03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
وی پی این ( vpn )کااستعمال شرعاً کیسا ہے؟
85811متفرق مسائلمتفرق مسائل

سوال

انٹرنیٹ  میں  وی پی این   ( vpn )  کا استعمال شرعاً کیسا ہے؟

تنقیح :  سائل کی طرف سے وضاحت : انٹرنیٹ بہت سلو رہتا ہے ،  نیٹ اسپیڈ کےلیے  وی پی این    استعمال کرنا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ایسے سوفٹ وئیرز یا ویب سائٹس جن کا کوئی جائز استعمال موجود ہو،  وہ  اصلاً   جائز ہیں ۔  البتہ   اگر کوئی    نا  جائز مقاصد کے لیے استعمال  میں لائے   ، تو یہ جائز نہیں ہے۔

وی پی این VPN (Virtual Private Network) ایک ٹیکنالوجی ہے، جوحقیقی آئی پی ایڈریس کو چھپاتی ہے اور انٹرنیٹ کنیکشن کو انکرپٹ (مخفی) کر تی ہے  ، جس کے ذریعےجغرافیائی پابندیوں کے بغیر ویب سائٹس تک رسائی ہوتی ہے ۔ وی پی این کا استعمال جائز اور ناجائز دونوں طرح کے کاموں میں ہو سکتا ہے۔ جائز مقاصد جیسے ہیکرز یا دوسرے غیر مجاز افراد  سے ذاتی معلومات کی حفاظت کرنا۔ ایسے ممالک جہاں کچھ اسلامی، تعلیمی ویب سائٹس یا تحقیقی مواد بلاک ہو ،    اس تک  رسائی کے لیے وی پی این استعمال کرنا۔ کاروبار، بینکنگ، اور آن لائن ٹرانزیکشنز میں وی پی این استعمال کرنا ، تاکہ حساس معلومات چوری نہ ہوں۔ مزید اس طرح کی تمام صورتوں میں  شرعاً وی پی این کا استعمال جائز ہے ، البتہ اگر اسلامی حکومت کی طرف سے   وی پی این  کی رجسٹریشن لازم ہو، تو اس پر عمل کرنا ضروری ہے ،  ورنہ قانون کی خلاف ورزی کا گناہ ہوگا۔

نا  جائز مقاصد جیسے پائریٹڈ مواد، فلمیں، گانے، یا غیر مجاز سوفٹ ویئر ڈاؤنلوڈ کرنا،  غیر اخلاقی ویب سائٹس تک رسائی ، فراڈ دھوکہ دہی یا کسی غیر قانونی سرگرمی کو چھپانے کے لیے  ، یا  اس طرح کی دیگر  تمام صورتوں میں  شرعی نقطۂ نظر سے وی پی این کا استعمال قطعاً ناجائز و حرام ہے۔

سوال میں مذکورہ صورت کے مطابق اگر وی پی این کا استعمال اپنے نیٹ کی اسپیڈ کو بہتر بنانے کے لیے کیا جائے اور اس میں کوئی غیر قانونی یا غیر اخلاقی پہلو شامل نہ ہو،نیز  پی ٹی اے (PTA) سے رجسٹرڈ ہو  ، تواستعمال کرنے کی  گنجائش ہے ۔

حوالہ جات

قال العلامة ابن عابدين  رحمه الله : تجب طاعة الإمام فيما ليس بمعصية...أن هارون أمرهما [أبايوسف ومحمد] أن يكبرا بتكبير جده، ففعلا ذلك ؛ امتثالا له ، لا مذهبا واعتقادا،  قال في المعراج : لأن طاعة الإمام فيما ليس بمعصية واجبة.(رد المحتار:3/ 14)

 قال  العلامة العينى رحمه الله تعالى  :   ما ‌يفضي ‌إلى ‌الحرام فحرام . (البناية شرح الهداية:2/   354)

‌ وفي الفقه الإسلامي وأدلته:  ما ‌يتوصل ‌به ‌إلى ‌الحرام فهو حرام، ولو بالقصد، ولقوله تعالى: {ولا تعاونوا على الإثم والعدوان} [المائدة:2/ 5]، وهذا نهي يقتضي التحريم.

 (الفقه الإسلامي وأدلته:5 / 3458 )

قال  العلامة الحموي رحمه الله :  الأصل في الأشياء الإباحة حتى يدل الدليل على عدم الإباحة ، ذكر العلامة قاسم بن قطلوبغا في بعض تعاليقه أن المختار أن الأصل الإباحة عند جمهور أصحابنا، وقيده فخر الإسلام بزمن الفترة فقال: إن الناس لن يتركوا سدى في شيء من الأزمان، وإنما هذا بناء على زمن الفترة لاختلاف الشرائع ووقوع التحريفات، فلم يبق الاعتقاد، والوثوق على شيء من الشرائع فظهرت الإباحة بمعنى عدم العقاب، بما لم يوجد له محرم ولا مبيح. انتهى. ( غمز عيون البصائر:1  /  223)

 قال  العلامة الشاطبي  رحمه الله :  ‌وقد ‌تقرر ‌أن ‌الوسائل ‌من ‌حيث ‌هي ‌وسائل ‌غير ‌مقصودة ‌لأنفسها، ‌وإنما ‌هي ‌تبع ‌للمقاصد ‌بحيث ‌لو ‌سقطت ‌المقاصد سقطت الوسائل، وبحيث لو توصل إلى المقاصد دونها لم يتوسل بها، وبحيث لو فرضنا عدم المقاصد جملة لم يكن للوسائل اعتبار، بل كانت تكون كالعبث.

( الموافقات:2  /  353)

عبداللہ اسلم

دارالافتا ء جامعۃ الرشید ، کراچی

09/ جمادى الآخرہ‏ ،  1446

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ اسلم ولد محمد اسلم

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب