85847 | طلاق کے احکام | صریح طلاق کابیان |
سوال
سوال: سلام۔ میں یہاں پورے واقعہ کی تفصیل بیان کروں گا۔ میرا نکاح 2021 میں ہوا۔رخصتی ہونا ابھی باقی ہے، ہم دونوں مختلف شہروں میں رہتے ہیں۔میں اپنی بیوی سے کئی بار اس کے گھر ملا ،لیکن ہمیشہ گیسٹ روم میں جو ہر کسی کے لیے آسانی سے قابل رسائی تھا۔ لوگ ہر وقت باہر ہوتے تھے اور کسی کے داخل ہونے کا خوف رہتا تھا، کیونکہ یہ ایک عام مہمان خانہ تھا۔ایک دو بار میں نے دروازہ بند کیا، لیکن وہ کبھی مقفل نہیں ہوا اور ہمیشہ یہ خطرہ رہتا تھا کہ کوئی بغیر اجازت کے داخل ہو جائے سوائے ایک دفعہ کے جب میری والدہ نے دروازہ کھٹکھٹایا جب وہ بند تھا ،لیکن تالا نہیں اور میں نے اسے کھولا اور کہا کہ یہ کھلا ہے۔ پھر میری والدہ نے یہ کہتے ہوئے دروازہ کھلا چھوڑ دیا کہ دروازہ بند مت کرو ہم تم لوگوں کو پریشان نہیں کریں گے۔خلاصہ یہ ہے کہ دروازہ ایک دو بار بند ہوا، لیکن کبھی تالا نہیں لگا اور لوگ ہر وقت کمرے سے باہر رہتے تھے اور ہر وقت کسی کے کمرے میں داخل ہونے کا خوف رہتا تھا۔
چنانچہ واقعات اس طرح ہوئے۔واقعہ نمبر 01 (یہ مارچ 2022 میں ہوا): میری بیوی کال پر طلاق مانگنے لگی اور میں دینے سے انکار کر رہا تھا۔ وہ پوچھتی رہی اور میں نے کال کاٹ دی۔ پھر میں نے فیصلہ کیا کہ میں اسے طلاق نہیں دوں گا لیکن میں اسے ڈرا دوں گا تاکہ وہ دوبارہ طلاق نہ مانگے۔ 2-3 منٹ کے بعد اس نے کال کی لیکن اس بار اس نے طلاق نہیں مانگی، اس نے صرف اتنا کہا "کیا ہوا" اور میں خاموش رہا،اس نے پھر پوچھا اور میں نے روتے ہوئے جواب دیا کہ "تم جو چاہتی تھی وہ ہو گیا" "ہمارا کوئی رشتہ نہیں" "آپ آزاد ہیں (اگر میں نے یہ کہا تو میں نے یہ الفاظ اردو میں نہیں انگریزی میں کہے ہوں گے)"، "آپ نے یہ کیوں مانگا"، میں اب آپ کا شوہر نہیں ہوں۔ (انگریزی میں)"، "جاو کسی اور سے شادی کرو" پھر میری بیوی کو گھبراہٹ کا دورہ پڑنے لگا اور میں نے اس سے کہا کہ میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے طلاق کا لفظ نہیں کہا اور نہ ہی میں نے کبھی اس کا ارادہ کیا۔
واقعہ نمبر 02 (یہ جون 2022 میں ہوا): ہم واٹس ایپ میسجز پر بات کر رہے تھے اور وہ طلاق مانگ رہی تھی اور میں دینے سے انکار کر رہا تھا لیکن وہ مانگتی رہی اور میں نے ٹیکسٹ پر جواب دیا "day dayta hun apko” (یہ اردو میں مستقبل کے لیے استعمال ہوتا ہے کہ "میں تمہیں دوں گا"" پھر اس نے مجھے فوری طور پر دینے کی یاد دلائی اور میں نے جواب دیا "دیرہا (جس کا مطلب ہے "دینے لگا" مستقبل میں دینے کا ارادہ۔ اردو میں یہ حال اور مستقبل دونوں ہوسکتا ہے)" اور پھر اس نے مجھے یاد دلایا"طلاق" کہا اور میں نے جواب دیا "دیدی (اس کی تصدیق کرتے ہوئے)" اور پھر اس نے کہا "چوڑو میری جان" اور میں نے جواب دیا "چھوڑ دی" "میں اب تمہارا شوہر نہیں ہوں"۔ اور پھر میں نے اسے بتایا کہ میں نے طلاق کا لفظ استعمال نہیں کیا اور نہ ہی میں نے اس کا ارادہ کیا۔ یہ پیغامات ایک ہی گفتگو میں ہوئے اور بعد میں کہے گئے کنائی الفاظ، لفظ "دیدی" کی تصدیق کے لیے تھے۔ میں نے ان الفاظ سے کبھی دوسری یا تیسری طلاق کا ارادہ نہیں کیا۔
واقعہ نمبر 03 (یہ فروری 2024 میں ہوا): ہم کال پر بات کر رہے تھے اور وہ طلاق مانگ رہی تھی۔ میں اس کی کال کاٹتا رہا، کیونکہ میں اسے طلاق نہیں دینا چاہتا تھا لیکن وہ مجھے کال کرتی رہی۔ پھر اس کال پر اس نے کہا "وہ الفاظ کہو" اور میں نے جواب دیا "دیدی (دی گئی)" اور پھر میں نے کال کاٹ دی۔ اگلی کال میں نے واضح کیا کہ میں نے لفظ طلاق استعمال نہیں کیا اور نہ ہی میرا ارادہ تھا۔ بر اہ کرم نوٹ کریں کہ میں کبھی نہیں جانتا تھا کہ میں نے جو الفاظ کہے ہیں، وہ طلاق میں پڑ سکتے ہیں، اس لیے میں نے کبھی رجوع کا ارادہ نہیں کیا ،کیونکہ اس وقت میں ہمیشہ جانتا تھا کہ وہ میری بیوی ہے اور ہم ایک عام جوڑے کی طرح بات کرتے رہے، کیونکہ طلاق کے بارے میں میری سمجھ یہ تھی کہ یہ تبھی واقع ہو گی جب کوئی شخص واضح طور پر لفظ "طلاق" کہے گا۔ اگر کوئی طلاق گرتی ہے تو براہ کرم مجھے بتائیں۔ شکریہ ۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورت مذکورۃ میں الگ الگ مختلف الفاظ سے طلاق دی ہے اور چونکہ خلوت صحیحہ بھی نہیں ہوئی تھی،لہذا پہلے لفظ سے ہی ایک طلاق واقع ہوکر بیوی بائنہ ہوگئی ، باقی الفاظ لغو ہوں گے ۔اس صورت میں بیوی پر عدت بھی نہیں ہوگی ۔ اب اگراکٹھا رہناچاہتے ہیں ،تو دونوں رضامندی کے ساتھ دوبارہ از سرِنو نئے مہر کے ساتھ دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرسکتے ہیں۔
حوالہ جات
وفي الفتاوى العالمكيرية :والخلوة الصحيحة :أن يجتمعا في مكان ليس هناك مانع يمنعه من الوطء حسا أو شرعا أو طبعا، كذا في فتاوى قاضي خان. ( الفتاوى العالمكيرية : 1/ 304)
قال العلامة الحصكفي رحمه الله: قالت لزوجها: طلقني ،فقال : فعلت ،طلقت. ( الدر المختار: 3/ 294)
قال العلامةابن عابدین رحمه الله: قوله : ( فقال :فعلت) أي طلقت بقرينة الطلب. (رد المحتار: 3/ 294)
قال العلامة المرغيناني رحمه الله: وإذا طلق الرجل امرأته ثلاثا قبل الدخول بها ،وقعن عليها.... فإن فرق الطلاق، وبانت بالأولى ،ولم تقع الثانية، ولا الثالثة. (الھدایۃ: (233/1
وقال العلامة العيني رحمه الله: قوله: (فإن فرق الطلاق) ... (بانت بالأولى): أي باللفظ الأول، وهو قوله: أنت طالق، وتبين لا إلى عدة، لأنها غير مدخولة. (ولم تقع الثانية ولا الثالثة): لأنه لا يبقى لوقوعها محل، فيلغو كلاهما. (البناية : 5/ 354)
قال العلامة الزيلعي رحمه الله: أن الطلاق قبل الدخول لا تجب فيه العدة ، قال تعالى :{إذا نكحتم المؤمنات ثم طلقتموهن من قبل أن تمسوهن فما لكم عليهن من عدة تعتدونها} [الأحزاب: 49]. (تبيين الحقائق: 3/ 26)
قال العلامة الزيلعي رحمه الله: قال رحمه الله: (وإن فرق بانت بواحدة) أي إن فرق الطلاق بانت بطلقة واحدة ،وذلك مثل أن يقول: أنت طالق واحدة وواحدة وواحدة، أو يقول: أنت طالق طالق طالق ،أو يقول: أنت طالق ،أنت طالق ،أنت طالق.(تبيين الحقائق : 2/ 213)
قال العلامة النسفی رحمه الله: طلّق غير الموطوءة ثلاثًا ،وقعن، وإن فرّق بانت بواحدةٍ. (كنز الدقائق: 275)
قال العلامة ابن نجيم رحمه الله: وقد شرط المصنف في إقامتها مقام الوطء شروطا ترجع إلى أربعة أشياء:الخلوة الحقيقية ،وعدم مانع حسي ،وعدم مانع طبعي ،وعدم مانع شرعي من الوطء.
فالأول للاحتراز عما إذا كان هناثالث فليست بخلوة ،سواء كان ذلك الثالث بصيرا أو أعمى أو يقظانا أو نائما بالغا أو صبيا يعقل، وفصل في المبتغى في الأعمى، فإن لم يقف على حاله ،تصح وإن كان أصم. إن كان نهارا لا تصح، وإن كان ليلا تصح .
وللاحتراز عن مكان لا يصلح للخلوة والصالح لها أن يأمنا فيه اطلاع غيرهما عليهما كالدار والبيت ولو لم يكن له سقف، وكذا الخيمة في المفازة والمحل الذي عليه قبة مضروبة،وكذا البستان الذي له باب وأغلق، فلاتصح في المسجد والطريق الأعظم والحمام وسطح الدار من غير ساتر والبستان الذي ليس له باب وإن لم يكن هناك أحد. واختلف في البيت إذا كان بابه مفتوحا ،أو طوابقه بحيث لو نظر إنسان رآهما ،ففي مجموع النوازل : إن كان لا يدخل عليهما أحد إلا بإذن ،فهي خلوة .واختار في الذخيرة أنه مانع ،وهو الظاهر.(البحر الرائق : 3/ 162)
سخی گل بن گل محمد
دارالافتاءجامعۃالرشید، کراچی
9جمادی الثانیة،1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سخی گل بن گل محمد | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |