03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اکراہ کی حالت میں زبانی قبول کئے گئے نکاح کا حکم
85857نکاح کا بیاننکاح کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

میرا نام زکیہ بی بی بنت علی احمدشاہ ہے،میں اپنا ایک مسئلہ پوچھنا چاہتی ہوں،میرے چاچو کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں اور ہم تین بھائی اور دو بہنیں ہیں،والد صاحب میری شادی کروانا چاہتے تھے تو میں نے انکار کردیا اور جب میں نے کئی دفعہ انکار کیا تو میرے والد نے کہا کہ دیکھیں گے، پھر آٹھ مہینے بعد انہوں نے شادی کی تاریخ دے دی،میں نے اس وقت بھی والد صاحب سے کہا کہ میں نے اس جگہ شادی نہیں کرنی،تو میرے والد نے سب سے کہا  کہ میری چھوٹی بیٹی نہیں مانتی تو دوسروں  کی کردو،اس کی بعد میں دیکھیں گے،اس کے بعد میرا بھائی توقیر اور چھوٹا بھائی شکیل احمد یہ دونوں میرے پاس آئے تو میں نے انہیں بھی منع کیا،جس پر توقیر نے کہا کہ تم کروگی، میں بولی میں نے ابو سے بھی کہہ دیا ہے،تو توقیر بولا کہ ہمارا تو کوئی مسئلہ نہیں،مسئلہ تو سارا ابو کا ہے،میں بولی ابو کو تو میں سو دفعہ انکار کرچکی ہوں۔

اس کے بعد میں پھر اپنے والد کے پاس گئی تو انہوں نے کہا کے میں نے بول دیا ہے کہ دوسروں کی کرو اور زکیہ کی نہیں کرنی،اس کے بعد میرا ماموں آیا  اور اس نے میرے بھائیوں کو کہا کہ تم لوگ اپنی بہن کو مارو اور مناؤ تو میرے بھائی توقیر اور شکیل نے مجھے کمرے میں بند کرکے پنکھے کے پروں اور بجلی کے تاروں کے ساتھ اتنا مارا کہ میرے جسم کے کپڑے تک پھٹ گئے، اس وقت بھی میں نے کہا کہ میں نہیں کرتی،مجھے اتنا مارا گیا کہ میری کمر اور بازؤں سے خون نکل آیا،میرے ہونٹ پھٹ گئے،اس بعد میرے ماموں اور چاچو نے کمرے کا دروزا توڑا تو میرا بھائی توقیر پسٹل لے کر آیا اور گولی چلانے لگا تو میرے ماموں نے کہا کہ نہیں یہ ادھر ہی کرے گی۔

 اس کے بعد مجھے کچھ یاد نہیں،بس انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر کاغذ پر لکھا اور سب کچھ خود ہی بول دیا،اس وقت مجھے کچھ ہوش نہیں تھا،صبح ہوئی تو میں نے پھر کہا کہ میں یہ سب نہیں مانتی،پھر اگلے دن شام کو میرا ماموں میرےپاس نکاح نامہ لےکرآیا اور کہا کہ تم قبول کرو،میں نے انکار کیا تو میرے ماموں نے پھر مجھے مارا پیٹا،میرے ہونٹوں پر  مکے  مارے  اور کہا :قبول کرو،میں نے انکار کیا،اس کے بعدمیرے ماموں نے خود ہی سب کچھ پڑھا اور کہا: قبول کرو،میں نے انکار کیا،جس پر مجھے دوبارہ مارا گیا،اس کے بعد اس نے میرا  ہاتھ پکڑ کر نکاح نامہ پر لکھا اور سب کو بولا کہ نکاح ہو گیا،میں نے تب بھی کہا کہ میں نہیں مانتی تو میرے ماموں بولے،تیرے ماننے یا نہ  ماننے سے اب کچھ نہیں ہوسکتا،اس نے سب میں یہ بات مشہور کردی تھی،اب اس بات کو تین  چار سال گزرچکے ہیں،میں نے ایک دو جگہ سے یہ مسئلہ پوچھا بھی  ہے،جواب یہ ملا ہے کے آپ کا نکاح نہیں ہوا،اب میں دل کی تسلی کے لئے آپ سے پھر سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ یہ نکاح ہوا یا نہیں؟

کیونکہ میرے والد اور والدہ کے روکنے کے باوجودوہ لوگ نہیں رکے،میرے بھائیوں نے مجھے مارا پیٹا،یہاں تک کہ گولی مارکر قتل کرنے لگے،لیکن دیگر رشتہ داروں کی مداخلت سے میں بچ گئی،میرے ماموں نےمیرا ہاتھ پکڑ کر زبردستی دستخط کروائے، میرے مسلسل انکار کے باوجود جب انہوں نے مار پیٹ کی حد کردی تو مجبورا جان چھڑانے کے لئے میں نے صرف اتنا کہا کہ صحیح ہے۔

اب چار سال ہوچکے ہیں،میری رخصتی نہیں کرواسکے،جبکہ دوسری تین  دلہنوں کی رخصتی ہوگئی ہے،میرے پاس ہر بندہ آیا، میں نے کہا کہ شریعت کی نظر میں یہ کوئی نکاح نہیں ہے۔

تنقیح:لڑکی سے دستخط نکاح نامہ پر لئے گئے تھے اور گھر میں نکاح کیا جارہا تھا،لڑکی سے اسے قبول کروانے کی کوشش کی گئی،جب اس نے انکار کیا تو اسے مارا پیٹا گیا،بالآخر مار پیٹ سے تنگ آکر جان چھڑانے کے لئے لڑکی نے کہا ٹھیک،یا صحیح۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

پہلے بطور تمہید آپ یہ بات سمجھ لیں کہ شریعت نے نکاح کے معاملہ میں والدین اور اولاد دونوں کو حکم دیا ہے کہ ایک دوسرے کی پسند کی رعایت کریں، اولاد کے بالغ ہو جانے کے بعد ان کی مرضی کے خلاف رشتہ کرنا اور اس کے لیے ان پر  دباوٴ  ڈالنا زیادتی ہے، لڑکا لڑکی بلوغت کے بعد  اپنا رشتہ پسند کرنے کےخود مجاز ہو جاتے  ہیں، چنانچہ  والدین کے لئے اپنے بچوں کا  کسی ایسی جگہ نکاح کروانا جائز نہیں جہاں وہ بالکل راضی نہ ہوں، کیونکہ شادی کے بعد شوہر کے ساتھ زندگی لڑکی نے گزارنی ہوتی ہے اور اس طرح زور زبردستی  کے ذریعے کئے گئے رشتوں میں اکثر میاں بیوی دونوں خوشگوار ازدواجی زندگی سے محروم رہتے ہیں، اسی طرح بچوں کوبھی ایسی جگہ نکاح پر اصرار نہیں کرنا چاہیے جہاں والدین بالکل راضی نہ ہوں۔

خلاصہ یہ ہے کہ عاقلہ بالغہ  لڑکی پر نکاح کے معاملہ میں جبر اور زبردستی کرنا درست نہیں، والدین کو چاہیے کہ نکاح کے معاملہ میں اپنے بچوں کی پسند کی رعایت کریں، لیکن اولاد کو بھی چاہیے کہ والدین کو اپنا خیر خواہ سمجھتے ہوئے ان کی پسند کو  اپنی پسند پر ترجیح دیں،  اس لیے کہ عموماً والدین اور بزرگوں کے طے کردہ رشتے آگے چل کر خوش گوار ثابت ہوتے ہیں، ممکن ہے کہ ایک چیز فی الحال ناپسند ہو لیکن بعد میں وہ خیر اور محبت کا ذریعہ بن جائے  اور جو رشتے وقتی جذبات سے مغلوب ہو کر کیے جاتے ہیں تجربہ شاہد ہے کہ عموماً وہ ناپائیدار ہوتے ہیں، وقتی پسند بعد میں ناپسندیدگی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

تمہید کے بعد اصل سوال کا جواب یہ ہے کہ عاقلہ،بالغہ لڑکی کو کسی جگہ رشتے پر مجبور کرنا جائز نہیں،جبکہ اس حوالے سے اسے مارنا،پیٹنا اور تشدد کا نشانہ بنانا گھناؤنا ظلم ہے،چونکہ مذکورہ صورت میں آپ اس نکاح پر راضی نہیں تھیں اور متعدد بار آپ نے اولیاء کے سامنے اس کا اظہار بھی کیا تھا،جس کے نتیجے میں آپ کے والدین تو آپ کی بات پر آمادہ ہوگئے تھے،لیکن ماموں اور بھائیوں نے آپ سے اس رشتے کو قبول کروانے کے لئے تشدد کا راستہ اختیار کیا،چنانچہ نکاح نامہ لایا گیا،گھر میں نکاح کی مجلس منعقد کی گئی،آپ سے اس وقت قبول کرنے کا کہا گیا،آپ نے انکار کیا،جس پر ماموں آپ پر تشدد کرنے لگے،بالآخر ان کی مار پیٹ سے جان چھڑانے کے لئے آپ نے ٹھیک یا صحیح کہہ دیا،نکاح نامے پر آپ سے زبردستی دستخط لے لئے گئے،اس لئے سب سے پہلے تو ماموں اور بھائیوں پر لازم ہے کہ آپ سے بھی اپنے کئے کی معافی مانگیں اور ندامت کے ساتھ اللہ کے حضور بھی توبہ و استغفار کریں اور آئندہ کے لئے اس طرح کے گھناؤنے افعال سے گریز کریں۔

جبکہ اس جبر کے ذریعے کئے گئے نکاح کا حکم یہ ہے کہ جس لڑکے سے آپ کا نکاح کیا جارہا ہے اگر وہ آپ کے کفو کا ہے،یعنی لڑکا حسب نسب،مالداری ، دینداری اور پیشے کے لحاظ سے آپ  کے ہم پلہ ہو،یعنی لڑکی اورلڑکےدونوں کا تعلق معاشرےمیں ہم رتبہ سمجھے جانےوالےخاندانوں سے ہو،لڑکا لڑکی کے مہر اور نان نفقہ کی ادائیگی پر قادر ہو،کردار اور سیرت کے لحاظ سے بھی دونوں ایک جیسے ہوں، یعنی یا تو دونوں دین دار ہوں ،یا دونوں دین دار نہ ہوں،یعنی لڑکے کی جانب سے مذکورہ اشیاء میں برابری کا اعتبار کیا جائے گا کہ لڑکے کی حیثیت ان چیزوں میں لڑکی کے برابر یا اس سے زیادہ ہواور نکاح مہرمثل(یعنی وہ مہر جو والد کے گھرانے میں ان عورتوں کا عام طور پر طے کیا جاتا ہو جوعمر،خوبصورتی،کنوارے پن،مالداری،زمانے اور علاقے کے لحاظ سے آپ جیسی ہوں) پر ہوا  ہوتو نکاح منعقد ہوگیا ہے،کیونکہ اکراہ کی حالت میں تحریری طور پر نکاح کی اجازت تو معتبر نہیں ہوتی،لیکن زبانی طور پر اجازت شرعا معتبر ہوتی ہے اور مذکورہ صورت میں آپ کو مجبور کرکے زبانی قبول کروالیا گیا تھا۔

لیکن اگر نکاح مہر مثل سے کم پر کیا گیا ہے،یا لڑکا مذکورہ بالا چیزوں میں آپ کے برابر کا نہیں ہے تو پھر مہرمثل سے کمی کی صورت میں شوہر کو اختیار دیا جائے گا کہ پورا مہرمثل ادا کرے یا آپ کو طلاق دے دے،جبکہ غیر کفو ہونے کی صورت میں آپ کو اختیار ہوگا،چاہیں تو اس کے ساتھ رہیں اور چاہیں تو طلاق لے لیں۔

اگر لڑکا از خود طلاق دینے پر آمادہ نہ ہو تو آپ عدالت سے رجوع کرکے بھی اس سے چھٹکارا حاصل کرسکتی ہیں،جس کا طریقہ کار ہے کہ آپ عدالت سے رجوع کرکے اپنے مدعا کو شرعی گواہی (یعنی دو دیانت دار مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں) کے ذریعے ثابت کریں ،عدالت لڑکے کو طلب کرکے طلاق دینے کا مطالبہ کرے،اگر لڑکا حاضر ہوکر طلاق دے دے تو ٹھیک،ورنہ قاضی آپ کے نکاح کو فسخ کردے اور چونکہ رخصتی نہیں ہوئی،اس لئے طلاق یا فسخ نکاح کے بعد آپ کے ذمے عدت لازم نہیں ہوگی۔

نیزاگر یہ خدشہ ہو کہ جج گواہی نہیں لیں گے تو گواہوں کی گواہیاں اسٹامپ پیپر پر درج کرواکر ان کے دستخط کروالیں اور گواہوں کو بھی عدالت میں پیش کریں اور جج سے درخواست کریں کہ آپ کے دعوی پر گواہوں کی گواہی بھی ملاحظہ کریں۔

علاوہ ازیں آپ کے اولیاء پر بھی لازم ہے کہ زبردستی رخصتی سے گریز کریں اور یہاں سے رشتہ ختم کرواکر کسی ایسے مناسب رشتے کا انتظام کریں جس پر آپ بھی راضی ہوں،کیونکہ اس طرح زور و زبردستی سے کئے گئے رشتوں میں اکثر میاں بیوی دونوں خوشگوار ازدواجی زندگی سے محروم رہتے ہیں،جو بعد میں دونوں خاندانوں کے لئے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔

حوالہ جات

"الدر المختار " (3/ 58):

"(ولا تجبر البالغة البكر على النكاح) لانقطاع الولاية بالبلوغ (فإن استأذنها هو) أي الولي وهو السنة (أو وكيله أو رسوله أو زوجها) وليها وأخبرها رسوله أو الفضولي عدل (فسكتت) عن رده مختارة (أو ضحكت غير مستهزئة أو تبسمت أو بكت بلا صوت) فلو بصوت لم يكن إذنا ولا ردا حتى لو رضيت بعده انعقد سراج وغيره، فما في الوقاية والملتقى فيه نظر (فهو إذن) .....

"الدر المختار " (6/ 137):

"(وصح نكاحه وطلاقه وعتقه) لو بالقول لا بالفعل كشراء قريبه ابن كمال".

"رد المحتار" (3/ 235):

"(قوله :فإن طلاقه صحيح) أي طلاق المكره وشمل ما إذا أكره على التوكيل بالطلاق فوكل فطلق الوكيل فإنه يقع .بحر. قال محشيه الخير الرملي: مثله العتاق كما صرحوا به. وأما التوكيل بالنكاح فلم أر من صرح به والظاهر أنه لا يخالفهما في ذلك، لتصريحهم بأن الثلاث تصح مع الإكراه استحسانا.

 وقد ذكر الزيلعي في مسألة الطلاق أن الوقوع استحسان والقياس أن لا تصح الوكالة ؛لأن الوكالة تبطل بالهزل فكذا مع الإكراه كالبيع وأمثاله. وجه الاستحسان أن الإكراه لا يمنع انعقاد البيع ولكن يوجب فساده، فكذا التوكيل ينعقد مع الإكراه والشروط الفاسدة لا تؤثر في الوكالة لكونها من الإسقاطات؛ فإذا لم تبطل فقد نفذ تصرف الوكيل اهـ فانظر إلي علة الاستحسان في الطلاق تجدها في النكاح فيكون حكمهما واحدا تأمل اهـ كلام الرملي".

"مجمع الضمانات "(ص: 205):

"وإن أكرهت المرأة على النكاح فلا شيء على المكره فإن كان الزوج كفؤا والمسمى مهر المثل، أو أكثر جاز، وإن كان أقل فالزوج بالخيار إن شاء أتم لها مهر المثل، وإن شاء فارقها إن لم يدخل بها ولا شيء عليه، وإن دخل بها وهي طائعة فهو رضا بالمسمى إلا أن للأولياء حق الاعتراض".

"تحفة الفقهاء" (3/ 276):

"وفي النكاح إذا أكرهت المرأة على التزويج بألف ومهر مثلها عشرة آلاف فالنكاح صحيح ويقول القاضي للزوج إن شئت تمم لها مهر مثلها وإلا فرقت بينكما وإن لم ترض المرأة إن كان الزوج كفوا لهاوتخير المرأة إن كان غير كفء وإن تمم لها مهر مثلها".

"بدائع الصنائع " (7/ 185):

"فأما إذا أكرهت المرأة، فإن كان المسمى في النكاح قدر مهر المثل أو أكثر منه جاز النكاح ولزم، وإن كان المسمى أقل من مهر المثل بأن أكرهت على النكاح بألف درهم، ومهر مثلها عشرة آلاف فزوجها أولياؤها وهم مكرهون جاز النكاح لما ذكرنا، وليس للمرأة على المكره من مهر مثلها شيء؛ لأن المكره ما أتلف عليها مالا؛ لأن منافع البضع ليست بمتقومة بأنفسها، وإنما تصير متقومة بالعقد.

والعقد قومها بالقدر المسمى فلم يوجد من المكره إتلاف مال متقوم عليها فلا يجب عليه الضمان، ولا يجب الضمان على الشهود أيضا؛ لأنه لما لم يجب على المكره فلأن لا يجب على الشهود أولى، ثم ينظر إن كان الزوج كفئا فقال للزوج: إن شئت فكمل لها مهر مثلها وإلا فنفرق بينكما، فإن فعل لزم النكاح، وإن أبى تكميل مهر المثل يفرق بينهما إن لم ترض بالنقصان؛ لأن لها في كمال مهر مثلها حقا؛ لأنها تعير بنقصان مهر المثل فيلحقها ضرر العار، وإذا فرق بينهما قبل الدخول بها لا شيء على الزوج؛ لأن الفرقة جاءت من قبلها قبل الدخول بها، ولو رضيت بالنقصان صريحا أو دلالة بأن دخل بها عن طوع منها فلها المسمى وبطل حقها في التفريق لكن بقي حق الأولياء فيه عند أبي حنيفة فلهم أن يفرقوا، وعندهما ليس للأولياء حق التفريق لنقصان المهر على ما عرف في كتاب النكاح.

ولو دخل بها على كره منها لزمه تكميل مهر المثل؛ لأن ذلك دلالة اختيار التكميل، وإن لم يكن الزوج كفئا فللمرأة خيار التفريق لانعدام الكفاءة ونقصان مهر المثل أيضا، وكذا الأولياء عند أبي حنيفة - رحمه الله - وعندهما لهم خيار عدم الكفاءة إما لا خيار لهم لنقصان مهر المثل، فإن سقط أحد الخيارين عنها يبقى لها حق التفريق لبقاء الخيار الآخر، وإن سقط الخياران جميعا فللأولياء خيار عدم الكفاءة بالإجماع وفي خيار نقصان المهر خلاف على ما عرف حتى أن الزوج إذا دخل بها قبل التفريق على كره منها حتى لزمه التكميل بطل خيار النقصان وبقي لها عدم خيار الكفاءة.

ولو رضيت بعدم الكفاءة أيضا صريحا ودلالة بأن دخل بها الزوج على طوع منها سقط الخياران جميعا وبطل حقها في التفريق أصلا لكن للأولياء الخياران جميعا، وعندهما أحدهما دون الآخر، ولو فرق بينهما قبل الدخول بها لا شيء على الزوج؛ لأن الفرقة ما جاءت من قبله بل من قبل غيره فلا يلزمه شيء".

"الفتاوى الهندية "(1/ 294):

"وإذا أكرهت المرأة على أن تزوج نفسها من كفء بمهر المثل ثم زال الإكراه فلا خيار لها وأما إذا أكرهت على أن تزوج نفسها من غير كفء أو بأقل من مهر المثل ثم زال الإكراه فلها الخيار كذا في المحيط".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

12/جمادی الثانیہ1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب