86028 | زکوة کابیان | زکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان |
سوال
میرا نام دین محمدہے،ڈیرہ اللہ یار بلوچستان سے تعلق ہے،میں مدرسہ میں مدرس ہوں،ایک مسئلے کے حوالے سے تفصیل سے راہنمائی مطلوب ہے اور وہ یہ کہ:
ہمارے مدرسے کے ساتھ تعاون صرف زکوۃ اور عشر سے ہوتا ہے،نفلی صدقات نہ ہونے کے برابر ہیں،زکوۃ وغیرہ کو مدرسہ کے تمام مصارف میں خرچ کرنے کے لئے تملیک کا یہ طریقہ اختیارکیا گیا ہے کہ کچھ بالغ طلباء سے اجازت لی ہے کہ ہم تمہاری طرف سے زکوۃ وصول کریں گے اور پھر اسے مدرسہ کی ضرورت کے مطابق خرچ کریں گے اور اس کے لئے تمہاری طرف سے فلاں شخص کو وکیل بناتے ہیں تو کیا اس طرح اجازت لے کر وکیل بنانے سے تملیک ہوجاتی ہے یا نہیں؟اگر نہیں ہوتی تو اس کی آسان صورت بتائیں۔
جبکہ دوسری صورت تملیک کی یہ اپنائی ہے کہ مستحق اساتذہ نے مدرسہ کے ذمہ دار کو جو کہ عام شخص ہیں،اپنا وکیل بنایا کہ آپ کو زکوۃ کی مد میں جو بھی پیسہ ملے،آپ وہ رقم ہماری طرف سے وصول کرکے مدرسہ کی ضروریات پر خرچ کرسکتے ہیں،اس صورت کا کیا حکم ہے؟درست ہے،یا نہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
سوال میں ذکر کئے گئے دونوں طریقے درست ہیں،بس اس بات کا ضرور لحاظ رکھا جائے کہ جن بالغ طلبہ سے اجازت لی جائے وہ زکوة کے مستحق ہوں۔
نیز اس کے لئے یہ طریقہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے کہ داخلہ کے وقت بالغ اور غریب طلبہ سے داخلہ فارم میں اس بات پر دستخط لے لیے جائیں کہ وہ مدرسہ کی انتظامیہ کو زکاة وصدقات کی رقم وصول کرنے اور پھر اس رقم کو مدرسہ کی مصلحت کے مطابق مدرسہ کے کاموں میں اپنی صوابدید کے مطابق خرچ کرنے کا وکیل بناتے ہیں۔
اس طرح وصولی اور خرچ دونوں کی توکیل کے بعد زکاة کی جو رقم بھی مدرسے میں آئے گی،انتظامیہ کے اس پر قبضہ کرنے کے ساتھ ہی رقم دینے والوں کا ذمہ بری ہوجائے گا اور اس کے بعد انتظامیہ اپنی صوابدید کے مطابق اس رقم کو مدرسے کے مصالح میں جہاں چاہے گی خرچ کرسکے گی۔
حوالہ جات
"رد المحتار" (2/ 345):
" (قوله: أن الحيلة) أي في الدفع إلى هذه الأشياء مع صحة الزكاة.
(قوله: ثم يأمره إلخ) ويكون له ثواب الزكاة وللفقير ثواب هذه القرب. بحر. وفي التعبير بثم إشارة إلى أنه لو أمره أولا لا يجزئ؛ لأنه يكون وكيلا عنه في ذلك وفيه نظر؛ لأن المعتبر نية الدافع ولذا جازت وإن سماها قرضا أو هبة في الأصح كما قدمناه فافهم".
"الفتاوى الهندية" (6/ 392):
"إذا أراد أن يكفن ميتا عن زكاة ماله لا يجوز (والحيلة فيه أن يتصدق بها على فقير من أهل الميت)، ثم هو يكفن به الميت فيكون له ثواب الصدقة ولأهل الميت ثواب التكفين، وكذلك في جميع أبواب البر التي لا يقع بها التمليك كعمارة المساجد وبناء القناطر والرباطات ،لا يجوز صرف الزكاة إلى هذه الوجوه".
(والحيلة أن يتصدق بمقدار زكاته) على فقير، ثم يأمره بعد ذلك بالصرف إلى هذه الوجوه فيكون للمتصدق ثواب الصدقة ولذلك الفقير ثواب بناء المسجد والقنطرة".
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
20/جمادی الثانیہ1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق غرفی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب |