85807 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
ميرے والد فوت ہو گئے ہیں ۔ جنہوں نے ترکے میں دو کروڑ چودہ لاکھ 2،1400000 چھوڑےہیں۔ہم ترکے کی شرعی تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ ہم 6 بھائی اور4بہنیں ہیں جن میں سے ایک بھائی اور بہن والد صاحب کے انتقال سے پہلے فوت ہوگئے تھے۔والدہ حیات ہیں ہم میں سے ہر ایک کو کتنا حصہ آئے گا ؟شریعت کی رو شنی میں جواب دیں شکریہ۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مرحوم نے بوقت انتقال اپنی ملکیت میں جو کچھ منقولہ و غیر منقولہ مال ،جائیداد ،سونا،نقدی اور ہر قسم کا چھوٹا بڑا جو سازوسامان چھوڑا ہے اور ان کا وہ قرض جو کسی کے ذمہ واجب ہو، یہ سب ان کا ترکہ ہے۔ترکہ میں سے ان کے کفن دفن کے متوسط اخراجات نکالنے ،ان کے ذمہ واجب الاداء قرض ادا کرنے اور کل ترکہ کے ایک تہائی کی حد تک ان کی جائز وصیت پر عمل کرنے کے بعد جو ترکہ باقی بچے وہ سوال میں مذکور ورثہ کے درمیان تقسیم ہوگا جس میں ماں کو 16.67%اور ہر بیٹے کو% 12.82 اور ہر بیٹی کو %6.41 فیصد حصہ دیا جائے گا۔ جو بھائی اور بہن والد سے پہلے فوت ہوگئے ہیں ان کو حصہ نہیں ملے گا۔تاہم اگر ان کی اولاد ہے اور تمام ورثہ اپنی رضامندی سے انہیں کچھ دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں۔آسانی کے لیے درج ذیل نقشہ ملاحظہ کریں۔
نمبر شمار |
میت کے ورثاء |
تقسیم جائیداد باعتبار حصص |
تقسیم جائیداد باعتبار فیصد |
ترکہ |
1 |
بيوى |
13حصے |
%12.5 |
2,675,000 |
2 |
بیٹا |
14 حصے |
13.46% |
2,880,768 |
3 |
بیٹا |
14 حصے |
13.46% |
2,880,768 |
4 |
بیٹا |
14 حصے |
13.46% |
2,880,768 |
5 |
بیٹا |
14 حصے |
13.46% |
2,880,768 |
6 |
بیٹا |
14 حصے |
13.46% |
2,880,768 |
7 |
بیٹی |
7حصے |
6.73% |
1,440,384 |
8 |
بیٹی |
7حصے |
6.73% |
1,440,384 |
9 |
بیٹی |
7حصے |
6.73% |
1,440,384 |
حوالہ جات
ﵟيُوصِيكُمُ ٱللَّهُ فِيٓ أَوۡلَٰدِكُمۡۖ لِلذَّكَرِ مِثۡلُ حَظِّ ٱلۡأُنثَيَيۡنِۚﵞ [النساء: 11]
ﵟوَلَكُمۡ نِصۡفُ مَا تَرَكَ أَزۡوَٰجُكُمۡ إِن لَّمۡ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٞۚ فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٞ فَلَكُمُ ٱلرُّبُعُ مِمَّا تَرَكۡنَۚ مِنۢ بَعۡدِ وَصِيَّةٖ يُوصِينَ بِهَآ أَوۡ دَيۡنٖۚ وَلَهُنَّ ٱلرُّبُعُ مِمَّا تَرَكۡتُمۡ إِن لَّمۡ يَكُن لَّكُمۡ وَلَدٞۚ فَإِن كَانَ لَكُمۡ وَلَدٞ فَلَهُنَّ ٱلثُّمُنُ مِمَّا تَرَكۡتُمۚ مِّنۢ بَعۡدِ وَصِيَّةٖ تُوصُونَ بِهَآ أَوۡ دَيۡنٖۗ ﵞ [النساء: 12]
(يبدأ من تركة الميت الخالية عن تعلق الغير بعينها كالرهن والعبد والجاني) والمأذون المديون والمبيع المحبوس بالثمن والدار المستأجرة، وإنما قدمت على التكفين لتعلقها بالمال قبل صيرورته تركة (بتجهيزه) يعم التكفين (من غير تقتير ولا تبذير) ككفن السنة أو قدر ما كان يلبسه في حياته، ولو هلك كفنه:فلو قبل تفسخه كفن مرة بعد أخرى وكله من كل ماله (ثم) تقدم (ديونه التي لها مطالب من جهة العباد) ويقدم دين الصحة على دين المرض إن جهل سببه، وإلا فسيان كما بسطه السيد.وأما دين الله تعالى فإن أوصى به وجب تنفيذه من ثلث الباقي، وإلا لا (ثم) تقدم (وصيته) ولو مطلقة على الصحيح خلافا لما اختاره في الاختيار (من ثلث ما بقي) بعد تجهيزه وديونه.وإنما قدمت في الآية اهتماما لكونها مظنة التفريط (ثم) رابعا بل خامسا (يقسم الباقي) بعد ذلك (بين ورثته) أي الذين ثبت إرثهم بالكتاب أو السنة كقوله عليه الصلاة والسلام: أطعموا الجدات السدس أو الاجماع.(الدر المختار مع رد المحتار:6/759)
ثم شرع في العصبة بغيره فقال (ويصير عصبة بغيره البنات بالابن وبنات الابن بابن الابن) وإن سفلوا (والأخوات) لأبوين أو لأب (بأخيهن) فهن أربع ذوات النصف والثلثين يصرن عصبة بإخوتهن. (الدر المختار مع رد المحتار:6/ 775)
محمد علی
دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی
9/جمادی الثانیہ1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد علی ولد محمد عبداللہ | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |