوی کے ساتھ رابطہ کیا تو وہ سم نمبر میرے پاس تھا، میں نے اپنی بیوی کی سہیلیوں سے کہا کہ میں نے اسے طلاق دے دی ہے لہٰذا آپ کسی اور ذریعے سے رابطہ کریں، اس واقعہ کے 6 ہفتے بعد میری بیوی گھر واپس آ گئی اور ہم بطورِ میاں بیوی رہنے لگے، تقریباً 3 ہفتے میرے پاس قیام کے بعد وہ واپس اپنے والدین کے ہاں چلی گئی، پھر میں نے فون کال پر اسے ایک بار طلاق دی، یہ واقعہ نومبر 2020ء کا ہے۔
عدت گزر جانے کے بعد میں نے اپریل یا مئی 2021ء میں اپنے سسرال رابطہ کیا کہ جہیز کا سامان اٹھا لیں تو انہوں نے کہا کہ آپ ہماری بیٹی کو تحریری طور پر طلاق نامہ دیں، چنانچہ جون 2021ء میں، لڑکی کے والدین کے مطالبہ پر اور قانونی تقاضے پورے کرنے کے لیے میں نے تحریری طلاق نامہ دیا،کیا اس صورت میں اس عورت کےساتھ میں دوبارہ اپنا گھر آباد کرسکتا ہوں ؟ اگر کر سکتا ہوں تو اس کا شرعی طریقہ کار کیا ہے؟
تنقیح: سائل نے استفسار پر وضاحت کی کہ باہمی ناچاقی کے وقت کسی بھی قسم کے طلاق کے الفاظ استعمال نہیں کیے،بعد میں بیوی کی صرف ایک سہیلی نے میسج کیا تو ان کو کہاتھا کہ میں نے اسےطلاق دے دی ہےجبکہ میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا اور نہ ہی بیوی کو یہ الفاظ کہے تھے،اس بات کی میں نےاسے خود خبربھی نہیں دی تھی، بلکہ سہیلی نے بتایا تھا کہ آپ کے شوہر سے رابطہ ہوا ہے اور وہ یہ کہہ رہا ہے، اور اس نے سکرین شاٹ بھی شئیر کیے تھے،البتہ فون پر بیوی کو جب طلاق دی تو یہ الفاظ کہے تھے کہ میں طاہر منیر ولد منیر احمد جاوید اپنے ہوش و حواس میں آپ کو طلاق دیتا ہوں، پھر عدت کے بعد قانونی تقاضے پورے کرنے کے لیے لفظ طلاق ہی لکھا گیا۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورتِ مسئولہ میں بیوی کی سہیلی کے رابطہ کرنے پر شوہر کے”میں نے اسے طلاق دے دی ہے“ کہہ کر جھوٹی خبر دینے سےدیانتا ًیعنی اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان اس معاملہ کے اعتبار سے طلاق واقع نہیں ہوئی،لیکن فقہاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے قول "المرأۃ کالقاضی" کےمطابق بیوی کو جب شوہر کی اس بات کامعتبر طریقے سےعلم ہو گیا، خصوصاً جبکہ شوہر اپنی اس بات سے منکربھی نہیں توبیوی اس کے ان ظاہری الفاظ سے اپنے لیے طلاق ہی کا حکم نافذ سمجھے گی، اس واقعہ کے 6 ہفتے بعد جب وہ میاں بیوی کےطور پر ایک ساتھ رہنے لگے تو پہلی طلاق سے رجوع درست ہو گیا،مگربعد جب شوہر نے فون کال پردوبارہ بیوی کو ایک طلاق دی تووہ طلاق بھی واقع ہو گئی اور عدت گزرنے سے بیوی بائنہ ہوگئی،البتہ عدت کے بعد بیوی کے بائنہ ہوکرمحلِ طلاق نہ ہونے کی وجہ طلاق نامہ پر طلاق لکھنے سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ، لہذا اب شوہر اور بیوی دونوں کی رضا مندی سے مہر ِجدید کے ساتھ دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے۔
لیکن واضح رہے کہ اس نکاح کے بعد شوہر کے پاس ایک طلاق کا حق تو دیانت وقضاء دونوں اعتبار سے ہوگا،جبکہ پہلی طلاق شوہر کے حق میں دیانتا واقع نہ ہونے کی وجہ سےاسےایک اور طلاق کاحق بھی دیانتا ہوگا،مگر بیوی شوہر کے لیے اس دوسری طلاق کے حق کا اعتبار نہیں کر سکتی ،لہٰذا آئندہ خدانخواستہ ایک طلاق بھی دی گئی تو بیوی اپنے آپ کو شوہر پر ہمیشہ کے لیے حرام سمجھے گی اوراسے شرعی حلالہ کے بغیر اس شوہر سے نکاح کرنا ناجائز ہوگا۔
حوالہ جات
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 100):
كونه جادا ليس بشرط فيقع طلاق الهازل بالطلاق واللاعب لما روي عن رسول الله - ﷺ- أنه قال : ثلاث جدهن جد وهزلهن جد النكاح والطلاق والعتاق، وروي النكاح والطلاق و الرجعة.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار:3/ 238،236):
ولو أقر بالطلاق كاذبا أو هازلا وقع قضاء لا ديانة. اهـ. ويأتي تمامه...(قوله أو هازلا) أي فيقع قضاء وديانة كما يذكره الشارح، وبه صرح في الخلاصة معللا بأنه مكابر باللفظ فيستحق التغليظ، و كذا في البزازية. وأما ما في إكراه الخانية: لو أكره على أن يقر بالطلاق فأقر لا يقع، كما لو أقر بالطلاق هازلا أو كاذبا فقال في البحر، وإن مراده لعدم الوقوع في المشبه به عدمه ديانة، ثم نقل عن البزازية و القنية لو أراد به الخبر عن الماضي كذبا لا يقع ديانة، وإن أشهد قبل ذلك لا يقع قضاء أيضا. اهـ. و يمكن حمل ما في الخانية على ما إذا أشهد أنه يقر بالطلاق هازلا ثم لا يخفى أن ما مر عن الخلاصة إنما هو فيما لو أنشأ الطلاق هازلا. وما في الخانية فيما لو أقر به هازلا فلا منافاة بينهما.
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (3/ 264):
وقيدنا بالإنشاء لأنه لو أكره على أن يقر بالطلاق فأقر لا يقع كما لو أقر بالطلاق هازلا أو كاذبا كذا في الخانية من الإكراه ومراده بعدم الوقوع في المشبه به عدمه ديانة لما في فتح القدير.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار:3/306، 251،230):
والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه. والفتوى على أنه ليس لها قتله، ولا تقتل نفسها بل تفدي نفسها بمال أو تهرب، كما أنه ليس له قتلها إذا حرمت عليه وكلما هرب ردته بالسحر. وفي البزازية عن الأوزجندي أنها ترفع الأمر للقاضي، فإنه حلف ولا بينة لها فالإثم عليه. اهـ قلت: أي إذا لم تقدر على الفداء أو الهرب ولا على منعه عنها فلا ينافي ما قبله...(قوله ومحله المنكوحة) أي و لو معتدة عن طلاق رجعي أو بائن غير ثلاث في حرة وثنتين في أمة أو عن فسخ بتفريق لإباء أحدهما عن الإسلام أو بارتداد أحدهما...الصريح يلحق الصريح و يلحق البائن بشرط العدة، والبائن يلحق الصريح ...(قوله بشرط العدة) هذا الشرط لا بد منه في جميع صور اللحاق، فالأولى تأخيره عنها. اهـ
الهداية في شرح بداية المبتدي (2/ 257):
" وإذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها " لأن حل المحلية باق ؛ لأن زواله معلق بالطلقة الثالثة فينعدم قبله ومنع الغير في العدة لاشتباه النسب ولا اشتباه في إطلاقه.
محمدعبدالمجیدبن مریدحسین
دارالافتاء جامعۃ الرشید ،کراچی
8/جمادی الثانیہ/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمدعبدالمجید بن مرید حسین | مفتیان | مفتی محمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |