03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میت سے متعلق کسی شخص کے بارے میں وصیت کا دعوی کرنا
85832میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

اگر کوئی بہن یا بھائی یا خاندان کا کوئی شخص والدہ کے توسط سے کہے کہ والدہ نے فلاں بیٹے یا بیٹی یا فلاں شخص کو کچھ دینے کا کہا تھا تو کیا ایسی بات قابل اعتبار سمجھی جائے گی یا وصیت کا تحریری ہونا لازمی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

پہلی بات تو یہ واضح رہے کہ وارث کے حق میں وصیت کا شرعا اعتبار نہیں ہوتا،لہذا اگر والدہ نے ورثا میں سے کسی کے حق میں وصیت کی بھی ہو تو شرعا اس کا اعتبار نہیں ہے،جبکہ ورثا کے علاوہ کسی اور کے حق میں وصیت جائز ہے،لیکن اگر ورثا میں اس کے حوالے سے اختلاف ہو تو جو وصیت کا دعویدار ہو اس کے ذمے اپنے دعوی کو دو نیک و صالح مردوں یا انہیں صفات کے حامل ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی سے ثابت کرے،اگراس نے گواہوں کے ذریعے اپنے دعوی کو ثابت کردیا تو اس وصیت کے مطابق عمل لازم ہوگا،لیکن اگر وہ اپنے دعوی کو گواہوں سے ثابت نہ کرسکے تو والدہ کے ورثا سے یوں قسم لی جائے گی کہ انہیں اس بات کا علم نہیں کہ ان کی مرحوم والدہ نےاس قسم کی کوئی وصیت کی تھی،اگر وہ اس طرح قسم اٹھالیں تو پھر دعوی کے عدم ثبوت کی وجہ سے اس وصیت کے مطابق عمل لازم نہیں ہوگا۔

حوالہ جات

"بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع" (7/ 337):

"(ومنها) أن لا يكون وارث الموصي وقت موت الموصي، فإن كان لا تصح الوصية لما روي عن أبي قلابة - رضي ﷲ عنه - عن رسولﷲ - صلى ﷲعليه وسلم - أنه قال «إن ﷲتبارك وتعالى أعطى كل ذي حق حقه، فلا وصية لوارث» وفي هذا حكاية، وهي ما حكي أن سليمان بن الأعمش - رحمه ﷲ تعالى - كان مريضا، فعاده أبو حنيفة – رحمہ ﷲ - فوجده يوصي لابنيه، فقال أبو حنيفة: - رحمہ ﷲ- إن هذا لا يجوز، فقال: ولم يا أبا حنيفة ؟فقال: لأنك رويت لنا أن رسولﷲ – صلىﷲ عليه وسلم - قال: «لا وصية لوارث» فقال سليمان – رحمهﷲ -: يا معشر الفقهاء أنتم الأطباء ونحن الصيادلة".

"الدر المختار " (5/ 552):

"(التحليف على فعل نفسه يكون على البتات) أي القطع بأنه ليس كذلك (و) التحليف (على فعل غيره) يكون (على العلم) أي إنه لا يعلم أنه كذلك لعدم علمه بما فعل غيره ظاهرا".

"البحر الرائق " (7/ 217):

"(قوله: وعلى العلم لو ورث عبدا فادعاه آخر) ؛ لأنه لا علم له بما صنع المورث فلا يحلف على البتات أطلقه فشمل ما إذا ادعاه ملكا مطلقا أو بسبب من المورث".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

08/جمادی الثانیہ1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب